
شہباز شریف ! تمہیں نے درد دیا ہے تمہیں دوا دینا
شہباز شریف ! تمہیں نے درد دیا ہے تمہیں دوا دینا
منصور آفاق
اُس روز شہباز شریف اپنے زورِ خطابت کی بلندیوں پر تھے انہوں نے لاہور کےلئے مجوزہ میٹرو بس کے مخالفین کو للکارتے ہوئے کہا کہ نئے اسپتال اور تعلیمی ادارے بنانابھی ضروری ہےلیکن اگر سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ان تک پہنچ ہی نہ پائیں تو پھر یہ ادارے کس کام کے ۔ خادمِ پنجاب نے اپنے مخالفین کیلئے اس روزکچھ سخت الفاظ استعمال کرنا مناسب سمجھا ۔ ان کی سختی سے ان کی طبیعت بھی خراب ہو گئی۔ آج لاہور کے شہری بلا مبالغہ ٹریفک کے اژدھام ، بد انتظامی اور شہر کے تقریباً ہر علاقے میں کھودی ہوئی سڑکوں کے باعث عملی طور پراپنے گھروں میں بند ہوچکے ہیں ۔
یہ میں جس لاہور کی بات کر رہا ہوں وہ کوئی پرانا لاہورنہیں بارہ دروازوں کے حصار میں جاگتا ہوا لاہور ۔اس میں لاہور کے تمام نئے علاقے بھی شامل ہیں ۔ لاہور کی نئی بستیوں تک بھی رسائی اسی طرح مشکل ہوچکی ہے جیسے شاہ عالمی سے کار پرٹبی تھانے تک پہنچنا ناممکن ہے ۔بہر حال مجھے اس سارے لاہور سے بےپناہ محبت ہے ۔یہ وہی شہر ہے جہاں باغبان پورہ ہائی اسکول سے لے کر اسکیم موڑ پر افضل عاجز کے اسٹوڈیو تک میری زندگی کا ایک طویل عرصہ لاہور کے رش میں گم چکا ہے ۔آخری شو کے رش کی طرح ۔میں کل شالامارباغ کے پہلو سے نکلا۔تازہ ماڈل کی چمکتی ہوئی کارنے ملتان روڈ کی ایک دکان تک پہنچنا تھا ۔گڑھی شاہو تک پہنچتے پہنچتے مجھے یوں لگا جیسے آدھی زندگی گزر گئی ہے ۔
اس چوک کے فوراً بعد آدھا گھنٹہ سے رکے ہوئے ٹریفک میں اچانک ایک فرشتہ دکھائی دیا جسکے ہاتھ میں انار کے جوس کا ایک بڑا گلاس تھا ۔عطاالحق قاسمی کے ہمدمِ دیرنیہ عزیر احمد نے شاید مجھے اپنی دکان سے تاڑ لیا تھا ۔آدھی زندگی واپس آگئی ۔گڑھی شاہو سے ڈیوس روڈ تک چھٹی کے وقت بچوں کو لینے والی گاڑیوں نے مکمل طور پر اسکولوں کا محاصرہ کر رکھا تھا ۔ہر کار سڑک کا حصہ بن چکی تھی بہر حال کسی نہ کسی طرح میں شملہ پہاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ۔پریس کلب کے باہر احتجاجیوں کا ایک بڑا ہجوم موجود تھا شاید یہ ینگ ڈاکٹر تھے ۔ پڑھے لکھے اور مہذب نوجوان ۔ دم توڑتی ہوئی زندگی کے نئے مسیحا۔ اللہ بھلا کرے ٹریفک کی سانسیں کھینچتے ہوئے جلوس کا۔ جس نے مجھے گزر جانے دیا ۔
اسمبلی ہال والی سڑک مستقلاً بند تھی سو ایوان اقبال کے زیر سایہ چلتے ہوئے الحمرا کے چوک تک پہنچنے میں کچھ زیادہ دشواری نہیں ہوئی ۔حالانکہ وہاں بھی خاصا رش تھا ۔یقیناً الحمرا ہال میں کسی نظریاتی موضوع پر کسی غیر سیاسی جماعت کا سیاسی جلسہ جاری تھا ۔میں مال روڈ سے فاطمہ جناح روڈ مڑ گیا مگر گنگا رام اسپتال کے پاس پھر ٹریفک بلاک تھا ۔کچھ انتظار کیا ۔اور صفوں والے چوک کی طرف گاڑیاں جاتے ہوئے دیکھ کر کار ادھر موڑ لی کچھ آگے جا کر معلوم ہوا کہ یہاں بھی ٹریفک پھنس چکا ہے ۔کچھ لوگ اپنی گاڑیاں موڑ رہے تھے میں بھی ان کی کاروں کے ٹائروں کے نقوش پرچل پڑا ۔گاڑیاں واپس مال روڈ پار کرتی ہوئی کوپر روڈ پر پہنچ گئیں ۔یہاں حدِ رفتار چونٹیوں کے لشکر سے زیادہ نہیں تھی ۔رائل پار ک تک پہنتے پہنچتے ٹریفک پتھرا گیا ۔ مجھے یاد آیا کہ کسی زمانے میں یہاں فلمیں بنانے والوں کے دفاتر ہوا کرتے تھے کبھی کبھی کوئی ایسا چہرہ بھی نظر آجاتا تھا جس کے سبب چلتی ہوئی گاڑیاں رک جاتی تھیں اقبال ساجد نے کہا تھا۔
لباس اس کے بدن پر مہین ایسا تھا
رکی ہوئی تھی ٹریفک ، حسین ایسا تھا
جب میں میکلوڈ روڈ پر پہنچا تو پریشان ہوگیا۔ میکلوڈ روڈتو میکلوڈ ہلز میں بدل چکا تھا ۔ حکومت پنجاب نے شاید تازہ تازہ پہاڑیوں کو برابر کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ کہیں نہ کہیں سے گزرتے ہوئے میں مال روڈ تک پہنچ ہی گیا ۔ ذرا سا سکھ کا سانس لیا مگر سامنے دیوار آگئی مجبور سیکرٹریٹ کی طرف مڑنا پڑ گیا ۔مجھے چلے ہوئے اس وقت دو گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا ۔اسکیم موڑ جانا تھا میں نے مناسب سمجھا کہ ملتان روڈ پر ہی چلتا چلا جائوں ۔ چوبرجی تک کار کے ٹائروں تلے سڑک نما چیز موجود رہی مگر جیسے ہی اگلے بڑھا تو لگا کہ پھرایک اور میکلوڈ روڈ پر آگیا ہوں ۔ایک اور دریا کا سامنا منیر مجھ کو ۔ ایک دریا کے پار اترا میں نے دیکھا ۔بہر حال تین گھنٹوں میں کسی نہ کسی طرح منزل مقصود پر پہنچ گیا تھا ۔ مگر وہ دکان تو بدل چکی تھی ۔ میں نے صاحب ریش آدمی سے پوچھا کہ وہ دکان کہاں چلی گئی اور اس نے دکھ سے کہا ۔کہیں نہیں گئی ۔یہی ہے مگر تقریبا پانچ سال پر پھیلے ہوئے تعمیر و تخریب کے عمل کے نتیجے میں عملاً بند ہو چکی ہے۔سو اب یہ دکان کسی اور کام کےلئے استعمال ہوتی ہے میرا تجسس بڑ ھ گیا میں نے کچھ لوگوں سے بات کی تو یہ سفاک حقیقت سامنے آئی کہ یہ داستان ملتان کی اس اکیلی دکان کی داستان نہیں ۔ میں نے سوچا کہ ساحر نے سچ کہا تھا ۔ مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے ۔ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی ۔ اور میں سوچنے لگا کہ اس بربادی کا جواب کس سے لیا جائے گا۔
شہباز شریف کی حکومت میں پہلے پہل جب یہ سڑکیں کھودی گئی تھیں تو ہر طرف لاہور کے شہریوں سے معذرت کے بورڈ لگوائے گئے تھے جس پر تحریر کیا گیا تھا کہ مستقل رحمت کےلئے عارضی زحمت برداشت کیجئے ۔اس وقت کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ عذابِ جان ان کی زندگیوں کا مستقلاً حصہ بننے والا ہے ۔یہ عذاب صرف اسی علاقے تک محدود نہیں ۔واہگہ سے آنے والوں کےلئے جی ٹی روڈ شیر شاہ سوری کی یاد میں رو رہا ہے کینال بنک روڈ جو کبھی لاہوریوں کی سیر گاہ کی طرح ہوتا تھا اُس پر ٹریفک کسی عتاب کی طرح نازل ہوچکا ہے ۔اسی کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار والی اس سڑک پر دس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جب گاڑیاں چلتی ہیں تو ان سے نکلنے والا دھواں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی شاندار کارکردگی کو دھندلاتا چلا جاتاہے ۔لاہور اپنی تباہی اور بربادی کا ایسا منظر پیش کررہا ہے جیسے دلی سات مرتبہ ایک ساتھ لوٹ لیا گیا ہو۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کو فوری اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے بے شک انہوں نے جو میٹرو بس سروس شروع کی ہے وہ ڈھائی گھنٹے کا فاصلہ پینتالیس منٹ میں طے کرا دیتی ہے باقی تمام لاہور پینتالیس منٹ کا فاصلہ ڈھائی گھنٹے میں طے کرا رہا ہے ۔اب تو لاہوریوں نے مختلف علاقوں میں پہنچنے کےلئے مختلف ٹائم طے کر لئے ہیں اسٹیشن سے سمن آباد پہنچنے کےلئے دو گھنٹے ۔ سمن آباد سے داروغہ والا تک پہنچنے کےلئے چار گھنٹے۔ وغیرہ وغیرہ
mansoor afaq

