
تلاشی
تلاشی
منصور آفاق
وہ لوگ جو تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے تاریخ انہیں ٹشو پیپر کی طرح کسی ڈسٹ بن میں پھینک دیتی ہے۔ جن لوگوں نے صرف ’’تلاشی‘‘ کے مطالبہ پروفاق اور جمہوریت دونوں دائو پر لگا دئیے ہیں۔ ایسے خشک دماغوں پر اہلِ شہر سنگ باری نہ کریں تو کیا کریں۔ اقتدار بچانے کے لئے پنجابیوں اور پٹھانوں میں جو جہنم کے بیج بکھیرنے لگے ہیں میں اُن کےلئے ہدایت کی دعا کے سوا اور کیا کرسکتا ہوں یہ الگ بات ہے کہ وہ اِس دعا کو بددعا قرار دیتے ہوئے بربادیوں کی شاہراہوں پرلمبی لمبی گاڑیوں سے سائلنسر نکال نکال کر انہیں دوڑاتے رہیں گے۔
میرا مشورہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور عمران کےلئے کہ صورت حال جتنی گمبھیر ہو چکی ہے۔ آگ اگر فوری طور پر نہ بجھائی گئی تو بہت کچھ راکھ کے ڈھیر میں بدل جائے گا۔ معاملات کے حل کے راستے میں جتنے کنٹینر بڑھتے جائیں گے۔ اتنے ہی ترقی کے راستے معدوم ہوں گے۔ عوامی وحشت میں اور اضافہ ہوگا۔ جب دیوانوں کے راستے بند کئے جاتے ہیں تو شہر میں گریبانوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ یہ فیصلے کا وقت ہے۔ گزشتہ رات وفاق پر بہت کڑی گزری ہے۔ جمہوریت کی سانسیں ڈوبنے لگی ہیں۔ اس وقت مریض آکسیجن کے سہارے زندہ ہے۔ بے شک بلائوں کے ٹالنے کےلئے روز کالے بکرے ذبح کیجئے لیکن آنے والا صفر کا مہینہ ہے جسے کچھ لوگ بلائوں کا مہینہ کہتے ہیں۔ ایک آدھ دن میں اگر کوئی درست فیصلہ نہیں کیا گیا تو ہم سب کا ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ پھر سے درد کی انجمن آباد ہو سکتی ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ عمران خان کی شروع کردہ ’’کرپشن کے خلاف جنگ‘‘ کیا ضروری ہے کہ ہر گلی کوچے میں لڑی جائے۔ اگر تلاشی دے دی جائےتو کونسا کوہ گراں ٹوٹ پڑے گا۔ تلاشی سپریم کورٹ نے ہی لینی ہے تحریک انصاف کے کارکنوں نے تھوڑی وزیراعظم کی جیبیں پھرولنی ہیں۔ وزیراعظم تلاشی دینے کا اعلان کیوں نہیں کرتے۔ کیوں قوم کو مسلسل تقسیم در تقسیم کیا جارہا ہے۔ قوم کی آنکھیں آخر کب تک آنسو گیس کے دھویں میں سلگتی رہیں گی۔ کب تک قانون نافذ کرنے والوں پر، رکھوالی کے لئے رکھے ہوئے اپنے ملازموں پرخود عوام پتھرائو کرتے رہیں گے۔ کب تک۔ آخر کب تک۔ کسی کو محسوس ہو نہ ہو مجھے تو صاف لگ رہا ہے کہ دشمن قوتوں کا ایجنڈا غیرمحسوس انداز میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مشاہد اللہ کے بعد پرویز رشید کی قربانی بھی قوم نے پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھی۔ قربانی کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ دونوں برگزیدہ وزیروں کے خلاف ناجائز کارروائی کی گئی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔ بقول غالب (مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو برہمن کو)
میں حیران ہوں وزیر اعظم کے ان مشیروں پر جنہوں نے انہیں جنگ و جدل کا مشورہ دیا ہے وہ یقیناً ان کے دوست نہیں ہوسکتے۔ مجھے اُس میٹنگ کا احوال بھی معلوم ہے جب وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرلینے کا اعلان کیا تھا تو کئی ماتھے شکنوں سے بھر گئے تھے حتی کہ خود وزیر اعظم اُسی حل پر بضد تھے جس کے نتیجے میں سانحہ ماڈل ٹائون ہوا۔ اب پھر اُسی طرح کے واقعات مجھے اسلام آباد میں ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔اللہ تعالی کرم فرمائے اور صاحبانِ اختیار کو صحیح طور پر دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی قوت عطا کرے۔ جب کوئی پہاڑ کی چوٹی سے نیچے دیکھتا ہے تو اسے زمین پر چلتے ہوئے قدآور لوگ بھی کیڑے مکوڑےلگتے ہیں۔ بڑے بڑے مکان گڑیوں کے چھوٹے چھوٹے گھر نظر آتے ہیں۔ یعنی آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ سچ نہیں ہوتا وہ لوگ جو افق پر زمین و آسمان کو آپس میں ملتے ہوئے دیکھ کر اپنی بصارت پر اعتبار کرلیتے ہیں ان کا انجام مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
وہ سلگتا ہوا سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ یقیناً درد کے کنٹینر زندگی کے راستے سے ہٹانے ہوں گے۔ کیونکہ بہتے ہوئے خون سے قوس قزح تخلیق کرنے کا عمل بہت خوفناک ہوتا ہے۔ زخم زخم ہوتے ہیں گلاب نہیں۔ آگ آگ ہوتی ہے چاندنی نہیں۔ بجھتی ہوئی راکھ، راکھ ہوتی ہے کہکشائوں کا غبار نہیں۔ خدا کےلئے اپنی آتی نسلوں پر رحم فرمایئے۔
میں وزیراعظم نواز شریف کے گرد و نواح میں دیکھتا ہوں تو مجھے عرفان صدیقی اور عطا الحق قاسمی جیسے جہاندیدہ لوگ دکھائی دیتے ہیں جنہیں معلوم ہے کہ ٹکرائو کی سیاست اہل اقتدار کے لئے اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتی ہے اور پھر جب میں نوازشریف کی موجودہ طرز ِ حکومت پر غور کرتا ہوں تو پریشان ہوجاتا ہوں۔میں مان ہی نہیں سکتا کہ وہ وزیراعظم کو کوئی ایسا مشورہ دے سکتے ہیں جس کے بعد ملک پنجابی فلم میں بدل جائے۔ عمران خان اور وزیراعظم نواز شریف مولا جٹ اور نوری نت بن جائیں۔
میں مشورہ دے سکتا ہوں اور میرا وزیراعظم پاکستان کے لئے مشورہ ہے کہ پلیز ناعاقبت اندیش مشیروں کی صحبت سے باہر نکال آئیے۔ شہیدِ جمہوریت بننے کی کوشش مت کیجئے۔ آصف زرداری کے مشوروں پر نہیں اُس کے نقش ِ قدم پر چلئے۔ دیکھئے اُس نے کس طرح پانچ سال گزار لئے تھے۔ وہ چاہتا تو آپ کے ساتھ وہی سلوک کرسکتا تھا جو آپ نے عمران خان کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ اپنے ولن ٹائپ کے وزیروں کی زبانیں بند کرائیے۔ تلاشی دینے کا اعلان کر دیجئے وگرنہ ملک خداداد کی ریل گاڑی کسی وقت بھی کسی ایسی سرنگ میں داخل ہوسکتی ہے جس کا دوسرا سرا بڑی بڑی چٹانوں سے بند کردیا گیا ہو۔
mansoor afaq

