
محرم کے بعد
محرم کے بعد
منصور آفاق
چین کے سوشلسٹ رہنما مائوزے تنگ نے کہا تھا ’’میرے بھائی میں دیکھ رہا ہوں ۔تم بڑے عرصہ سے یہاں اِس انتظار میں بیٹھے ہوکہ تمہارےسامنے کھڑی ہوئی دیوار گرے گی اور تم اُس کے اُس پاربسی ہوئی اُس جنت میں داخل ہو جائو گے۔تمہاری بات بالکل درست ہے وقت اُس کی جڑوں کو بوسیدہ کررہا ہے اور تاریخ اُسے اپنے ْعبرت خانہ میں سجانے کے درپے ہے ۔مگر ہم انتظار کی صبر آزما ساعتوں کے محشر سے کیوں دوچار ہیں ۔ میں دو کدالیں لایا ہوں ۔ایک تم لے لو ایک میں ۔ آئو وقت کے ساتھ ہم بھی اِس کی تباہی کا سبب بننے والوں میں اپنا نام لکھوا دیں ‘‘
رائے ونڈ مارچ کے جلسہ میں جو کچھ عمران خان نے اپنے کھلاڑیوں سے کہا ۔وہ کچھ اِسی سے ملتا جلتا تھا۔مجھے ایسا لگا جیسے وہ اپنے ہر کھلاڑی سے کہہ رہے ہوں کہ میں دو بلے لایا ہوں ۔ایک تم لے لو ،ایک میں۔آئوہم بھی کرپشن کی دیوار کو گرانے والے وقت کی امداد کریں۔ محرم کے بعد اگر واقعی عمران خان دس لاکھ بلے بازوں کو لے کر اسلام آباد جاتے ہیں تو یقیناً وقت کی رفتارخاصی تیز ہو سکتی ہے ۔
بے شک وقت بڑی ظالم شے ہے ۔تاریخ میں بڑے بڑے محلات کا صرف ذکر رہ گیا ہے ۔کھنڈرات بھی باقی نہیں رہے ۔دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ وقت کے ساتھ بڑے بڑوں کی لاشیں بھی خاک میں مل کر خاک ہوجاتی ہیں ۔ وقت کی خاک، شاہ و گدا میں کوئی تمیز نہیں کرتی ۔ میر تقی میر نے کہا تھا
کل پائوں میرا کاسہ ء سر پر جو جا پڑا
یکسر وہ استخوانِ شکستہ سے چُو ر تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بےخبر
میں بھی کبھی کسی کا سرِ پُر غرور تھا
بہر حال یہ طے ہے کہ
عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج
طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے پاس
مجھے رائے ونڈ کے جلسے سے مجموعی طور پریہی پیغام ابھرتا ہوا نظر آیا ہے ۔یہ جلسہ بہت پُر جوش تھا۔ چہرے تمتما رہے تھے ۔شدتِ جذبات سے آنکھیں بھری ہوئی تھیں ۔پرچم لہرا رہے تھے ۔ترانوں پر دنیا جھوم رہی تھی۔ ایک تبدیلی کی تمنا میں گھروں سے نکلے ہوئےسرِ بازار رقصاں تھے ۔ایسا لگتا تھا جیسے ہر شخص یہی کہہ رہا ہو۔
بیا جاناں تماشا کن کہ درابنوہ جانبازاں
بصد سامانِ رسوائی سرِ بازار می رقصم
(اِدھر آ جاناں ، تماشا دیکھ کہ میں جانبازوں کے انبوہ میں تمام تر سامانِ رسوائی کے ساتھ رقص کررہا ہوں۔)
مگر یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ تبدیلی اتنی آسانی سے نہیں آیا کرتی ۔فلک بڑی سست رفتار ی گھومتاہے ۔ وقت جب کرب کے دوزخ میں کئی سال تڑپ لیتا ہے توپھر کوئی ایسی پُر نور اور ضیا بخش ساعت نمودار ہوتی ہے جو کسی نئے دور کی خالق ثابت ہوتی ہے۔کسی عظیم تاریخ کی تمہید بنتی ہے ۔اب دیکھنا ہے کہ محرم کے بعد تبدیلی کےلئے تحریک انصاف کے کارکن کتنی ایک صعوبتیں برداشت کرتے ہیں ۔کتنے حوصلے اور پامردی سے قانون قائم کرنے والوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اِس نئی سچ مچ کی احتجاجی تحریک میں ڈاکٹر طاہر القادری کے جیالوں کی شمولیت بھی انتہائی ضروری ہوگی۔ ان سر فروشوں کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے منچلوں کےلئے پولیس کے ساتھ گلی گلی دست و گریباں ہونا زیادہ مشکل نہیں رہے گا ۔دونوں کے کارکن مل کردمادم مست قلندر کا جو رقص ِ سرمدی پیش کر سکتے ہیں وہ اکیلے اکیلے ممکن نہیں ۔شیخ رشید کی موجودگی میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے کے عمل میں دونوں پارٹیاں ایک ساتھ ہونگی کیونکہ دونوں کی منزل ایک ہے۔اوراس بات کا بھی امکان ہے کہ باقی اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہو۔خاص طور پر پیپلز پارٹی ۔ دراصل پیپلز پارٹی کےلئے اب یہ ممکن نہیں رہاہے کہ وہ پنجاب میں کوئی بڑی عوامی تحریک چلا سکے ۔سندھ میں اس لئے ممکن نہیں کہ وہاں اس کی اپنی حکومت ہے ۔اُن کےلئے سب سے آسان راستہ یہی ہے کہ وہ نون لیگ کے ساتھ معاملات اندرونی طور پر درست رکھیں۔اگرچہ بلاول بھٹو چاہتا ہے کہ پیپلز پارٹی نواز حکومت کے خلاف میدان میں آئے مگر اسے بھی پنجاب میں سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔وہ کئی بارلاہور یا اسلام آبادمیں کسی بڑے جلسہ کے انعقاد کی خواہش کااظہار کر چکا ہے مگر اسے مایوسی ہوئی ہے ۔اسے صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ابھی پنجاب میں ایساممکن نہیں ہے ۔۔اگرچہ پنجاب کی پیپلز پارٹی یہ چاہتی تھی کہ بلاول بھٹو رائے ونڈ مارچ میں شریک ہوں تاکہ مردہ بدن کی رگوں میں پھر سے لہو دوڑنے لگے ۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔پیپلز پارٹی عمران خان کے اس جلسے میں شامل ہوتی تو اسے بڑی اہمیت ملتی کسی کو اس بات کا اندازہ نہیں ہونا تھاکہ جلسےمیں پیپلز پارٹی کے لوگ کتنے تھے ۔مگر لگتا ہے کہ سندھ کی پیپلز پارٹی ابھی نون لیگ کی حکومت کے خلاف اس حد تک نہیں جانا چاہتی ۔کچھ لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ خود عمران خان یہی چاہتے تھے کہ یہ جلسہ صرف تحریک انصاف کا ہی شو ہو ۔تاکہ دنیا میں معلوم ہوجائے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہوا ہے ۔
mansoor afaq

