
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
کسی حدتک یہ بات بڑی خوبصورت ہے کہ ہم اہل ِ قلم زندگی کے سلگتے ہوئے مسائل پر قلم اٹھا رہے ہیں۔صریرِ خامہ سے بلبل کے پروں پر کشیدہ کاری کا کام تو خیر ہماری پرانی روایت ہے مگر صحافت کے کمرے میں بلب جلانے کاہنر ہم نے پچھلی صدی میں سیکھا ہے۔میں ہمیشہ سےاخبارات کے ادارتی صفحے کا پوری سنجیدگی سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔کچھ سالوں سے کالم نگاروں کے پسندیدہ موضوع یہی ہیں ۔نون لیگ کی اچھائیاں کہیں کہیں برائی بھی ۔ تحریک انصاف کی برائیاں کہیں کہیں اچھائی بھی ۔افواجِ پاکستان کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیل ، عدالتِ عظمی کے فیصلے یاپھر پیپلز پارٹی کی کرپشن ۔مجھے اس وقت ان موضوعات سے کچھ لینا دینا نہیں میرا سوال یہ ہے کہ ادبیوں اور شاعروں نے صرف کالم نگاری پر ہی کیوں اپنی تمام تر صلاحیتیں مرتکز کرلی ہیں شاید اسلئے کہ خالی شکم کو میر تقی میر کے تیس ہزار اشعار نہیں بھر سکتے۔ دیوان غالب دودھ کا گلاس نہیں بن سکتا۔ بال جبریل نانِ جویں نہیں بدل سکتا۔نسخہ ہائے وفا لقمہ ء تر نہیں ہو سکتا۔لکھنے والے کو پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کی ضرورت ہے۔کہتے ہیں بھوکے آدمی کو تو چودہویں کے چاند کی گولائی بھی روٹی جیسی لگتی ہے اوران دنوں کالم نگاری وہ واحد فن ہے جو فنکارکی میز پر روٹی بلکہ ساتھ روسٹ بھی لاکر رکھ دیتا ہے۔
ہمارے اکثر لکھنے والے بڑی بڑی کوٹھیوں کے مالک بن چکے ہیں ۔انہوں نے لمبی لمبی گاڑیوں خرید لی ہیں ۔تحقیق کہ کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے اخراجات کا دائرہ صرف اخبار سے ملنی والوں پر تنخواہ تک محدود رکھا ہوا ہے اور الحمداللہ وہ تنخواہیں بھی اب کچھ کم نہیں ہےکچھ ادبیوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو ان کا نقطہ ء نظر یہ تھا کہ سب کو پیٹ بھر کرروٹی اس وقت حاصل ہوگی جب ملک خوشحالی آجائے گی ۔نظامِ حکومت درست ہوجائے گا۔کرپشن ختم ہوجائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ ، یعنی اپنے تئیں سارے اہل قلم وطن کی محبت میں لکھتے ہیں۔میرے نزدیک کسی سپاہی کا ماٹو تو ہو سکتا ہے ادیب اور شاعرکا فلسفہ نہیں۔لکھنے والاتو صرف حق اور انصاف کا سپاہی ہوتا ہے بے شک اگر کوئی دوسرا ملک اس کے وطن کیخلاف جارحیت کامرتکب ہوا ہے اور اسکی آزادی کے درپے ہے تو لکھنے والا ضرور تڑپ اٹھتا ہے ۔پابلو نرودا ( Pablo Naroda)نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ۔’’سپین کی گٹاروں پر گولیوں کی پہلی بوچھاڑ ہوئی توان سے موسیقی کی جگہ لہو کے سُر چیخ اٹھے اس انتہائی کر بنا ک لمحے نے میری شاعری کو انقلاب سے دوچار کردیا آگہی کے اس ثانیے میں میں نے محسوس کر لیا کہ میں تنہائی کے قطب جنوبی سے انسانوں کے قطب شمالی میں ہجرت کرآیا ہوں ۔ان انسانوں کے درمیان کہ میری شاعری جن کے ہاتھوں کا رومال اور انکے میان سے تڑپ کر نکلنے والی تلوار بننے کی آرزو مندہے ۔ رومال اس لئے کہ وہ انکی پیشانیوں سے انکی بے پایاں محرومیوں کا پسینہ پونچھ سکے اور تلوار اس لئے کہ انکی جدوجہد میں انکا ہتھیار بن سکے ‘‘مگر یہ بالکل مختلف بات ہے۔
جو کچھ ان دنوں لکھا جارہا ہے وہ رزمیہ تحریریں ضرور ہیں مگر ان کاموضوع پاکستانی لیڈر شپ ہے ۔ان جنگ ناموں میں بڑی مہارت سے حقِ نمک ادا کیا جارہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہر اقبتاس م میں کوئی شاہنامہ فردوسی لکھا جارہا ہے یا لکھنے والاواقعہ کربلا لکھتے ہوئے داخلِ دشنام ہو چکا ہے ۔ بہر حال تمام اہل کالم میدان جنگ میں پوری طرح سرگرمِ عمل ہیں اور اپنے اپنے لیڈروں کیلئے بھرپورانداز میں آگے بڑھ بڑھ کر حملے کر رہے ہیں ۔شمشیریں چمک رہی ہیں ۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔کوئی میمنہ کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے تو کوئی میسرہ کو۔یقین کیجئے زمانہ ء جاہلیت کے عرب شعراء امرؤ القیس اور عمروبن کلثوم میدان میں اترتے ہوئے ہیں جن کے لفظوں تلواروں کی جھنکار سنائی دیتی ہے اورہاں ۔۔ اپنے کئی لکھنے والے صرف لکھنے کی حدتک سپاہی نہیں وہ عملی طور پر بھی ان جنگوں میں شریک رہےہیں ۔یہاں مجھے ژاں پال سارتر یاد آرہا ہے اگرچہ اس حوالے پر اس کی روح بھی قبر میں تڑپ تڑپ اٹھی ہوگی مگراس کی بدقسمتی کہ یاد وہی آیا ہے۔ فرانس کا وہ شاعر ادیب اور فلسفی قلم چلاناہی نہیں بندوق چلانا بھی جانتا تھا مگر اس کے قلم کی طرح اسکی بندوق کی بھی سچائی کیساتھ کمٹ منٹ تھی اسے اپنے فرانس سے بھی بڑی محبت تھی ، دوسری جنگِ عظیم میں اس نے فوج میں شامل ہوکر اپنے وطن کے دفاع میں تلوار اٹھائی اسے میگنوٹ لائن پر جرمن فوج نے گرفتار کر لیاتھا وہ نوماہ تک جرمن فوجی کیمپ میں نازیوں کے رسوائے زمانہ تشدد کا شکار رہا۔
لیکن وہ ہمارے قلم کے سپاہیوں کی تنخواہ دار نہیں تھا اس عظیم قلم کارنے تونوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھاقلم کار کی ساری جدوجہد معاشرہ کی بدصورتی ختم کرنے کے لئے ہوتی ہے۔حا لات کی کریہہ المنظری مٹانا اور اسے حسن و جمال عطا کرنا دانشور کا فریضہ سمجھا جاتاہے اوراہل قلم سے بڑا دانشور اورکون ہوسکتاہے یہ انتہائی حساس اور باشعور لوگ ہوتے ہیں مگرمجھ اس بات پر حیرت ہے کہ گلی گلی میں ان کے سامنے ان کے اپنے بھائی کسی سنگدل کی چیرہ دستی سے بدن دریدہ پڑے ہیں ،ان کے ہر طرف دکھی انسان بکھرے ہوئے ہیں ، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں ،عورتیں ظلم کی چکی میں پس رہی ہیں اور وہ ہیں کہ صاحبان ِ اقتدار کی زلف و لب ورخسار کے قصیدے گارہے ہیں اپوزیشن رہنما کے بیٹھنے اٹھنے اور چلنے پر اعتراض ہورہا ہےکبھی تحریک انصاف کی بےپناہ مقبولیت کو کسی اور طاقت کا کارنامہ قرار دیتے ہیں ۔کبھی اس کی مقبولیت کے گراف سے نظریں چرا کر اُ س کو ’خس کم جہاں پاک ‘کی گالی دیتے ہیں ۔کبھی انہیں عمران خان خوئے دلنوازی سے محروم دکھائی دیتے ہیں ۔
میں نے یہاں ان کی قوسِ قزح کے رنگوں میں لپٹی ہوئی گالیاں نہیں درج کیں ان کے پڑھنے والے ان سے اچھی طرح آشنا ہیں سوایک طرف یہ اندازِگفت و شنیدہے اور دوسری اپنے پسندیدہ بلکہ زردیدہ لیڈروں کی شان میں ایسی ایسی دلچسپ خوشامد کرتے ہیں کہ سنجیدہ تحریریں مزاح کے زمرے میں در آتی ہیں مگریہ تمام احباب میرے لئے بڑے محترم ہیں میں انہیں اور تو کچھ نہیں کہہ سکتا صرف ان کی خدمتِ اقدس میں علامہ اقبال کا ایک مصرعہ تھوڑے سے تصرف کے ساتھ (’کالم‘ فروختند و چہ ارزاں فروختند)اوراحمد فراز کی چار لائنیں:.
تم اہل حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہنر کے نجوم سامنے ہیں
بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
mansoor afaq

