
جولائی اِن ٹارگٹ ۔ جے آئی ٹی
جولائی اِن ٹارگٹ ۔ جے آئی ٹی
بارہ جون کے کسی اخبار میں یہ خبر نہیں تھی کہ آج وزیر اعظم محمد نواز شریف سعودی عرب روانہ ہونگے ۔یہ خبر ضرورتھی کہ آج عرب بحران کے حل کےلئے وزیر اعظم نے عرب سفیروں کی ایک کانفرنس بلائی ہے ۔جس میں امور خارجہ کے کچھ ماہرین شریک ہونگے اس کے علاوہ عرب دنیا متعین پاکستانی شرکت کریں گے ۔بارہ تاریخ کو یہ کانفرنس ہوئی ۔کانفرنس کے اختتام پروزیر اعظم نے فوری طور پرسعودی عرب جانے کا اعلان کردیا ۔اور پھرتھوڑی دیر کے بعد ان کا جہاز ہوا میں تھا ۔جہاز نے بارہ تاریخ ہی کے دن جدہ ایئرپورٹ پرلینڈ کیا۔وزیر اعظم کی بارہ تاریخ کوہی سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان سے ان کے محل میں نلاقات ہوئی۔کھانا بھی وہیں کھایا۔تیرہ جون یعنی کل کے اخبارات میں یہ خبر شائع ہوسکی کہ وزیر اعظم ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ،اسحاق ڈار اور سرتاج عزیز کے ہمراہ دوروزہ دورے پر سعودی گئے جہاں ان کی سعودی عرب کے فرماروا سے ملاقات ہوئی ا۔اس دورے کا مقصد قطر اور سعودی عرب کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنا ہے وہ سعودی عرب کے بعدقطر بھی جائیں گے مگروزیر اعظم نواز شریف اسی روز یعنی بارہ تاریخ رات کے آخری پہر میں پاکستان واپس آگئے۔سعودی عرب جیسے ملک سے پاکستانی وزیر اعظم کا آدھی رات کو اچانک فلائی کرنا کئی سوالات کو جنم دے رہاہے ۔ابھی تک حکومت کی طرف سے اس خبر کی بھی تردید نہیں کی گئی کہ یہ دورہ دو روزہ نہیں تھا وہ خبر غلط تھی ۔
اس سے پہلے جب وزیر اعظم پاکستان ،امریکہ عرب سربراہی کانفرنس میں شرکت کےلئے سعودی عرب گئے تھے تواس موقع پر بھی ان کے غیر متوقع سلوک کیا گیا تھا انہوں نے وہاں تقریر کرنی تھی جس کی دعوت سعودی وزیر خارجہ نے اسلام آباد آ کر خود انہیں دی تھی مگر انہیں تقریر کا وقت نہیں دیا گیا ۔ یہ بھی طے ہوا تھاکہ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان ،امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات بھی کریں گے مگر وہ بھی نہ ہونے دی گئی تھی ۔
سعودیہ اور قطر کے مسائل میں قطر کے سابق وزیر اعظم شہزادہ حمد جاسم بن جابر کا نام بھی آرہا ہے ۔سعودیہ کے خلاف شہزادہ جاسم کے ساتھ کرنل قذافی کی گفتگو کی ٹیپ بھی عرب میڈیا میں کافی زیر بحث ہے۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ سعودیہ کے کہنے پر ہی کرنل قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کو رہا کیا گیا ہے ۔کیونکہ اس نے قطر کے سلسلے میں کچھ قیمتی معلومات فراہم کی ہیں ۔یاد رہے یہی وہ شہزادہ حمد جاسم بن جابر ہیں جن کا قطری خط پانامہ کیس کے حوالے سےوائرل ہو چکا ہے ۔
اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیر اعظم کے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کیا ۔یہ سب معاملات ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ‘‘ کے مترادف ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ68سالہ پاکستانی وزیر اعظم ساری رات جاگ کر واپس اپنے ملک کس لئے پہنچے۔انہیں وہاں کوئی پریشانی لا حق ہوئی یا پیچھے کے معاملات نے انہیں اتنا پریشان کر رکھا ہے کہ انہوں نے فوری طور پر اسلام آباد پہنچنے کا سوچا۔بظاہر اسلام آباد میں کوئی ایسا معاملہ نہیں جو وزیر اعظم کےلئے اتنا پریشان کن ہو۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کامعاملہ انہیں ڈسٹرب کئے ہوئے ہے ۔وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے پہلے پوری تیاری کرنا چاہتے ہیں اگر وہ پروگرام کے مطابق سعودیہ سےچودہ تاریخ کوواپس آتے تو ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہونا تھا کہ وہ اپنے وکلا کے ساتھ بیٹھ کراِس کیس پر تفصیلی گفتگو کر سکتے ۔ایک خیال یہ بھی ہے وزیر اعظم کو اس بات کا یقین ہو گیا ہے کہ ان کے پاس وقت کم ہے سو وہ زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ وزیر اعظم ماہِ رمضان میں سعودی عرب جاتے اور مدنیہ شریف سے ہو کر نہ آتے ۔مکہ مکرمہ میں بادشاہ کے محل میں جاتے اوراللہ کے گھر کا یعنی خانہ کعبہ کا دیدار نہ کرتے ۔
دوسری طرف ڈاکٹر طاہر القادری کا بیان بھی حیرت انگیز ہے ۔ایسے ماحول میں جب تمام نون لیگ جے آئی ٹی کا متنازعہ بنانے میں لگی ہوئی ہے انہوں نے فرما دیا ہے کہ یہ جے آئی ٹی دراصل نون لیگ کا ایک ڈرامہ ہے عوام کوبے وقوف بنایا جارہا ہے آخر میں جے آئی ٹی یہی کہے گی کہ ہمیں نواز شریف اور اس کی فیملی کے خلاف کوئی شواہد نہیں مل سکے ۔عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہوجانا چاہئے کیونکہ وزیر اعظم ہوتے ہوئے جے آئی ٹی اُن سے آزادنہ تفتیش نہیں کر سکتی ۔خودجے آئی ٹی کے ارکان نے بھی نون لیگ کی حکومت پر یہ الزام عائد کیاہے کہ وہ ریکارڈ میں تبدیلیاں کرا رہی ہے ۔رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے اس لئے ساٹھ دن میں تفتیش کرنا ممکن نہیں لگ رہا ۔اب اس بات کا مطلب کیا ہے کہ کیا جے آئی ٹی کے ارکان بھی یہی چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ اور لیٹ ہوجائے ۔مجھے تو جے آئی ٹی کے معاملات کسی پہیلی کی طرح لگ رہے ہیں ۔ہر معاملہ ایک بجھارت لگ رہاہے ۔کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون درست کہہ رہا ہے اور کون غلط کہہ رہا ہے ۔کون کیا چاہتا ہے ۔کس کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں ۔جے آئی ٹی کو دھمکیاں دینے والے نہال ہاشمی کو اگرچہ نون لیگ سے نکال دیا گیا ہے مگر وہ ابھی تک نون لیگ کی طرف سینٹر ہیں ۔نون لیگ نے سینٹ میں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔سوچنے کی بات ہے کہ ان کو جب نون لیگ سے نکال دیا گیا ہے تو ان کی سینٹ کی سیٹ کیسے برقرار رکھ سکتی ہے ۔
حسین نواز کی لیک ہونے والی تصویر کا مجرم تصویر لیک ہونے کے دوسرے روز ہی پکڑ لیا گیا تھا اس کے خلاف انضاطی کاروائی بھی ہو چکی ہے۔ وہ جس محکمے سے آیا ہوا ہے اسے وہاں واپس بھیج دیا گیا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کے ممبران کے علاوہ بھی کچھ لوگ جوڈیشل اکیڈمی میں اس کام کےلئے بلائے گئے ہیں یا وہ پہلے سے ڈپیوٹیشن پر آیا ہوا کوئی آفسر تھا پھر اس کا نام بھی صیغہ راز میں رکھا گیا ہے ۔پتہ نہیں اُس کانام ظاہر کرنے سے کونسی بین الاقوامی پیچیدگیاں پیدا ہوجانی تھیں ۔ہاں یہ ممکن ہے کہ اُس کی بیوی کا تعلق نون لیگ یا پی ٹی آئی سے ہو۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جے آئی ٹی کے سامنے نواز شریف کے پیش ہونے کے فیصلے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں اِس جے آئی ٹی سے کوئی پریشانی نہیں وگرنہ ان کا جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا کوئی ضروری نہیں تھا ۔ثبوت میں وہ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو سمن نہیں بھیجے گئے ۔ طلب نہیں کیا گیا بلکہ ریکوئیسٹ کی گئی ہے ۔جہاں ریکوئیسٹ کی جاتی ہے وہاں پیش ہونے والے کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ پیش ہو یا نہ ہو۔لیکن پاکستانی عوام نواز شریف کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کو ان کی شکست سمجھ رہے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس خبر کے ساتھ سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی ۔شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ جے آئی ٹی کو ’’جولائی ان ٹارگٹ ‘‘بھی کہہ رہے ہیں۔
mansoor afaq

