کشمیر کمیٹی چھوڑ دیں یا پھر..... منصور آفاق
دیوار پہ دستک

کشمیر کمیٹی چھوڑ دیں یا پھر…..

کشمیر کمیٹی چھوڑ دیں یا پھر…..

منصور آفاق

ابھی ابھی ایک اچھی خبر نظر سے گزری ہےکہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے پاکستان کے سلامتی کے مشیرریٹائرڈ جنرل ناصرخان جنجوعہ کو دونوں ممالک میں کشیدگی کم کرنے کےلئے ٹیلی فون کیاہے۔میں ابھی یہ خبر پوری طرح پڑھ بھی نہیں سکا تھا کہ ٹیلی وژن پر یہ خبر نشر ہونے لگی کہ ساہمنی کے محاذ پر بھارتی توپوں نے بلا اشتعال گولہ باری شروع کردی ہے۔پاکستانی فوج کا توپ خانہ بھی منہ توڑ جواب دےرہا ہے۔

ناوک فگن کے تیر، نشانے کے اور ہیں
ہاتھی کے دانت یعنی دکھانے کے اور ہیں

کچھ ایسی ہی صورت حال اپنے مسلسل اقتدار میں رہنے والے مذہبی رہنمامولانا فضل الرحمٰن کی بھی ہے۔جنہیں کشمیر کا مقدمہ لڑنے کےلئے کشمیر پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔اس کمیٹی کو اربوں روپے کا بجٹ بھی دیا گیا جو خرچ ہو چکا ہے۔کہاں خرچ ہوا۔مجھے اس سے بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ میرا مسئلہ تو انڈین اخبار میں شائع ہونے والی ایک تکلیف دہ خبرہے۔انڈیا ٹو ڈے نے مولانا فضل الرحمٰن کو غلط طور پر اسٹیبلشمنٹ کے پوسٹر بوائے کی حیثیت دیتے ہوئے ان کا بیان شائع کیا ہے۔ خبر کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔’’کشمیر پر قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین نے نوازشریف کی حکومت کو یہ کہہ کرشاک کی حالت میں پہنچا دیا ہے کہ فاٹا کے علاقوں میں حالات کشمیر کی وادی سے زیادہ بدتر ہیں۔انہوں نے قومی اسمبلی میں جمعہ کے روز گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہےکہ فاٹا کے لوگوں کی زندگی انتہائی نا گفتہ بہ ہے اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہےکہ وہاں بسنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان کو کشمیر میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ پاکستان کے اپنے ہی فاٹا میں رہنے والے جب اتنی اذیت میں ہیں تو اسے کشمیر کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔انہوں نے پاکستانی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا فاٹا کے علاقوں کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے جنون میں مبتلا ہے۔وہ خاص طور پر فاٹا کے علاقوں میں پاکستانی آرمی نے جو آپریشن کیا ہے اُس پر شدید غم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے کہ وہاں طالبان کی بجائے امن پسند قبائلی افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہےجو انسانی حقوق کی مکمل خلاف ورزی ہے۔‘‘

نریندر مودی نے کشمیر کا تقابل بلوچستان سے کیا تھا۔جس پر ہم پاکستانی بہت سیخ پا ہوئے تھے کہ بلوچستان پاکستان کا صوبہ ہے جب کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے۔ان دونوں کا موازنہ کیسے کیا جاسکتا ہے مگر ستم آخری حد یہ ہے کہ مولانا نے کشمیر کا تقابل فاٹا سے کر دیا ہے۔ فا ٹا جسے ضرب عضب نے جہنم سے نکالا ہے او ر اب افواج پاکستان اسے جنت نظیر بنانے کےلئے دن رات مصروف ِ عمل ہیں۔

اب آتے ہیں فاٹا کے اُس مسئلےکی طرف جس کی وجہ سے مولانا اتنے پریشان ہیں۔انہوں نے دھمکی دی ہے کہ’’اگر عوام کو اعتماد میں لئے بغیر فاٹا کی حیثیت تبدیل کی گئی تو سخت نتائج برآمد ہونگے‘‘۔ انہوں نے اس مقصد کےلئے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تک فاٹا کی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ وہاں ہر شخص کوووٹ کاحق نہیں مل جاتاتو ریفرنڈم کیسے ہوسکتا ہے اوراگر انہی چند سرداروں میں ریفرنڈم کرانے کا خیال ہے تو پھر وہ فاٹا کےعوام کا نام نہ لیں بلکہ ان چند وڈیروں کی بات کریں جن میں سے بہت سارےافغانستان کے ساتھ مالی فوائد کی وجہ سے جڑے ہوئے ہیں۔انہوں نے ایک اور بھی عجیب و غریب بات کی کہ۔’’ڈیورنڈ لائن عارضی سرحد ہے افغانستان جہلم کو اپنا حصہ قرار دیدے تو پاکستان کیا جواب دے گا۔‘‘یہ زبان پاکستان دشمن افغان لیڈروں کی ہے۔بہت عرصہ پہلےپاکستان نے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیورنڈ لائن ایک حل شدہ معاملہ ہے

اور جہاں تک افغانستان کاجہلم کو اپنا حصہ قرار دینے کی بات ہے تو مولانا یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ کابل ایک طویل عرصہ تک برصغیر کا حصہ رہا ہے۔انہیں روس کی ریاست فرغانہ سے تعلق رکھنے والے مغلوں کا برصغیر پرطویل دورِ اقتدار یاد رکھنا چاہئے۔سکندر اعظم سے لے کر نادرشاہ تک کس کس نے کابل کو پامال نہیں کیا۔

انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’قبائل پر جنگ مسلط کرکے فرنگیوں کی یاد تازہ کردی گئی ہے‘‘حیرت ہے ایک دنیا تسلیم کررہی ہے کہ فا ٹا کے علاقے میں افواجِ پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہے اور انہیں نیست و نابود کردیا ہے۔نجانے کیا ہوا ہے کہ مولانا کووہ دہشت گرد فاٹا کے معصوم قبائلی دکھائی دینے لگے ہیں۔

مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ فاٹا کے عوام کو پاکستان کے باقی عوام کے مطابق جب حقوق دئیے جانے لگے ہیں تو مولاناجھنجھلا اٹھے ہیں۔کیا انہیں وہاں کے عام لوگوں کے ساتھ کوئی دشمنی ہے۔یا پھروہ نہیں چاہتے کہ فاٹا کا علاقہ ترقی کرے اور پاکستان ہمیشہ کےلئے دہشت گردی کے سلگتے ہوئے مسئلہ سے اپنی جان چھڑانے میں کامیاب ہوجائے۔ایک طرف مولانا ہیں اور دوسری طرف خیبر پختونخوا کی حکومت ہے جس نے تجویز دی ہے کہ وفاقی منتظم شدہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو 2018 سے قبل صوبے میں ضم کردیا جائے تاکہ وہاں کے پی لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کے تحت بلدیاتی انتخابات بھی کرائے جائیں۔کے پی حکومت نے وفاق کو خبردار کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو فاٹا میں اصلاحات اور انضمام کا سارا عمل پٹری سے اتر جائے گا اور ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔یعنی پختون خوا حکومت کے مطابق مولانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے۔میں مولانا کی حکمت عملی پر حیران نہیں،پریشان ہوں۔ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود سماہنی کے محاذ پر ابھی تک فائرنگ جاری ہے۔ دوسری طرف مولانا ہیں کہ کشمیر یوں کی حمایت پر اپنی حکومت سے ناراض نظر آتے ہیں اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سے مستعفی بھی نہیں ہوتے۔

masoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے