
ہاں یہ اقبال کا پاکستان نہیں
ہاں یہ اقبال کا پاکستان نہیں
میں ہولی ووڈ کی اذان پر جاگاتو کنارِچشمہ ء ارمغانِ حجاز دیرتک علامہ اقبال سے گفتگو کرتا رہاجب اقبال نےکہاکہ’’فلسفی کوسچائی جاننے کی کوئی ضرورت نہیں اسے ان مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے جو انسانی زندگی کو درپیش ہیں‘‘تومیں اٹھ کھڑا ہوااورفلسفہ ء اقبال پر لکھی ہوئی تمام کتابیں میانوالی کی مونسپل کمیٹی کی لائبریری میں دے آیا۔جہاں اسسے پہلے بھی انقلاب کے کئی فلسفے منشی سیف اللہ نے بھاری بھرکم تالوں میں رکھے ہوئے تھے میں ان الماریوں کےعقوبت خانوں میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکا۔مجھے معلوم ہو چکا تھا کہ فلسفی سچائی کی تلاش میں نکلا ہوا سائنس دان نہیں ہوتا۔میں نے اقبال سے پوچھ لیا تھا کہ پاکستان میں تبدیلی کیسے ممکن ہے۔ انقلاب کیسے آسکتا ہےمگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ جنہیں یہ ملک اطلس و کمخواب کے ملبوس پہناتے پہناتے خود برہنہ ہو گیا ہے۔جن کی الماریوں میں سونے کی سلیں رکھتے رکھتے اس کی اپنی تجوریاں سنسان ہوگئی ہیں۔جن کی جھولیاں بھرتے بھرتے خود اس کی اپنی جھولی خالی ہوگئی ہے۔جن کالے بوٹوں کی ایڑی کی ایک ایک قوس پر اس دھرتی نے کئی کئی کروڑ ڈالروار دئیے ہیں۔وہ تو ربڑ کے بنے ہوئے لوگ ہیں۔ٹوٹتے نہیں ہیں۔
کبھی سکڑ جاتے ہیں اور کبھی کھچ کر بڑے ہوجاتے ہیں ۔ عین ممکن ہے کہ کل خود شہبازشریف ہی پاکستان کے ایک بڑے انقلابی لیڈر کا فرغل پہن لیں ۔ نواز شریف نے فرما تودیا ہے کہ اسمرتبہ انتخابات میں مسلم لیگ انقلابی منشور لائے گی ،انقلابی تبدیلی لائے گی ،انقلابی تبدیلی آنے میں بس تھوڑا ساوقت رہ گیا ہے ۔میرا خیال ہے اب ایسی باتوں پر لوگ کم ہی یقین کریں گے ۔لوگوں کو معلوم ہے کہ پنجاب حکومت انکے پاس ہے اگر واقعی وہ کوئی انقلابی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو پنجاب میں اس کا علمی مظاہرہ کیوں نہیں کرتے مگریہاقبال کے انقلاب کو روکنے والے ہیں بڑے چالاک ۔۔۔ہمارا واسطہ شیر کے روپ میں حکمرانی ء روباہ سے پڑا ہوا ہے ۔لہولگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کا فن انہیں خوب آتا ہے لیکن اب یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ پاکستان کو صرف انقلابِ اقبال کی لہو سے لتھڑی ہوئی شفق کی جھیلیں ہی صحبوں سے ہمکنار کرسکتی ہے۔یہ لال شفق کیجھیلیں سرمایہ دارانہ نظام کے قتل سے نمو دار ہوتی ہیں۔جاگیر داری کی قبر سے نکلتی ہیں اور ملائیت کی راکھ سے جنملیتی ہیں ۔سرمایہ دار جنہیں اقبال نے فرزندِ ابلیس کہا۔
تری حریف ہے یارب سیاست افرنگ
مگر ہیں اس کے پجاری فقط امیر و رئیس
بنایا ایک ہی ابلیس آگ سے تُونے
بنائے خاک سے اس نے دوصد ہزار ابلیس
زرداریوں جیسے امیروں اورشریفوں جیسے رئیسوں کا شمار انہی دو صد ہزار میں ہوتا ہے۔خداوند قدوس نے نظام زر کے انہینگہبانوں کو شداد اور قارون کے نام سے یاد کیاہے ۔ شداد اور قارون کی تباہی کے پریڈ میں اقبالیات کی کلاس میںداخل ہواتو وہاں مسئلہ ملکیتِ زمین چھیڑا ہوا تھا۔اقبال لغاریوں ،مزاریوں ،بھٹووں، جتوئیوں اورپگاڑوں سے پوچھ رہے تھے.
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھا تا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ سازگار
خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہءِ گندم کی جیب
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خُوئے انقلاب
اور پھرنواب آف کالاباغ کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں
دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آباء کی نہیں تیری نہیں میری نہیں
اقبال نے اس نظم کا سرنامہ بھی الارض اللہ رکھا ہے۔الارض اللہ قرآن حکیم کی ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم ہےکہ زمین اللہ کی ہے اور تمام مخلوق کے لئے برابر ہے۔
پک کے تیار جوہوتی ہیں کنواری فصلیں
ان کو زردار پہ ہی وار دیا جاتا ہے
جس نے کھیتوں کو پلایا تھا لہو چھاتی کا
جیسے کتا ہے کہ دھتکار دیا جاتا ہے
انقلابِ اقبال کی تیسری کرن ملائیت کی راکھ سے نکلتی ہے۔مدرسوں کی فیکٹریوں میں بنانے جانے والے روبوٹس کےمتعلق اقبال کو یقین ہے کہ ان کی آنکھیں نہیں بنائی جاتیں، یہ لوگ پیدائشی اندھے ہوتے ہیں اور قران حکیم کےاسرار ورموز،سورج کی زرتار شعاعوں کی طرح ہیں سومولوی کا دین ، دینِ محمدنہیں رہتا فساد فی سبیل اللہ بن جاتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں.
مکتب و ملا واسرارِ کتاب
کورِ مادر زاد و نورِ آفتاب
دینِ کافر ، فکر و تدبیرو جہاد
دینِ ملافی سبیل اللہ فساد
اور پاکستان پچھلی تین دھائیوں سے اسی فسادِ فی سبیل اللہ کے نرغے میں ہے۔دینِ مصطفی کے نام پر ظلم و بربریت کی داستان لکھی.
جارہی ہے ۔ناموسِ رسول اللہ نیلام کیا جا رہا ہے ۔
یہ مفتی چند ٹکڑوں کیلئے فتوی بھی جڑتے ہیں
قبائے زہدو تقوی میں کئی شیطان بستے ہیں
یہاں روحیں بھی بکتی ہیں بدن کے بھاؤپڑتے ہیں
یہاں انسان سستے ہیں یہاں ایماں سستے ہیں
یہ کاروبارِ دینِ مصطفی کے دیکھ نظارے
یہ پاکستان ہے پیارے یہ پاکستان ہے پیارے
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی تبدیلی آئی تو اس کے بعد کونسا نظام ہو گا اس سلسلے میں علامہ اقبالنے اپنے خطبات میں فرمایاہے کہ حریتِ سا لمیت اور مساوات کی حقیقی اقدار کواز سر نو زندہ کیا جائے اوران کی روشنی میں اخلاقی معاشی ، سیاسی نظام کی نئی تشکیل کی جائے جو حقیقی اسلام کی سادگی اور افادیت کی آئینہ دارہو۔سو ہمیں اسلام کے تنا ظر میں ایک نئے سیاسی ، معاشی اور اخلاقی نظام کو تشکیل دینا ہوگااور اگر تبدیلی لانے والے یہ کام نہ کر سکے توپھر اسی بات کو درست سمجھ لیا جائے کہ ’’ہاں یہ اقبال کا پاکستان نہیں ‘‘
mansoor afaq

