
پانامہ لیکس کے پیچھے کیا ہے
پانامہ لیکس کے پیچھے کیا ہے
اسلام آpباد میں معمولی کام کیلئے ایک دوست فون کیاتھا مگر دو ہفتے گزر گئے اور کام نہ ہوا۔ دوبارہ فون کیاتو وہ کہنے لگا ”یار کیا پوچھتے ہو ۔اسلام آباد میں تو پانامہ لیکس کا جن پھر گیا ہے ۔حکومت پتھرائی ہوئی ہے ۔ کہیں کوئی کام نہیں ہورہا۔ سرکاری آفسران کسی انتظار میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ جب سے پانامہ لیکس کا چکر شروع ہوا ہے ۔ حرام ہے جو کسی وزیر نے کسی فائل کو ہاتھ بھی لگایا ہو بلکہ زیادہ تروزیر تودفاتر میں جاتے ہی نہیں ۔کچھموسموں کو دیکھ کر اڑنے والے ملک چھوڑ کر جانا چاہئے تھا مگر وزیر اعظم نواز شریف نے تمام وزیروں کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے ۔کوشش ان کی یہی ہے کہ اس مرتبہ کسی بھی مشکل میں تنہا نہ ہوں ۔ساری حکومت کی توجہ کا مرکز صرف عمران خان ہے ۔ان کے ہر سوال کا ترکی نہ ترکی جواب دیا جارہا ہے۔یہ ترکی بہ تر کی بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی نے کہا تھا کہ تمہارے منہ میں خاک ۔دوسرے نے جواباًکہا تمہارے منہ میں کیکر کاپورا درخت ،پہلا شخص بولا ”فٹ نہیں آیا ”دوسرا نے کہا ”ہم نے منہ پھاڑنا تھا پھاڑ دیا ہے ۔بہرحال صرف وزیر ہی نہیں وزیر اعظم بھی عمران خان کے جلسوں میں خواتین کے ساتھ ہونے بدسلوکی کو نوٹس لینے میں مصروف ہیں۔ بالکل اسی جیسے ایک سابق چیف جسٹس نے ایک خاتون کے پاس شراب کی دو بوتلیں دیکھ کر سوموٹو لے لیا تھا۔
لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ کیااس صورتحال میں امریکہ اور یورپ وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیں گے؟۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نون لیگ کی حکومت بیرونی امداد کیلئے مسلسل کوشاں ہے ۔ خاص طور پر دنیا کو یہ تاثر دینے کی سعی جاری ہے کہ بندوقوں والے پھر نہتوں پر چڑھ دوڑنے والے ہیں۔مگریورپ اور امریکہ سے حکومت کوابھی تک واضح اشارہ نہیںمل سکا۔ اس مقصد کیلئے شاید چند دنوں تک شہباز شریف خود امریکہ جائیںمگر میری طلاعات کے مطابق ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیںکیونکہ امریکہ طے کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی طرح آف شور رکمپنیاں رکھنے والوں کا ساتھ نہیں دے گا۔اصل قصہ اتنا ہے کہ جب امریکہ اور یورپ کی دانش گاہوں سے تیسرے عالمی معاشی بحران کی آمد آمد کی خبریں حکومتی عہدہ داروں تک پہنچیں تو کافی غور و غوض کے بعدیہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ تمام سر مایہ جو آف شور کمپنیوں میں پڑا ہوا ہے اسے باہر نکلوا یا جائے ۔یہ کھربوں ڈالردنیا کو تیسرے عالمی بحران سے محفوظ کر سکتے ہیں ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ اس سرمائے کو کس طرح گردش میں لایا جائے۔اس مقصد کی خاطر پانامہ لیکس منظر آئیں اورآف شور کمپنیوں کوغیر قانونی قراردے کر اس سرمائے کی تحقیق شروع کردی گئی کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا تھا کیا جائز ذرائع سے کمایا تھا یا غیر قانونی ذرائع سے ۔اس پر ٹیکس ادا کیا گیا یا نہیں ۔ اس سرمائے کے مالکان نے کیوں اسے چھپا کر رکھنا ضروری سمجھا۔سو اگلے دو تین ماہ میںتمام آف شور کمپنیوں کا سرمایہ منظر عام لایاجائے ۔اور منی لارنڈنگ کے قانون کے تحت یہ ساراسرمایہ قانون اپنے قبضے میں لے لے گا۔سو اتنے بڑے مقصد کیلئے جو کام کیا گیا ہے اس میں پاکستان سرمایہ کاروں کی آف شور کمپنیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔اس مقصد پر دوچار ملکوں کے حکمران قربان کئے جا سکتے ہیں ۔ اور پہلی اطلاعات کے مطابق ان تمام آف شور کمپنیوں کا تعلق پانامہ کی مشہور لا ء فرم”موزیک فونیسکا” سے ہے مگر خبر ہے کہ دوسری قسط میںچند آف شور کمپنیاں ایسی بھی سامنے آئی ہیںجن کا تعلق”موزیک فونیسکا” سے نہیں یعنی معاملہ صرف ایک فرم تک محدود نہیں۔
یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ اس فہرست میں سابق صدر آصف زرداری کا نام شامل نہیں۔اس کی وضاحت میں چھوٹی سی کہانی سن لیجئےیہ سن دوہزار کی بات ہے ۔جاوید پاشا نام کی ایک شخصیت نے برطانیہ میں پہلا پاکستانی چینل شروع کیاتھا۔یورپ کے تمام پاکستانیوں سے اس چینل کیلئے فنڈنگ جمع کی گئی تھی ۔ چینل نام بھی” پاکستانی چینل” رکھا گیاتھا۔چینل کے ساتھ ”ایسٹ” کے نام سے انگریزی زبان کا ایک روزنامہ کا بھی آغاز کیا گیا تھا ۔شاہد خان اس کے ایڈیٹر بنائے گئے تھے یہ چینل اور یہ اخبار اچھے انداز میں چل رہے تھے کہ اچانک ایک دن اخبارکے مالک نے اخبار بند کر دیا گیا۔ایڈیٹرکے سامنے مالی خسارے کا رونا رویا گیا تو اس نے اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے مالک کی وائف اور اس کی بچوں کے تمام اکاونٹس کی تفصیلات حاصل کرلی ۔جن میں بیس پچیس ملین پونڈ پڑے ہوئے تھے ۔سو مالک سچ بولنے پر مجبور ہوگیا ۔ اس نے کہا” یہ سارا دولت میری نہیں ہے ۔یہ سارا سرمایہ آصف زرداری ہے ۔ میں نے اُسی کی وجہ سے اخبار بند کردیا اورچینل بھی بس دو تین ماہ میں بندکرنے والا ہوں۔مجھ پر دو طرف سے دبائو ہے۔ ایک آصف زرداری یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں امانت میں خیانت کررہاہوں ۔حالانکہ تم جانتے ہو چینل اور اخبار میں لگا ہواتمام سرمایہ یورپی پاکستانیوں کا ہے دوسری طرف جنرل امجد مجھ سے ملنے آئے تھے (جنرل امجد شایداس وقت کے نیب کے سربراہ تھے) ۔ان کے خیال میں آصف زرداری کا سرمایہ میرے پاس ہے اور یہ چینل بھی حقیقت میں آصف زرداری کا ہے ۔ ایجنسیاں مسلسل میری پیچھے لگی ہوئی ہیں۔جب چینل بند کرنے کا وقت آیاہے تو جاوید پاشا نے میرے سامنے وہی مالی خسارے کا رونا رویا اور کہا کہ اس چینل میں66فیصد شیئر میرے ہیں اور 34فیصد شیئر دبئی کے ایک کمپنی اے آر وائی کے ہیں ۔
ہم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنے66فیصد میں سے33فیصد شیئر کسی پر فروخت کردیں۔یہ شیئر اے آر وائی والے خریدنا چاہتے ہیں مگر اس کے بعد ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ شیئر کے خریدار کی تلاش کی ذمہ داری میرے حصے میں ڈال دی گئی ۔ میں نے ہاف ملین پونڈمیں یہ 33فیصد شیئرکا سودا روزنامہ جنگ کے بریڈفورڈ کے نمائندے ظفر تنویر سے کرادیامگر جس صبح معاہدے پر دستخط ہونے تھے اسی رات اے آر وائی والے لوگ جاوید پاشا کے پاس پہنچ گئے ۔ان کے درمیان کوئی سودا طے پا گیا۔33فیصد شیئر کسی کے دبائو میں آکر جاوید پاشانے اے آر وائی والوں پر بیچ دئیے یوںان کے شیئر بڑھ گئے اور پاکستانی چینل کا نام اے آر وائی رکھ دیا گیا۔مجھے یہ معلوم نہیں کہ ابھی تک اے آر وائی چینلز میں جاوید پاشا کے شیئر ہیں یا نہیں مگر یہ دو باتیں طے شدہ ہے کہ اِس چینل میں بنیادی سرمایہ یورپ کی پاکستانی کمیونٹی کاہے اور جاوید پاشاکی آف شور کمپنیاں آصف زرداری ہیںاس پر لطف کی بات یہ ہے کہ سابق صدر ،وزیر اعظم نوازشریف کی کھل کر مدد بھی نہیں کرسکتے۔سنا ہے اپوزیشن لیڈر کی ذراسی کروٹ پر بلاول بھٹو نے وہ کچھ کیا ہے جس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔
mansoor afaq

