دیبل پورکے درد میں . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

دیبل پورکے درد میں

دیبل پورکے درد میں

پھر یوں ہوا کہ باطن کے گلاس میں سمندر پڑے پڑے صحرا بن گیا۔مچھلیاں سن باتھ کرنے لگیں۔ایک ایک کیکرکے درخت سے سوسو کچھوے لٹک گئے۔صدیوں کے پیٹ سے ٹائی ٹینک نے نکل کرموٹیل کا روپ دھار لیا۔موٹیل کے ڈانسنگ روم میںڈالروں بھری چڑیلوں کے ساتھ آژدھوں کا رقص جا ری ہے۔ڈائننگ ٹیبل پر بھیڑیے بیٹھے ہوئے خون اور شراب کی کاک ٹیل پی رہے ہیں ۔میک اپ زدہ روباہیںانسانی گوشت سرو کر رہی ہیں۔ بار روم میںتیل بیچ کراونٹ اونگھ رہے ہیں ۔جم میں غزال اپنی ٹانگوں کے مسل مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔مساج ہاﺅس گھوڑوں سے بھرا ہوا ہے ۔ہیر ڈریسر بلیاں کتوں کے بال کاٹ رہی ہیں۔ بیڈ روموں سے ہاتھیوں کے خراٹے سنائی دے رہے ہیں۔ایک بڑے ہال میںحالاتِ حاضرہ پرتقریب جاری ہے۔بوڑھا شتر مرغ کی تقریر کررہا ہے۔بولتے بولتے سو بھی جاتا ہے ۔مرغیاں چونچیں مار مار کر جگاتی ہیں ۔سامنے کرسیوں پر مختلف رنگوں کی چہلیں کرتی چیلیں بیٹھی ہوئی ہیں ۔کچھ سفید رنگ کے کوے بھی ہیں۔پھر کرسیوں کی جانب سے مشترکہ آواز آئی ”شاہینوں کو واپس بھیجا جائے اور شتر مرغ نے سہمے ہوئے انداز میں ادھر ادھر دیکھا اور ایک پر فضا میں لہرا دیا۔تقریب ختم ہوئی ۔چیلوں اور کوے آپس میں محوِ کلام ہوئے اورشتر مرغ کی اس بات کو سراہنے لگے ”کہ دبیل پورمیں امن کی بحالی کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے۔یہ مسئلہ راجہ داہر کے زمانے سے چلا آرہا ہے۔حجاج بن یوسف نے اسی مسئلہ کو حل کرنے کےلئے محمد بن قاسم کوکراچی بھیجا تھا ۔“ایک فاختہ بھی وہاں موجود تھی اس نے کہا”یہ بات راجہ داہر نے بھی نہیں مانی تھی ۔بیچارہ شور مچاتا رہ گیا تھا کہ یہاں امن و امان کی کوئی خرابی نہیں۔کسی نے کسی عورت کی عصمت دری نہیں کی۔کسی نے کسی بے گناہ کا قتل نہیں کیا۔ کسی نے کسی مسافر جہاز کو نہیں لوٹا مگر حکمرانوںکے کہنے سے حقائق تھوڑے بدلتے ہیں۔بہر حال اس بات پر اتفاق رائے ہوا کہ یہ جو شاہین فضاﺅں پھر رہے ہیں۔انہیں واپس بھیجنا دیبل پورکی مجموعی زندگی کےلئے انتہائی ضروری ہے۔

میں مسمی منصور آفاق جب بھی دیبل پور گیاہوں تو وہاں کے وہی مناظر تھے۔وہی منظر جن سے بھاگتے بھاگتے میںکسی اور دنیا میںپہنچ گیا تھا۔وہی حمامِ سگاں تھے یعنی کتوں کے سوئمنگ پول۔وہی گرگِ بارہ دیدوں کی مجلس تھی یعنی بھیڑیوں کی تقریب گاہ۔اسی طرح دیواریں لہو سے سرخ تھیں۔وہی چلتی پھرتی لاشیں اپنی قبریں تلاش کررہی تھیں۔وہی کتا اپنے ساتھی کتے سے کہہ رہا تھا بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا۔وہی ملبوس ناآشنا بدروحیں تھیں یعنی برہنہ عورتیں۔لیلیٰ بھی ویسی ہی تھی مجنوں بھی ویسا ہی تھا۔وہاں بھی سعادت حسن منٹو کے محلے میںچودہ سالہ رضیہ کو محلے کے لڑکوں نے آنکھیں مار مار کر جوان کر دیا تھا۔

دیبل پورکے بارے میں ایک نظم جو ساحل پر کسی جہاز سے پھینکی گئی تھی۔مجھے ریت پر اڑتی ہوئی دکھائی دی۔میں نے اسے وقت کی گردن میں ڈال دیا.

”دیبل پور۔ایک ہیری کین ۔
۔وقت پر بجتا ہو پیانوکاخاموش نوٹ ۔
دیبل پور۔لاکھوں لوگوں کا سفر۔۔
اپنے مرے ہوئے دوستوں کی روحوں کی تلاش میں ۔
دیبل پور۔گندے نالے میں گرتے ہوئے پانی کی تشدآمیز زور دار آواز۔

دیبل پور۔ایک ٹوٹے ہوئے کھلونے کے گھاس پر بکھرے ہوئے سینکڑوں ٹکڑے جنہیں جوڑا نہیں جا سکتا۔
دیبل پور۔کالے جنگلوں میں کبھی نہ ختم ہونے والا سفر۔

دیبل پور۔سورج کو چھپانے والا کالا بادل۔
دیبل پور ۔گرم پتھروں کی آگ پر جلنے کا عمل۔

دیبل پور ۔ایسے سایوں کے درمیان چل رہا ہے جو کبھی نہ دیکھے گئے ہیں اور نہ سنے گئے
‘‘ہیں مگر موجود ہیں۔کراچی۔ہنگام بھری سرگوشیوں سے ٹوٹی ہوئی خاموشی“

دیبل پور اگرچہ سونے کی کانیں بالکل نہیں ہیں مگروہاں سے سونا نکلتا ہے دراصل وہاں کے کچھ کیمیا گروں کے ہاتھ سونا بنانے کا نسخہ لگ چکاہے۔ اس لئے کئی سال سے سونا کا عمل پوری شدو مد سے جاری وساری ہے اورساحل کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کرکیمیا گر تیار شدہ سونے کشتیوں میں بھر بھر کرسمگل کرتے رہتے ہیں ۔اس اندیشے کہ تحت کیا خبر کس وقت کوئی محمد بن قاسم آجائے ۔یہ سونے کی جستجو میں نکلے ہوئے لوگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ خزانوں کو حاصل کرنے کے بعد بھی خزانے ڈھونڈتے رہتے ہیںکیونکہ تلاش کی کوئی انتہا نہیںیہ کن کے عمل جیسی ہے۔نہ تھکتی ہے نہ رکتی ہے بس چلتی رہتی ہے۔میں اسے کہاں سے لاﺅں جس نے کہا تھا۔میرے بنک میں جتنے پیسے ہیں وہ بھی نکلوا کر غریبوں میں تقسیم کر دو۔ تا کہ اس گندگی سے جان چھوٹ جائے٬ لاﺅ میں چیک پر دستخط کردوں۔اس نے بلینک چیک پر دستخط کیے اور تمبورے پرگاتے ہوئے فقیرسے شاہ حسین کی یہ کافی سننے لگا.

سجنا اساں موریوں لنگھ پیوسے
بھلا ہویا گڑ مکھیاں کھادا
اساں بھن بھن توں چھٹیوسے
ڈھنڈ پرائی کتیاں لکی
اسں سر منہ دھتو سے
کیسے حسین فقیر نمانڑاں
اسں ٹپن ٹپ نکلو سے
سجنا اساں موریوں لنگھ پیوسے
سجناں اساں موریوں لنگھ پیوسے

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے