
موازنہ فیض و فراز
موازنہ فیض و فراز
مجھے ادب کے بڑوں نے کہا کہ غالب اور اقبال کے بعد تیسرے بڑے شاعر فیض احمد فیض ہیں حتیٰ کہخوداحمد فراز نے بھی میرے کان میں یہی سرگوشی کی۔ میں کسی کوکچھ نہ کہہ سکا مگر میں نے احتجاجاًاپنے قلم پر ایک سیاہ رنگ کی پٹی باندھ لی ۔ممکن ہے میرا احتجاج کچھ روشن دماغوں کوملگجا لگے۔ بہتر ہے کچھ دیرکیلئے کھڑکیوں سے پردے اٹھا دیجئے ۔میں دن کی روشنی میں بات کرنا چاہتا ہوں ۔میرے پاس دکھائی دینے والے دلائل ہیں اور نظر کی عینکیں بھی۔ان عینکوں کے فریموں میں وہی عدسے ہیں جنہوں نے کتنےہی مسلمات کو پر کھا تو ان کی کرچیاں کرچیاں بکھر گئیں۔ عنکبوت کی تاروں پر کوئی کتنی دیر کھڑا رہ سکتا ہے۔
میر تقی میرکا یہ مقولہ کتنی دیر تک مسلمہ رہا کہ نظیر اکبر آبادی میلے ٹھیلے کا شاعرہے۔ مصحفی پر انشاءکو، آتش پرناسخ کو اور غالب پر ذوق کوکتنی دیر تک تر جیح دی جاتی رہی ۔۔۔ تیس چالیس سال یا اس سے کچھ زیادہ ۔۔میںفیض سے بھی کوئی تعصب نہیں رکھتا وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے شاعری سے الگ بھی ان کی بہت سیحیثیتیں ہیں وہ ترقی پسندانہ مزاج رکھتے تھے، ترقی پسند مصنفین میں بھی ان کا ایک اہم مقام ہے، وہ اپنے نظر یاتکے ساتھ انتہائی مخلص تھے اور اس راہ میں جو سب پر گزرتی ہے سوگزری تنہا پس زنداں کبھی رسوا سربازاربلاشبہ وہ ایک بڑے شاعر بھی تھے اس کے علاوہ وہ ارد و کے ساتھ ساتھ انگریزی کے بھی بہت بڑے ادیب تھے۔ وہتنقیدی شعور بھی رکھتے تھے اور اگر اس صنف کی طرف بھر پور توجہ دیتے تو صفِ اول کے نقادوںمیں ان کا شمار ہوتا ۔ انسان دوستی اور مظلوم اقوام و مظلوم افراد کی درد خواہی و دم سازی میں بھی منفرد حیثیتکے حامل تھے ۔ فلسطینیوں کے ساتھ ان کی وابستگی بھی ضرب المثل ہوچکی ہے ان کے The Lotus میںلکھے ہوئے الفاظ کی گونج آج تک فلسطین کی مظلوم فضاؤں میں تھر ارہی ہے ۔ ان کی نظریات کے ساتھ کومٹمنٹCommitment پر بھی مجھے کچھ شک نہیں ۔ بحیثیت انسان بھی میں ان کے کر دار کا معترف ہوں اوربحیثیت شاعر بھی۔میرا موضوع تو فقط ان کی شاعری ہے۔اور میں نے یہ تجزیہ کرتے ہوئے تعصب و ترجیحکی رنگ دار عینک اتار کر میز پر رکھ دی تھی۔(پتہ نہیں وہ اس مشق سخن کے دوران میز پررہی ہے یانہیں)۔
ہاں!میں نے اس بات کا خیال نہیں رکھاکہ قلم کی ضرب سے میرا اپناکوئی ہیرو زخمخوردہ ہورہا ہے یا میرے لفظوں کی فائرنگ خود میرے اپنے نازک جذبوں کاقتل عام کررہی ہے جنہیں میںنے بچپن سے ایک خوبصورت یاد کے کپکپاتے ہوئے دئیے کی طرح طاقِ خیال میں سجایا ہوا ہے ،اس یاد کیروشنی وہاں سے میرے کمرے میں آنی شروع ہوتی ہے جب میرے موحوم بھائی محمد اشفاق چغتائی نےمجھ سے کہا کہ یہ جو تُو نے لفظوں کی کشیدہ کاری شروع کی ہے ،یہ کام مت کر یہ بہت مشکل فن ہے ، زندگی ضائعہوجائے گی ، کچھ ہاتھ نہیں آئے گاتو میں نے انہیں کہا کیا فیض احمد فیض نے اپنی زندگی ضائع کردی ہے توہنس کرکہنے لگے اگرتُونے زندگی میں کوئی ایک مصرعہ بھی فیض کے معیار کاکہہ لیا تو سمجھنا کہ زندگی کاسفر رائیگاں نہیں گیااور میں فیض جیسا ایک مصرعہ کہنے کی تگ و دو میں پچھلے پچیس سال سے شعر کہےجا رہا ہوں ،یعنی زندگی بھر فیض ہی میرا محبوب شاعر رہا ہے۔صرف میرا ہی نہیں وہ ایک زمانے کامحبوب شاعر ہے ،اس کے چاہنے والے لاتعداد ہیں،مجھے ان کا ایک گمنام عاشق یاد آرہا ہے فیض جببرمنگھم آتے تھے تو انہی کے ہاں قیام کرتے تھے ،میں ان سے جب پہلی بارملا تو کہنے لگے۔”مجھے اب بھی سیڑھیوںسے اترتے ہوئے فیض صاحب کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے ۔اب بھی ان کی کپکپاتی ہوئی آواز کے وقار کی یادمجھے مودب بنا دیتی ہے۔یہ وہ کرسی ہے جس پر فیض صاحب بیٹھا کرتے تھے ۔میری ہمیشہ کوشش رہتی ہےکہ اس کرسی پر آکر کوئی اور نہ بیٹھے ۔ہاں جب بھی احمد فراز آتے ہیں تو اسی کرسی پربیٹھتے ہیں فیض صاحب کی نشست پربیٹھنا انہی کا حق ہے۔یہ جو تمہیں تصویر نظر آر ہی ہے یہ فیض صاحب کی آخری تصویر ہے۔فیض صاحب یوں بیٹھتےتھے۔۔ یوں اٹھتے تھے۔۔ یوں چلتے تھے ۔۔بات کرنے کا انداز یوں تھا۔۔ دیر دیر تک خاموش بیٹھے رہتے تھے مگر ان کیخاموشی بھی کلام کرتی تھی‘ ‘ وہ تقریباً دو گھنٹے میرے ساتھ فیض احمد فیض کے متعلق گفتگو کرتے رہے۔
میں جو اُن کے ساتھ پہلی بار ملا تھا فیض صاحب کے ساتھ ان کی محبت کو رشک بھری نظروں سےدیکھ رہا تھا اور فیض صاحب کو بھی ۔ ۔ ۔۔ ۔کہ انہیں ایسے چاہنے والے نصیب ہوئے ہیں ۔ وہ تو وہ ہے تمہیں ہوجائے گی الفت مجھ سے اک نظر تم مرا محبوبِ نظر تو دیکھو میں جب ان کے گھر سے نکلاتو مجھے یوںمحسوس ہوا جیسے میں فیض صاحب کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں ۔پھر مجھے یوں احساس ہوا کہ چلتے چلتےفیض صاحب میری ذات میں مدغم ہو گئے ہیں۔اور پھر میں خود فیض بن گیا ۔ مجھے پندرہ بیسسالہ پرانا وہ ٹیبلو یاد آیا جو میں نے فیض صاحب کی شاعری پرمیانوالی میں کیا تھا ،جب ہم دوستوں نےکئی دن تحقیق کے بعد گھنٹوں اس پر بات پر بحث کی تھی کہ فیض صاحب کیسے اٹھتے ہیں، کیسے بیٹھتے ہیں۔،کیسے چلتےہیں وغیرہ وغیرہ ۔قصہ دراصل یہ تھا کہ میں میانوالی کا واحد نوجوان قلمکار تھا جسے کراچی میں ہونےوالی ترقی پسند مصنفین کی کانفر نس پر بلا یا گیا تھا۔ اِس کانفرنس کا احوال میں نے اپنے مضمون ” سبط ِحسن اورمیں” میں تفصیل سے لِکھا ہے ۔وہاں ہمیں فیض صاحب کی شاعری پرایک ٹیبلو بھی دکھایا گیا تھا جوشاید فریالگوہر اور جمال شاہ کی پشکشے تھی ۔مجھے وہ ٹیبلو بہت پسند آیا تھا میں نے واپس آ کر میانوالی میں اپنے دوستوںکے ساتھ مل کر ویسا ہی ایک ٹیبلو تیار کیا۔ وہ ٹیبلو یہ تھا کہ پسِ منظر میں فیض صاحب کیشاعری تحت اللّفظ سے پڑھی جارہی تھی اور سٹیج پر کفن کی طرح کا لباس پہنے ہوئے دس بارہ لڑکے اپنی جسمانیحرکات و سکنات سے اُس شاعری کومفہوم دے رہے تھے ۔
اپنے ٹیبلو کے سکرپٹ کے آخر میں ہم نےجواضافہ کیا تھا وہ یہ تھا کہ ٹیبلو کے اختتام پر فیض صاحب سٹیج پر آتے ہیں اور ان کرداروں سے ایک روشنمستقبل کی گفتگو کرتے ہیں۔خوش قِسمتی سے فیض صاحب کا کردار ادا کرنے کی ذمہ داری میرے حصے میں آئیتھی۔میرے لئے مسئلہ یہ تھا کہ میں نے فیض صاحب کی صرف تصویریں دیکھی ہوئی تھیں یا آواز سنی ہوئیتھی ۔آواز بھی ایسی کہ مریے کلور کوٹ کے دوست کے پاس ایک آڈیو کیسٹ تھا جو شاید وہ کسی مشاعرے سے ریکارڈکر کے لے آیا تھا۔ اس نے اس کی ایک کاپی مجھے بھی دے دی تھی ۔۔اب جب میں فیض سے ایک محبت کرنےوالے شخص کے گھر سے نکلتے ہوئے خودکوفیض احمد فیض سمجھ رہا تھا تو دارصل مجھے وہی ٹیبلو یاد آگیا تھا جسمیں میں فیض بنا ہوا تھا ۔میں نے اس وقت بھی اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ میرے لئے یہاعزاز کی بات ہے کہ میں فیض صاحب کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ فیض صاحب واقعی اتنے بڑے شاعر ہیں کہ آجبھی میری وہ کاوِش میرے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ہماری ڈرامہ ٹیم میں بڑے بڑے ذہین نوجوان تھے ۔مجھے یادہے کہجب ہم نے میانوالی میں میجر اسحاق کا لکھا ہوا ڈرامہ "مصّلی” کیا تھاتو اس میں تھیسِس(Thesis) اینٹیتھیسِس(Anti thesis) اورسِن تھیسِز (Synthesis) کا فلسفہ ایک ایسے کردار کی زبان سے ادا کرایا گیا ہے جِس کی ذہنی یاعلمی سطح اُس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔تو ہوا یہ کہ جونوجوان وہ کردارادا کر رہا تھا اس نے اِسی وجہ سے وہ جُملے ادا کرنےسے اِنکار کردیا تھا۔ میں خدانخواستہ میجر اسحاق کو نشانہ نہں بنا رہا یہ بات مجھے ویسے ہی یاد آگئی ہے ۔بات کوئی بھیہو مرتے اندر مر ی "ماسنوالویت” جاگ اُٹھتی ہے۔ میجر اسحاق تو وہ شخصیت ہیں جِن سے فیض صاحب نےاپنے شعری مجموعے ”زنداں نامہ “ کا دیباچہ لکھوایا تھا۔ہاں تو بات ہورہی تھی فیض صاحب کیسے بیٹھتے تھےکیسے چلتے تھے کیسے پڑھتے تھے ۔
اُس آڈیو کیسٹ کی وجہ سے میں اُن کی آوازکی نقل اُتارنے میں توشاید کسیحد تک کامیاب ہو گیا تھا مگرسچ یہ ہے کہ میں فیض احمد فیض بالکل نہیں لگتا تھا۔ پھر زندگی بھرپڑھنے کا شوق ہی جاری رہا ایک دن یہی مطالعہ مجھے اس مقام پر لے آیا کہ میں نے فیض جیسی بڑی خصیت پرایساکچھ لکھنے کا ارادہ کرلیا جو اس سے پہلے نہیں لکھا گیا یہ تحریر لکھتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس بہتزیادہ رہاکہ اگر کہیں مجھ سے سچائی کا دامن چھوٹ گیاتو یہ اوراق عمر بھرمیری اپنی شیلف کو شرمسار کرتےرہیں گے سو سب سے پہلے میں نے تعصب اور ترجیح کی عینک اتاری ۔یقین کیجئے عینک کے اترتے ہی تصویر کا رنگبدلتا چلا گیامیں جو بچپن سے فیض کے قصیدے لکھتا چلا آرہا تھا میں جوفیض کے بارے میں کہاکرتا تھا۔۔”پھول جیسے تیرے مصرعے پر مکمل تبصرہ“سوچنے لگا کہ میں فیض کے خلاف کوئی جملہ کیسےلکھوں گا۔بڑا حوصلہ کرکے کام شروع کیا تو پہلے موڑ پرمیں اُس اسم ِ خیال کے دائرے میں آگیاجو کچھ بزرگوںنے سفید بالوں میں گھر بنانے والی دانش کومجھ جیسے شکاریوں سے محفوظ رکھنے کیلئے کھینچ رکھا تھا کہ خطائےبزرگاں گر فتن خطا است، یعنی بزرگوں کی غلطیاں پکڑنا بجائے خود غلط کا م ہے ۔مگر اس اسم اعظم کے حصارسے بھی رفتہ رفتہ باہر نکل آیا ۔مجھے اس بات میں زیادہ قوت نظر آئی کہ غلطی اور خطا کو دانستہ بر قراررہنے دیا جائے تو آنے والوں کے لئے وہ غلطی جو از بن جاتی ہے اور پھر غلطیوں کے پھاٹک کھل جاتے ہیں۔اس مشکل مقام سے گزرتے ہوئے غالب کی ایک بات نے بھی مجھے بہت حوصلہ دیا غالب نے اپنے ایک خط میں مرزا ہرگوپال تفتہ کو لکھا ہے”یہ نہ سمجھا کرو کہ اگلے جو کچھ لکھ گئے ہیں وہ حق ہے کیا آگے آدمی احمق پیدا نہیںہوتے تھے. (جاری ہے )
mansoor afaq

