بچے جمہورے سے مکالمہ ۔ منصور آفاق
دیوار پہ دستک

بچے جمہورے سے مکالمہ

بچے جمہورے سے مکالمہ

’’بچے جمہورےیہ جمہوریت ہے۔اس کے خلاف ڈگڈگی مت بچا۔بڑی مشکلوں سے ہاتھ آئی ہے ۔ بندوقوں کی چھائوں سے چرا کرلائی گئی ہے۔ مشین گنوں کی لبلبلی کے باندھی گئی تھی ۔ سارے برامدے میں بارودی سرنگیں بچھی ہوئی تھیں ۔تُو نہیں جانتا اِس ’’ہیروین ‘‘ کو ۔اِس ’’عوام زادی‘‘کےلئے نجانے کتنے فلمی ہیرو قربان ہوچکے ہیں.

بچہ جمہورے ۔یہ منتر مت پڑھ ۔ایسی بری بری باتیں اتنے اچھے اچھے لوگوں کے بارے میں ۔اپنے چہرے پر سیاہی مت لگا۔ اپنے رخساروں پر کالک مت تھوپ ۔ان کے لباس تو دیکھ ،اکڑے ہوئے ۔اجلے اجلے ۔لٹھے کے تھان ،ان کی اجلی اجلی گاڑیاں دیکھ ۔جیسے ابھی انہی کے ساتھ کسی جھیل سے نہا کر نکلی ہوں ۔لمبی لمبی چمکتی ہوئی برانڈڈگاڑیاں ۔یہ تجھے غلیظ لگتے ہیں ۔ دیکھ انہیں مت پلید اور ناپاک کہہ ۔یہ لوگ تو بھینس کے تازہ دودھ کی پیدوار ہیں ۔ملاوٹ زدہ جعلی دودھ سے پلے ہوئے لوگ جمہوریت کے نمائندے نہیں ہو سکتے ۔بچے جمہورے ضرور ہوسکتے ہیں ۔

بچے جمہورے ۔یہ درست کہاہے کہ تُو نے کہ یہ مارشل لا کی پیدوار ہیں مگر یہ یادرکھ مارشل لوگ ہی مارشل لا کی پیدوار ہوسکتے ہیں ۔انگریزبھی اپنی فوج میں صرف مارشل نسلوں کے لوگ بھرتی کیا کرتے تھے ۔عام لوگوں کا کام نہیں ہوتاحکومت کرنا۔ بچے جمہورے ۔ یہ جمہوریت ہے ۔خاص لوگوں کی جمہوریت ۔برانڈڈ پرفیومز میں نہائے ہوئے خاص لوگ ۔اوے ان کےلئے توپینے کا پانی بھی فرانس سے آتا ہے ۔روشنی جیسا پانی ۔خوش ہو کہ یہ سونے اور چاندی کے لوگ تیرے ملک کے حکمران ہیں ۔کوئی تھرڈ کلاس گیا گزرا عوام زادہ حکمران بن گیا تو دنیا کیا کہے گی۔سوچ کچھ ۔

نہیں نہیں بچے جمہورے ۔یہ پانامہ کی جے آئی ٹی ۔یہ وہ نہیں جو تُو سمجھ رہا ہے ۔یہ جمہورکی انٹرنیشنل ٹی ۔ ٹی یعنی چائے ۔یہ کسی ہوٹل میں سرو نہیں ہونی ۔لپٹن کے مقابلے میں بھلاکوئی ٹی پاکستان میں کیسے چل سکتی ہے۔اوے بچے جمہوے ۔اوے بے عقلے ۔تیری عقل پر ہارس ٹریڈنگ والے گھوڑے ماتم کریں ۔میں لپٹن چائے کی بات کررہا ہوں ۔اقتدار سےلپٹ جانے کی نہیں ۔پھر پانامہ ۔۔اوےتُو نے دیکھا ہے پانامہ ۔ پانامہ ۔ پانامہ لگا رکھا ہے۔ دنیا کا نقشہ تو دیکھ ۔ذرا سا ملک ہے ۔ اسحاق ڈار کی جیب میں آ جائے ۔اور یہاں سے دس بارہ ہزار میل دور۔اس کی طرف چلتے چلتے بھی دوہزار اٹھارہ آجائے گا ۔۔تُوپھر بول رہا ہے۔تجھے کتنی بار کہا ہے بیچ میں نہیں بولا کرتے۔پتہ ہے مجھے کہ جمہوریت کو تیرےخورشید کامران ، محمد لقمان سعید اورواجد ضیا سے خطرہ ہے۔مگر خطروں سے کھیلنا ہے ہمیں آتا ہے ۔ڈھونڈھ ڈھانڈ کر کسی بم کو لات مارنا اپنا پرانا مشغلہ ہے ۔

پھر ۔ پھر جمہوریت پر لعنت۔ اوے پیدائشی اندھے !کیا نہیں دیااِس جمہوریت نے تجھے ۔ یہ تجھے بانجھ عورت جیسی لگتی ہے؟۔یہ لاہور سے اسلام آباد اتنی لمبی موٹر وے تیری باپ نے جنم دی ہے ۔تُو ساتھ لے آیا تھا چچو کی ملیاں سے شہر آتے ہوئے ۔کیا یہ جنگلہ بس سروس چکلالہ روٹ سے نکلی ہوئی ہے ۔یہ میٹرو ، یہ سی پیک جمہوریت کے خزانے سے نکلے ہوئےہیروں کے ہار ہیں جو تُونے پہن رکھے ہیں ۔ہمارے وزیر اعظم اپنے عہد کےشیر شاہ سوری ہیں ۔اور پھر شیر شاہ سوری بھی کیا تھا ۔دوچار تاریخ لکھنے والے خریدے ہوئے تھے اُس نے ۔ لکھنے والا ایک زمانہ یہاں ساتھ ساتھ چل رہا ہے ۔کان پر قلم دھرے ہوئےاور یہ جو تیرے ہاتھ میں ووٹ کی چھترول ہے ۔یہ جمہوریت سے پہلے کسی تھانے میں دیکھی تھی ۔یہی وہ چیز ہےجس کےلئے بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دارتیرے سامنے ’’دستِ طمع دراز ‘‘کرتے ہیں ۔جاہل ۔ان پڑھ ۔یہ دستِ طمع دراز کا مطلب تُو میر تقی میر سے جا کر پوچھ ۔

اوے کالے کلوٹے ۔قسمت کے کھوٹے ! تُو باز کیوں نہیں آتا۔پھر غیر جمہوری باتیں۔پھر ڈان لیکس۔اوے جہاں سے ڈان لیک ہوا تھا وہیں اسے ایلفی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔ دونوں بڑوں نے تھوڑی تھوڑی ایلفی لگائی ہے ۔ایک بڑے نے اس کے بعد اسے رفو بھی کیا ہے کہ کہیں پھر لیک نہ ہوجائے ۔تجھے پتہ ہے نا گارڈ فادر اور ڈان میں کوئی فرق نہیں ہوتا ۔تجھے کہاں پتہ ہونا ہے ۔ جس دن میں نےفلم ’’گارڈ فادر‘‘ دیکھی تھی تُو نے اُس دن ’’مولا جٹ ‘‘ کی شوٹنگ دیکھی تھی مجھے یاد مجھے گوالمنڈی میں انجمن کا رقص فلمایا جارہاتھا ۔

رہنے دے بچے جمہورے اب تو دن کو سفید دن کوگورے چٹے دن کو ۔ تُوکالی سیاہ رات کہہ رہا ہے ۔فواد حسن فواد کیا زبردست افسر ہے ۔ایسا افسر صدیوں میں بیوروکریسی پیدا کرتی ہے ۔غلاموں کو کنٹرول کرنے والی انگریز کی بنائی ہوئی یہ بیوروکریسی کا سب سے اہم شاہکار ہے ۔بڑی قیمت ہے اِس کی ۔اوے یونہی تو نہیں ۔ہم اسے ورلڈ بنک بھیج رہے ہیں ۔چار سال کےلئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر ۔۔دیکھ اُس کے خلاف بات مت کر ۔ڈان لیکس سے اُس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے ۔ہم سابق وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کی باتیں نہیں مانتے ۔خیر اب تو وہ سابق ہے جب سابق نہیں تھا اُس وقت بھی نہیں مانتے تھے ۔بچے جمہورے ۔ یہ بیورو کریسی جمہوریت کا حسن ہے ۔

اوے بچے جمہورے جا ایک ٹھنڈا یخ پانی کا گلاس لے کر آ ۔گرمی بہت ہے ۔اونئیں اتنی بھی نہیں ۔ٹھیک ہے جمہوریت کی پشت پر کچھ گرمی دانے نکل رہے ہیں چمک کےٹیلکم پورڈ سے ٹھیک ہو جائیں گے ۔پھر بکواس ۔ وزیر اعظم نواز شریف پر جھوٹ کا الزام ۔ترے منہ میں دو دو کلو میٹر کےچھالے پڑیں ۔ایک سچے اور دیانت دار شخص کے متعلق ایسی بات ۔جی چاہتا ہےکاٹ دوں گا تیری زبان ۔پھر بکواس ۔انہیں عدالت نے کہا ہے جھوٹا ۔ لگتا ہے جسٹس اعجاز افضل کا بیان تُو نے نہیں پڑھا ۔تُو صرف دشمن میڈیا پر خبریں سنتا ہے۔پھر بک بک ۔تجھے دوججوں کا فیصلہ یاد ہے ۔تین ججوں کا موخر فیصلہ تُو بھول گیا ہے ۔اوے سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو جھوٹا قرار نہیں دیا ۔ ہاں سپریم کورٹ کے دو سینئرترین ججوں نے ایسی کوئی بات کی ہے مگرکسی کے کہنے کوئی سچا آدمی جھوٹا کیسے بن سکتا ہے ۔اوے اگر کسی نے کہہ بھی دیا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے لوگ خدا کے بارے میں بھی بک بک کرتے رہتے ہیں ۔اٹھ بچے جمہورے۔ چل کھڑا ہوجا۔ٹین شین ۔سلوٹ ۔سچے وزیر اعظم کے نام پر سچا سلوٹ۔ایک بار پھر سلوٹ ۔پھر سلوٹ ۔اوے تُو ہاتھ ماتھے پر ہی رکھ لے ۔

Mansoor Afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے