
واقعہ کربلا کی کربناک یادیں
واقعہ کربلا کی کربناک یادیں
جس حادثہ کبریٰ کی یاد میں آ ج میرا قلم اشکبار ہو رہا ہے،وہ تاریخ ِ درد کا ایک انتہائی الم انگیز اور بے مثال حد تک کربناک باب ہے ۔محرم کے انہی ایام میں رسول کائنات ﷺ کے لا ڈلے نواسےؓ نے اپنے خانوادہ ءاقدس کے ساتھ اپنے لہو سے ایثار وقربانی کی یادگار تحریر کی تھی۔انہی ایام محرم میںریگ زار کربلا میںان کے نانا کی امت نے ان پر پانی بند کر دیا تھا۔
روکے ہوئے تھی نہر کو امت رسول کی
سبزہ ہرا تھا خشک تھی کھیتی بتول کی
ادھر وحشت وسنگ دلی کا شیطان بھی اپنی تاریخ کا سفاک ترین باب لکھ رہا تھا۔آسمان کی آنکھ اشک بار نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ معصوم علی اصغرکے جسم میں زندگی کی نمی ختم ہو رہی ہے ۔اس کی ساری حسیات حیات پیاس بن کر اس کے ہونٹوں پر بکھر گئی ہیں۔امام حسین علیہ السلام نے اسے گود میں لیااور میدان کربلا میںآکر کہا”میں تم سے پانی مانگنے نہیں آیا۔مجھے اپنی ذات کے لیے پانی نہیں چاہیے۔مجھ سے اس معصوم کی پیاس نہیں دیکھی جاتی۔
سچ کہہ رہا ہوں تم سے اگر کچھ خیال ہے
یثرب کے شاہزادے کا پہلا سوال ہے
وہ کہہ رہے تھے اور زمیں کا نپتے ہوئے کلیجے سے یہ سن رہی تھی”بیٹا تم بھی اپنی خشک زبان نکال کر دکھا دو“اور
پھیری زبان لبوں پہ جو اس نو ر عین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسین نے
مگر ادھر سینوں میںدلوں کی جگہ پتھر رکھے ہوئے تھے۔جواب میں ایک تیر آیا اور علی اصغر کا گلا چھید کر رہ گیا۔معصوم خون بہنے لگا توامام حسین ؓ نے چلو بھر لیااور آسمان کی طرف اچھا ل کر کہا”اے خدا! تیری راہ میں حسین ؓہی معصوم لخت جگر کی قربانی پیش کر سکتاتھا۔اے محبوب ازل تیرا یہ مطالبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تھا مگر تو نے ذبح عظیم کی خاطر اس میں تاخیر کر دی تھی۔لے آج اولاد ابراہیم سے اپنے مطالبے کا جواب پالے“
اتنے بڑے حادثہ پر جتنے بھی آنسو بہائے جائیں کم ہیں مگر میں جوش اضطراب میں سینہ کوب حضرات سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کس لیے ہوا۔حضرت امام حسین ؓ نے ثبات وپامردی سے سنگدلانہ جفاکشیوں کی یلغار کیوں برداشت کی۔میرا ایمان ہے کہ اگر حسین ؓ زمین پر پاﺅں مارتے تو زمین اپنے آنسوﺅں کا وہ پانی ضرور اگل دیتی جو اس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی معصوم ایڑیوں رگڑ پر اگلا تھا۔حضرت امام حسینؓ حکم دیتے تو آسمان سے باران رحمت کا نزول شروع ہو جاتا مگر امام حسین ؓ چاہتے تھے کہ وہ احیائے دین کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کویہ بتا جائیں کہ
یہ راہ محبت ہے ساتھی اس راہ پہ جو بھی آتے ہیں
وہ راہ کے ہر ہر کانٹے ہر کچھ خون جگر ٹپکاتے ہیں
یاد رکھیے حسین کسی فرد واحدکا نام نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک کا نام ہے ۔حریت انسانی کے اجتماعی ضمیر کا نام ہے ۔وہ تحریک ،وہ ضمیراورجسم کائنات کا وہ دھڑکتا ہوا دل آج بھی ہم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ اگر ہم دین حق کی سربلندی کے لیے کوشاں ہیں تو وقت کے یزیدوں کی اطاعت نہ کریں۔ان کے مقابلے میںسینہ سپڑ ہو جائیںاور اس راہ میںکسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔
حسین ؓ زندہ ہے اور زندہ رہے گا ۔کیونکہ شہید مرا نہیں کرتے ۔ان کا نام سورج اپنی زرتار کرنوں سے آسمان کی چھاتی پر کندہ کر دیتا ہے جسے کبھی مٹایا نہیں جا سکتا ۔
ہرگز نمیرد آنکہدلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ ءعالم دوام ما
حسین ؓ مر کر بھی زندہ ہے مگر یزید کانام گالی بن گیا ہے ۔
اس طرح اس سے ظلم سیاہ فام ہو گیا
لفظ یزید داخل دشنام ہو گیا
اشک باریوں اور سینہ کوبیوں میں اس اعلیٰ مقصد کو گم نہ کیجئے۔حضرت امام حسینؓ نے ہی دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا تھاکہ حریت ِ فکر نظر ہی اصل انسانیت ہے ۔آج یو این او کے چارٹرمیں بھی آزادی ءرائے اور آزادی ءاظہار کو انسان کے بنیادی حقوق کے طور پر تسلیم کر کیا گیا ہے مگر تاریخ کے پر پیچ راستوں پر بھٹکے ہوئے انسان کو کون بتائے کہ
اب جو چھڑا ہے حریت کا ساز دوستو
یہ بھی اسی جرس کی ہے آواز دوستو
mansoor afaq

