دیوار پہ دستک

پردے کے پیچھے کیا ہے

پردے کے پیچھے کیا ہے

منصور آفاق

یہ انیس سو نوے کا واقعہ ہے۔ میں ناروے ،ڈنمارک ، فرانس اور برطانیہ میں مشاعرہ پڑھ کر واپس پاکستان آ رہا تھا۔مانچسٹر ایئرپورٹ سے پی آئی اے کی پرواز اسلام آباد کےلئے روانہ ہوئی ۔مجھے کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ ملی تھی ۔ میرے ساتھ ایک چودہ پندرہ سال کے لڑکے کی نشست تھی ۔اس کے بعد معمول کے مطابق گزرنے کی جگہ تھی اور اس سے آگے اس کے باپ کی سیٹ تھی۔یعنی پی آئی اے نے باپ بیٹے کے درمیان ایک چھوٹی سی خلیج حائل کردی تھی ۔ تمام سفر میں ا ±س لڑکے ساتھ میری گفتگو جاری رہی۔بڑااچھا لڑکا تھا۔کئی موضوعات پر اس کی معلومات قابلِ رشک تھیں۔خاص طور پریہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے بارے میں بہت باتیں جانتا تھا۔ تقریباً میری اس کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی۔ ہم جب اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو باپ بیٹا میرے ساتھ تھے ۔ ایئر پورٹ سے باہر آئے تو باپ نے کسی وجہ کے بغیر بیٹے کو بالوں سے پکڑا اور مارنا شروع کردیا ۔ باپ گالیاں دیتے ہوئے کہتا جارہا تھا’ اب بلا اپنے پولیس والوں کو‘۔میں نے اس چھڑانے کی کوشش کی تو دو اور آدمی جو شایدا نہیں لینے آئے ہوئے تھے۔میرے آگے ہوگئے اور مجھے دخل اندازی سے سختی کے ساتھ منع کیا۔خیر معاملہ کچھ ٹھنڈاہوا تو اس کے باپ نے بتایا کہ میں نے اسے ایک دن آوارہ گردی کے سبب اسے تھپڑ مارا تھا جس کے سبب تین دن جیل میں گزارے تھے۔ میں وہاں برطانیہ میں تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔سو انتظار میں تھا کہ کسی روز تو میرے ساتھ پاکستان جائے گا۔بہرحال یہ واقعہ مجھے اتنا عجیب لگا کہ میں آج تک نہیں بھول سکا۔

میں جب برطانیہ رہائش پذیر ہوا تومیں نے ایک دن غصے کے عالم میں اپنے چھوٹے بیٹے کو تھپڑمار دیا۔ساری رات ماں بیٹے کے چہرے پر مختلف کریمیں لگاتی رہی کہ تھپڑ سے لگنے والا نشان مٹ جائے اور اسے سمجھایا کہ اگر تم نے سکول میں یہ بتایاکہ ابو نے تمہیں تھپڑ مارا ہے تو تمہیںپولیس ہم سے جھین کر لے جائے گی۔

یہ دونوں واقعات ہر پاکستان کےلئے عجیب ہونگے ۔شروع شروع میں مجھے بھی عجیب و غریب لگتے تھے۔ بچوں کے تحفظ کے حوالے برطانوی حکومت کے قوانین یقینا حیرت انگیز ہیں قانو ن کے مطابق آپ سولہ سال سے کم عمر کے بچے کو گھر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ کسی مجبوری کے ثبوت کے بغیر بچے کی سکول میں غیرحاضری پر والدین کو جرمانہ تو معمول کی بات ہے ۔اس جرم میں کئی والدین کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی ہے۔یقین کیجئے بچہ اگر سکول میں اداس یا خاموش ہے تو باقاعدہ سکول کی طرف تفتیش شروع کرادی جاتی ہے۔سوشل سروسز کا محکمہ پولیس کو لے کر آپ کے گھر پہنچ جاتا ہے ۔بچے پر ذہنی ،جذباتی، اور جسمانی دباﺅ ڈالنا باقاعدہ جرم ہے۔

جہاں تک بچوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کا تعلق ہے تو برطانیہ میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔مگر حکومت نے بچوں کے تحفظ کےلئے قانون بنانے اور ان پر عمل در آمد کر نے میں کوئی کمی چھوڑی نہیں ۔یورپ اور امریکہ میں کسی بھی شخص کو بچوں سے متعلقہ اداروںمیں اس وقت تک ملازمت نہیں مل سکتی جب اسے کریمنل ریکارڈ بیورو سے کلیرنس سرٹیفکیٹ نہیں مل جاتا۔بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرم سزا کانٹے کے بعد جب رہا ہوتے ہیں توان کا باقاعدہ پولیس ایک رجسٹرد میںنام درج کرلیتی ہے۔انہیں ہر ہفتے پولیس اسٹشن جا کر حاضری لگوانی پڑتی ہے اپنی نقل و حرکت کا پولیس کو مطلع کرنا پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی زمانے میں بستہ بے کے بدمعاشوں کے نام تھانوں میں آویزاں کئے جاتے تھے۔اور انہیں تھانے حاضری لگوانی پڑتی تھی۔
یہ جوقصور میںبچوں کے وڈیوز بنائی گئے۔اور پھرانڈین جنسی ویب سائٹس پر فروخت کیا گیا ہے۔ برطانیہ انہیں بناناتو جرم ہے ہی ۔ان ویب سائٹس کو دیکھنا بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ برطانوی پولیس نے اِن تمام ویب سائٹس پر اپنا اعلان لگاہوا ہے ان ویب سائیٹس کو دیکھنے والوں کا ڈیٹا برطانوی پولیس کی دسترس میں ہے۔اِس اعلان کے باوجود جو لوگ یہ ویب سائیٹس دیکھتے ہیں برطانوی پولیس ان کے متعلق تحقیقات کرتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں۔ان پر باقاعدہ نظر رکھی جاتی ہے ۔ان کا شماران لوگوں کر لیا جاتا ہے جن سے جرم کے سرزد ہونے کا امکان ہے۔

قصور جیسا واقعہ اگر برطانیہ میں ہوا ہوتاتو اب تک کئی استعفے جمع ہوچکے ہوتے۔کم ازکم یہاں وزیر داخلہ ضرور مستعفی ہوچکا ہوتا مگرپاکستان کا معاملہ اور ہے ۔وہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے حکومت یہ کوشش بھی کر سکتی ہے کہ اس واقعہ کی سنگینی کو کم سے کم کیا جائے۔حیرت ہے اس وقت ایک سو سے زائد ویڈیو زپاکستانی میڈیا کے پاس موجود ہیں جن میں موجود بچوں کے تعداددو سو چھیاسی بتائی جا رہی ہے۔مگر پولیس بضد ہے کہ وہ صرف ان بچوں کے کیس پر کام کرے گی جن کے ماں باپ نے تھانے میں ایف آئی آر کٹوائی ہے ۔ کیاباقی بچوں کو انصاف فراہم کرناحکومتِ وقت کاکام نہیں ۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہاتھی سے بکری ہونے کا اعتراف کرا لینے والی پنجاب پولیس نے مجرم توگرفتار کر رکھے ہیں مگر ان سے پوچھ گوچھ کی ہمت کسی نہیں ہورہی۔بڑے بوڑھے کہا کرتے تھے کہ جن مجرموں کے ساتھ اوپر والے ہوں توپولیس ان کی خادم ہوتی ہے ۔ان کےلئے تھانوںمیںخود اعلی اعلی کھانے منگواتی ہے ۔حتی کہ رات کو مالشیے بھی فراہم کرتی ہے ۔اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ پولیس ان سے یہ پوچھتی کہ ان سات بچوں کے علاوہ بھی تم نے اور کس کس بچے کے ساتھ کوئی بدکاری کی ہے ۔ یہ جو ویڈیوز میں باقی بچے ہیں یہ کون ہیں ۔وہ تم نے جو لاکھوں روپے بچوں کو بلیک میل کر جمع کئے ہیں وہ کہاں ہیں اس میں تمہارے اورحصے دار کون کون تھے ۔علاقہ کا ایم پی اے تمہارا طرف دار کیوں ہے ۔پنجاب حکومت وزیروں سے تمہارا کیا تعلق ہے ۔آخر وزیر قانون کیوںکہہ رہا ہے کہا کہ یہ زمین کا جھگڑا ہے ۔ اس نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ مجرم سولہ سے اٹھارہ سال کی عمر لڑکے ہیں اور وہ تسلیم کر رہا ہے کہ لڑکے یہ گھناونا کام دوہزار چھ سے کر رہے ہیں ۔ یعنی صاحب ِ قانون نے یہ پھول بکھیرے کہ ان مجرموں نے جب یہ کام شروع کیا تھاتو اس وقت ان کی عمریں سات سے لے کر نو سال تک تھیں۔محکمہ تعلیم کے جو لوگ اس میں شریک ہیں ابھی تک اس طرف کسی نے کوئی اہم قدم کیوںنہیں اٹھایا۔کچھ اطلاعات اس سے بھی زیادہ خوفناک ہیں جنہیں درج کرنا میرے لئے مشکل ہورہا ہے ۔ اشاراً اتنا کہہ سکتا ہوں کہ کچھ بچے قصور سے لاہور بھی لائے گئے ۔

اگرچہ وزیر اعظم نواز شریف نے مجرموں کو سخت سزا دینے کا حکم دیا ہے مگر وزیراعلی پنجاب کا رویہ واضح نہیں ۔انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ وہ کسی ایماندار شخص کو قصور کا ڈی پی او لگا دیتے ۔وہ دوچار دنوں میں سارا کچھ سامنے لے آتامگرانہوں نے پہلے جوڈیشل کمیشن کا اعلان کیا۔پھر جے آئی ٹی تشکیل دلوا دی گئی ۔بالکل ویسا ہی لگ رہا ہے جیسے سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں ہوا تھا۔ مگر وہاںتو مسئلہ یہ تھا کہ قاتل خود پولیس والے تھے ۔سوال پیدا ہوتا ہے یہاں کسے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کیا اس کیس میں بھی کوئی بڑی شخصیت انوال ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے