
ہوشیار خبردار!
ہوشیار خبردار!
منصور آفاق
آہ ۔ کئی موسم آئے اور گئے مگر حکومت نہ گئی ۔’’دیوان ِ منصور ‘‘ سے نکالی ہوئی کوئی فال بھی درست ثابت نہ ہو سکی ۔شیخ رشید کی دی ہوئی تاریخیں قہقہوں کی تاریخ بنتی چلی گئیں ۔مظہر برلاس اور میرے طوطے جھوٹ بولتے رہے ۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ بھی اندر سے نجم سیٹھی کی چڑیا کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔چکلالہ کے تمام نجومی ناکام رہے مگر بنی گالہ ابھی تک مایوس نہیں ہوا۔بہر حال یہ طے ہے کہ وقت سے پہلے حکومت کے خاتمے کی فلم فلاپ ہو گئی ہے ۔اگرچہ اس میں خاصی آئوٹ ڈور شوٹنگ بھی شامل تھی ۔غم تو ہونا تھا سو ہے ۔ اِس وقت اِسی غم کو غلط کر نےکےلئے دوستوں کے ساتھ میلان(اٹلی) آیا ہوا ہوں چوہدری محمد نواز گلیانہ اور محمد احمد شاکر کے پاس کہ
آئو کچھ دیر کہیں چین سے بیٹھیں سوچیں دن حکومت کے کہاں کیسے گزاریں ، سوچیں
اور پھرہم نے میٹنگ کا آغاز کیا۔گول میز کے ارد گرد احسان شاہد ،طاہر چوہدری ، زرین گل ، تنویر حسین ملک اورکچھ اور دوست بیٹھے ہوئے ہیں ۔کچھ لوگ اسکائپ کے ذریعے بھی اس گول میز کانفرنس میں شریک ہیں ۔ایجنڈے پر صرف ایک آئٹم ہے کہ اب کیا کیا جائے ۔کیا کوئی امکان ’’کاکڑ فارمولے ‘‘ کا باقی ہے یا سب کچھ نواز شریف کے ’’آکڑفارمولے ‘‘ کے سامنے زمیں بوس ہوچکا ہے ۔کیاعدالت کچھ کرے گی ۔زنجیر عدل کا شور توجاتی امراسے بنی گالہ تک یکساں سنائی دے رہا ہے۔پانامہ کیس کی ہر تاریخ ۔ وکیل ِ صفائی کا ہرجواب قوم کے ذہن پر کسی ہتھوڑے سے کم نہیں
باتھ روم میں کوئی بوند سی ٹپکتی تھی ذہن میں ہتھوڑا سا بار بار لگتا تھا
یقینا آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ لوگ کون ہیں ان کا تعلق کسی ایجنسی سے ہے ۔جی یہ سب اُس خفیہ ایجنسی کے ممبر ہیں جو ہمیشہ منصور آفاق کو درست اطلاعات فراہم کرتی ہے ۔اسی میٹنگ میں اطلاع ملی کہ پچھلے کچھ عرصہ سے ایک تیسرے طریقے پر کام ہورہا ہے ۔اس کام کےلئے ’’کچھ پیرا گلائیڈز‘‘پہلے اسلام آباد میں اتارے گئے تھے ۔ان کا نشانہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان جو بہت گہرا اور محبت بھرا تعلق ہے ۔وہ تھا ۔مگر اسلام آباد جلد ان کے عزائم کو بھانپ گیا ۔سو وہی اسکائی شوٹراب لاہور میں اترے ہوئے ہیں ۔اِن دو بھائیوں کے درمیان خلیج بڑھانے کی کئی کوششیں پہلے ناکام ہوچکی ہیں مگر یہ سامری بھی ہیں بہت خطرناک ۔ویسے توبھائی سے بھائی کا رشتہ وفا کی آخری حد پر منتج ہوجاتا ہے ۔اِ س تعلق میں دغا کا کوئی تصور نہیں ہے۔اور اگرکہیں ایسا ہوجائے تو کہا جاتا ہے خون سفید ہو گیا ۔یعنی وہ ہوا ہے جو نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں ۔ اخوت کا مفہوم اردو زبان میں بھائی چارہ لیاجاتا ہے ۔اورنگ زیب عالمگیر کے حق میں ہزاروں باتیں کی جاتی ہیں مگر جیسےہی بھائیوں کو قتل کرا دینے کا معاملہ سامنے آتا ہے تو تمام اچھائیوں پر پانی پھر جاتا ہے ۔ برادران ِیوسف کا قصہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے مگر پاکستانی سیاست میں ایک بھائی کی حیثیت سے شہباز شریف کاکردار مثالی ہے ۔پرویز مشرف نے جب نوازحکومت کا غیر قانونی خاتمہ کیا تھا جسے بعد میں قانونی خاتمے میں بدل دیا اُس زمانے میں بھی اِس بھائی کو بہت مجبور کیا گیا تھا کہ وہ اپنے بھائی اپنے قائد نواز شریف کو ساتھ چھوڑ دیں اور پاکستان کے وزیر اعظم بن جائیں ۔انہیں بڑے سے بڑا لالچ دیا گیا مگر ان کے پائے استقلال ذرا سا بھی نہیں لڑکھڑایا ۔ہر شخص کو صاف الفاظ میںجواب دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے بھائی سےدغا نہیں کر سکتا۔ مگر یہ لوگ بھی عجیب ہیں کہ مایوس ہی نہیں ہوتے ۔ ان دنوں پھر یہی ڈیوٹی دے کر کچھ لوگ ان کے قریب کر دئیے گئے جو انہیں اس سلسلے میں طرح طرح کے دلائل دیتے ہیں ۔غیر محسوس انداز میں بھائیوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔بچوں کی وساطت سے ایمان متزلزل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ایسے ایسے انداز میں ایسی ایسی تعریف کرتے ہیں کہ خوشامد کا شائبہ تک نہیں پڑتا۔فن ِ گفتگو کے ان ماہرین کو بات بدلنے کے ایسے ایسے ہنر آتے ہیں کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا(یہ کوششیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور ناکام ہوئیں اب بھی ناکام ہی ہوںگی)۔
یہ نابغہ ِ روزگار لوگ حکومتِ پنجاب کو ایسے ایسے حیرت انگیز مشورے دیتے ہیں کہ عقل ششدر رہ جاتی ہے ۔ان دنوں ایسی افواہوں کا شور بپا ہےکہ پنجاب اپنا ’’پی ٹی وی ‘‘ کھول رہا ہے ۔ کیوں بھئی کیوں کھول رہا ہے ۔کیا وہ پی ٹی وی جس کے چیئرمین عطاالحق قاسمی ہیں وہ پنجاب کا پی ٹی وی نہیں ہے ۔خاصی تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ پنجاب کا اپنا پی ٹی وی دراصل بے روز گاری کے خاتمے کےلئے کھولا جارہا ہے ۔ دراصل جب سے پی ٹی وی کے چیئرمین قاسمی صاحب بنے ہیں انہوں نے باہر سے پرائیویٹ پروڈکشن خریدنے پر تقریباً تقریباً پابندی لگا دی تھی۔پہلے جہاں پی ٹی وی پر سو فیصد پرائیویٹ پروڈکشن چلتی تھیں اب صرف پچیس فیصد رہ گئی ہیں75 فیصد پی ٹی وی نے اپنی پروڈکشن تیار کرنا شروع کردی ہیں ۔اس کی وجہ سےوہ تمام پروڈکشن ہائوس ویران ہو گئے ہیں جہاں پہلے پی ٹی وی کےلئے پروڈکشن کی جاتی تھی ۔پنجاب کے پی ٹی وی کے شروع ہو جانے سے وہ پروڈکشن ہائوس پھر سے چل پڑیں گے اور جولوگ بے روزگار ہوچکے ہیں ۔ان کی کوٹھیوں کے فانوس دوبارہ سے جگمانے لگیں گے ۔اور اگر پنجاب کا ٹی وی چل پڑا تو باقی صوبے بھی پیچھے تو نہیں رہیں گے ۔یعنی پانچویں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ۔
mansoor afaq

