دیوار پہ دستک

جرم کی سرگوشیاں

جرم کی سرگوشیاں

منصور آفاق

اُس شخص پر کس قدر دباؤ ہوگا جو اپنے فیصلے میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیاکہ’’ مبینہ دھاندلی کافیصلہ کرنے کیلئے الیکشن ریکارڈکا باریک بینی سے مطالعہ کرنے سے پہلے میں (جسٹس کاظم علی ملک) نے اپنے ضمیر سے چھ سوال کئے ۔کیا میں صرف خورد و نوش کیلئے پیدا کیاگیا ہوں۔کیا میں کھونٹے پر بندھے ہوئے اُس جانور کی مانند ہوں جسے صرف اور صرف اپنے چارے کی فکر رہتی ہے۔کیا میں بدلگام وحشی درندے کی طرح ہوں جسے کھانے کے علاوہ اپنی زندگی کے کسی مقصد کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔کیا میرے اندر دین ،ضمیر یا خوفِ خدا نہیں ہے۔کیا مجھے اس کائنات میں بلا روک ٹوک ہرطرح کی آزادی حاصل ہے۔کیا مجھے حق حاصل ہے کہ میں صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر باطل قوتوں کی راہوں میں بھٹکتا رہوں۔میرے ضمیرنے مندرجہ بالاتمام سوالوں کا جواب نفی کی صورت میں دیا۔پس میں نے محسوس کیاہے کہ یہی وہ مناسب وقت ہے ۔سو نظریہ ء ضرورت کو ترک کرکے تلخ سچ بول دیا جائے ‘‘

(پاکستان بھر کے تمام باضمیر لوگوں کی طرف سے جسٹس کاظم علی ملک کو ہزاروں سلام)
اس پیراگراف سے ایک تویہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ جج صاحب نے اپنا فیصلہ این اے ایک سو بائیس پر ہونے والی مبینہ دھاندلی کے متعلق دیا ہے ۔ یعنی انہوں نے خود تمام تر بے ضابطگیوں کو دھاندلی قرار دیا ہے ۔دوسرا یہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس کیلئے انہیں ضمیر کے سوال کرنے پڑے ہیں۔انہیں محسوس ہوا ہے کہ میں نے اس مقدمہ کا درست فیصلہ نہ دیاتو میرا شمار بھی جانوروں اوردرندوں میں ہوگا۔میں اپنی نظر میں بے ضمیر قرار پاؤں گا۔پھر اس فیصلے کو انہوں نے تلخ سچ قرار دیا۔انہوں نے عدالتی فیصلوں میں کسی نظریہ ء ضرورت کی روایت کابھی ذکر کیا۔جسے یہ فیصلہ سناتے ہوئے ترک کرنے کا اعلان کیاگیا ہے۔اور آخری سوال وہ تو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ حلقہ ایک سو بائیس میں دھاندلی کرنے والی قوتیں باطل قوتیں ہیں ۔انہوں نے ان قوتوں کے راستے پر چلنے کو بھٹکنا قرار دیا ہے۔اسے صراطِ مستقیم چھوڑنے کے مترادف سمجھا ہے ۔مگر یہ باطل قوتیں کونسی ہیں ۔یقیناًوہ تو نہیں ہوسکتیں جن کے حق میں فیصلہ سناگیا ہے۔اورانہوں نے اپنے پورے فیصلے میں کہیں یہ بھی نہیں کہا کہ یہ دھاندلی یہ بے ضابطگیاں ایاز صادق کے کہنے پر ہوئی ہیں۔یقیناًپی ٹی آئی انہیں ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کرسکی وگرنہ فیصلے میں اُس کا ذکر ضرور ہوتا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں ان باطل قوتوں کو کیسے تلاش کیا جائے جن کی دھاندلی کے نقشِ پا بے ضابطگیوں کی صورت میں الیکشن ریکارڈ کی ایک ایک پرچی پر موجود ہیں۔میرا خیال ہے یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ۔الیکشن کے دن کچھ جرائم ہوئے جن لوگوں نے کئے ۔ان کی فہرست موجود ہیں ۔انہیں پولیس رفتار کرکے ان سے تفتیش کرے تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔مثال طور پروہ لوگ جنہوں نے ایک سے زائد جعلی ووٹ کاسٹ کئے ۔ان دوسوپچپن ووٹوں کا مکمل ریکارڈموجود ہے۔جعلی ووٹ کاسٹ کرنے کی سزا چھ ماہ قید بامشقت ہے۔سوان لوگوں کو گرفتار کیا جائے ۔ان سے تفتیش کی جائے کہ اس جرم میں ان کے ساتھ انتخابی عملے میں سے کون کون شریک تھا۔میرا خیال ہے اگر عدالت عالیہ یہ کام کرانے میں کامیاب ہوجائے توچند دنوں میں باطل قوتوں کے چہرے سے قانونی نقاب اتر جائیگا۔چھ ہزارسے زائد غلط شناختی کارڈ نمبر جن لوگوں نے درج کئے ۔ان کی تلاش بھی کچھ مشکل نہیں ۔انتخابی عملے کی طرزِ تحریر دیکھ کر یہ پتہ چلایاجاسکتا ہے کہ ان میں سے کون کون مجرم ہیں۔ان پانچ سو ستر افراد کو بھی گرفتار کیا جائے جن کا ووٹ اس حلقے میں درج نہیں تھا مگر انہوں نے یہاں ووٹ کاسٹ کئے ۔ان سے پوچھاجائے کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ جس حلقے میں تمہارا ووٹ ہی درج نہیں ۔تم نے وہاں کیسے ووٹ کاسٹ کرلیا ۔انتخابی عملے کون تمہارا شریک کارتھا۔کس کے کہنے پر تم نے یہ جرم کیا۔میرا خیال ہے کہ صرف اسی ایک حلقے کی صحیح تفتیش اور اس کے بعد سزاو جزا کا عمل ہمیشہ کیلئے آئندہ انتخابات کوصاف شفاف بنا سکتاہے۔مگر مجھے نہیں لگتا کہ مجرموں کو سزا دی جاسکے گی اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔لیکن جرم تو جرم ہے آج نہیں تو کل یہ مجرم اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے ۔کیونکہ اسی کارِسزا و جزا سے صبحیں طلوع ہوتی ہیں اور صبح ضرور طلوع ہوگی۔

اس مبینہ دھاندلی کے فیصلے میں جو سب سے عجیب وغریب با ت تیئس ہزار نو ستاون بیلٹ پیپرز کے اوپر پریزاینڈنگ آفیسرز کے دستخط نہ ہونا ہے۔یعنی کے کم ازکم پچیس تیس پولنگ اسٹیشنوں کے پریزاینڈنگ آفیسرز نے دستخط کئے ہی نہیں۔یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔دستخط شدہ بیلٹ پیپرز کی کاپیوں کے بغیروہاں کیسے الیکشن شروع ہوگیا تھا۔کیا دونوں طرف کے پولنگ ایجنٹ آپس میں ملے ہوئے تھے۔یہ ممکن نہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں میانوالی میں ڈاکٹر شیرافگن کے پانچ انتخابات لڑے ہیں۔انتخابی عمل کی ایک ایک بات میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں یہ بات نہیں مان سکتا کہ ایسا ہوسکتا ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا ہوہے ا تو پھرکیسے ہوا۔میرے خیال میں ایسا نہیں ہواکچھ اور ہوا ہے۔بہر کیف اس سوال کے جواب کیلئے ایک بڑے تفتیشی دائرہ ء کار کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں بھی کوئی جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم بنائی جائے۔ممکن ہے وہ اس راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہوجائے۔بہرحال جرم اونچی اونچی سرگوشیاں کر رہا ہے اب اگر ہم ہی اپنی سماعتوں میں سیسہ بھر لیں کہ ہمیں تو کوئی آواز ہی نہیں آئی تو اس کا کوئی حل نہیں ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے