دیوار پہ دستک

بیضاوی در شرح یار محمد۔ منصور آفاق

بیضاوی در شرحِ یار محمد

منصور آفاق

آغازیہ


محی الدین ابن عربی کے ایک مریدِ خاص جعفر بن یحییٰ تھے۔جب وہ اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ کی تلاش میں سپین سے مکہ پہنچے تو وہاں سبز جبہ پوش نے انہیں کہاتم جس کی تلاش میں مشرق میں آئے ہو زمانے کا وہ استاد مغرب میں موجود ہے۔اور ابھی تمہاری تلاش میں ایک کمی بھی ہے۔جہاں سے آئے وہیں واپس چلے جائو۔وہ وہیں ہے۔حاتم طائی کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔العربی کا بیٹا ہے۔ محی الدین نام ہے۔جعفر محی الدین کو ڈھونڈتے دھونڈتے ایک درس گاہ میں پہنچا۔اور محی الدین کا پوچھا تو کسی نے ایک طالب علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ محی الدین ہے۔وہ اس وقت کتاب ہاتھ میں لئے ایک کمرے سے عجلت میں نکل رہا تھا۔جعفر نے اس نوجوان کو حیرت سے دیکھا اور روک کر پوچھا’’کہ اس زمانے کا سب سے بڑا استاد کون ہے۔تو محی الدین نے کہا ’’مجھے اس سوال کا جواب دینے کیلئے کچھ وقت چاہئے‘‘جعفر نے اس سے پوچھا کہ طائی قبیلے کے العربی کے تمہی بیٹے ہو۔ تو محی الدین نے کہا ’’ہاں میں ہی ہوں۔ جعفر بولا’’تو پھر مجھے تمہاری ضرورت نہیں‘‘
تقریباً تیس سال کے بعد جعفر اس ہال میں داخل ہوا جہان محی الدین ابن عربی تقریر کر رہے تھے۔انہوں نے جعفر کے اندرداخل ہوتے ہی کہا’’جعفر بن یحییٰ اب جب میں تمہارے سوال کاجواب دینے کے قابل ہوں ۔تو تمہیں اس کی ضرورت نہیں۔
تیس سال پہلے جعفر تم نے کہا تمہیں میری ضرورت نہیں۔۔ کیا اب بھی تمہیں میری ضرورت نہیں ہے۔اس سبز جبہ پوش نے تیس سال پہلے تمہاری تلاش میں کسی کمی کا تذکرہ کیا تھا۔وہ کمی وقت اور جگہ کے تعین کی تھی۔۔یہی کہا ہے ابھی میں نے کہ حاصل کیلئے صحیح وقت اور صحیح جگہ کا تعین ضروری ہوتا ہے۔
میں نے آج سے بیس سال پہلے ایک دن سوچا تھا کہ میں بسم اللہ کی تفیسر میں ایک کتاب لکھوں مگر میرے بڑے بھائی محمد اشفاق چغتائی نے مجھے اس کام سے روک دیا تھا۔انہوں نے کہا تھا ابھی نہ تو کوئی تمہیں راستہ دکھانے والا ہے نہ ہی یہ وقت موزوں ہے اور نہ تم میانوالی میں بیٹھ کر یہ کام کر سکتے ہو ۔ اب جب میں نے اس کام کا آغازعلامہ مفتی احمدیار کی رہنمائی میں شروع کرنے کا ادارہ کیا تومجھے محسوس ہوا وہ راستہ دکھانے والا زمانے کا استاد مجھے مل گیا ہے اور جووقت اور جگہ کے تعین کا مرحلہ تھا وہ منزل پر پہنچ گیا ہے۔
میں نے اس کام کےلئے تفسیر ِ بیضاوی کا انتخاب نہیں کیا ۔یہ حکم علامہ مفتی یار محمد خان قادری کی طرف سے واردہوا ہے ۔ہوا دراصل کچھ یوں کہ میں کچھ دن ان کے درس میں شریک ہوا ۔وہ برطانیہ کے شہر برمنگھم کی ایک روحانی درس گاہ میں علم ِ دین کے اجالے بکھیرتے ہیں مجھے ان کے متعلق معلوم ہے کہ ان کا شمار ایسے اہل ِنظر میں ہوتا ہے جودماغوں کی کھڑکیاں کھولتے ہیں وگرنہ اکثر مذہبی درس گاہیں صرف ذہن کے بند دریچوں کی درزوں میں پوٹین بھرنے کاکام کرتی ہیں ۔میں جب ان کی درس کدے میں داخل ہوا تو وہ ابھی تشریف نہیں لائے تھے ۔طالب علم ابھی انتظار میں تھے میں نے واپسی کا ارادہ کرلیا کہ پھر کسی دن آجائوں گا۔اچانک میرے دماغ میں کوئی خیال آیا ہے وہ طالب علم جس نے میں نے مفتی یارمحمدخان کے متعلق پوچھا تھا اسی طالب علم سے یونہی وہی سوال کیا جو جعفر بن یحیی نے ابن عربی سے کیا تھاکہ تمہارے خیال میں اس زمانے کا استاد کون ہے ۔تو کہنے لگا’’وہی جس کا میں انتظار کر رہا ہوں۔‘‘طالب علم کے جواب میں اتنی وسعت اور اتنی گیرائی دیکھ کر میں حیران ہوگیا کہ اس نے اپنے استاد کا بھی زمانے کا استاد کہہ دیا تھااو ریہ بھی مجھے سمجھا دیا کہ میں انہی میں سے ہوں جو کہتے آرہے ہیں
اے سوارِ اشہبِ دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ امکاں بیا

اور پھر میں نے اس کےاستاد ملے بغیر واپس جانے کا ادارہ ترک کردیا۔وہ آئے ان سے گفتگو ہوئی۔درس میں شرکت میرا معمول بننے لگی ایک دن میں نے عرض کی کہ یہ طالب علم جو نوٹس لیتے ہیں انہیں جمع کر کے کتابی شکل میں آپ کیوں نہیں شائع کراتے۔اور پھر ایک دن یہ قرعہ ئ فال بھی میرے نام نکلا۔انہوں نے کاغذوں کا ایک بنڈل میرے حوالے کردیا ۔ یہ کاغذ وہی نوٹس تھے جنہیں طالب علم لکھ لیتے تھے۔ان کاغذوں ان کے صرف وہ ارشادات درج تھے ۔جو انہوں نے تفسیر بیضاوی کے حوالے سے فرمائے تھے ۔سو اس لئے میں نے اس کتاب کانام
’’بیضاوی در شرح ِ یار محمد‘‘
رکھا ہے ۔تفسیر بیضاوی کی اہمیت اپنی جگہ پر مگر برصغیر میں اس تفیسر کو زیادہ اہمیت اس وقت سے حاصل ہوئی جب اسے درس نظامی میں شامل کیا گیا
یہ درس نظامی کا نصاب اورنگ زیب عالمگیرکے دور میں ملا نظام الدین سہالوی نےمرتب کیا۔۔یہ ایسا نصاب ہے جو صرف علمائے دین پیدا کرتا ہے ۔اس سے پہلے دینی مدارس کے نصاب میں شہریت،معاشیات،فلکیات ، طعبیات،ریاضی، طب اور موسیقی بھی شامل تھی۔امیر خسروجنہوں نے راگ ایجاد فرمائے اسی نصاب کے پرودہ تھے،جس انجینئر نے تاج محل جیسی خوبصورت ترین عمارت ڈیزائن کی اور جس نے بنائی دونوں انہی مدارس کے پڑھے ہوئے تھے۔مگرملا نظام الدین سہالوی نے اپنے مرتب کردہ نصاب سے یہ تمام مضامین نکال دئیے۔صرف وہی رہنے دئیے جو عقائد و اعمال کی اصلاح کا کام دے سکتے تھے ۔’ انمایخشی اللہ من عبادہ "العلماء میں جن علمائ کا ذکر آیا ہے وہ صرف اسی نصاب سے پیدا ہوسکتے ہیں جو سابقہ نصاب تھا۔
ملا نظام الدین نے درس نظامی میں مشکل ترین کتابیں شامل کیں ان کا خیال تھا کہ جتنی مشکل اور ادق کتاب ہوگی اس پر طالب علم کو اتنی زیادہ محنت کرنا پڑے گی جس سے اس کی نظر میں گہرائی آئے گی۔ فکر میں بلندی پیدا ہوگئی قوتِ فہم میں اضافہ ہوگا۔شاید انہوں نے اسی نقطہ ئ نظر سے درس نظامی میں تفسیر بیضاوی شامل کی تھی۔تفسیرِ بیضاوی قاضی ناصر الدین ابوالخیر عبداللہ بن عمر بن محمدعلی شیرازی کی تحریر کردہ تفسیرِ قرآن ہے ۔انہوں نے اس کا نام ’’انوارالتنزیل واسرار التاویل رکھا ۔تفسیر دراصل تاویل کرنے کا نام ہے ۔کچھ مفسرین اس بات سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔امام ماتریدی لکھتے ہیں کہ تفسیر کے معنی یقین اور قطعیت کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ اس لفظ کا یہی مفہوم ہے یہی اللہ تعالی نے مراد لیا ہے ۔اور جس میں قطعی اور یقینی طو ر پر نہ کہا جارہا ہو کہ اس لفظ سے یہی مراد ہے وہ تاویل ہے ۔علامہ طوسی نے بھی روح العمانی کے مقدمہ میں اس بات کی وضاحت یوں فرمائی ہے ۔کہ ترتیب ِ عبارت سے جو مفہوم واضح طور پر ابھر رہا ہے اس کا بیان تفسیر ہے اورجہاں عبارت سے مفہوم اشارۃً معلوم ہورہا ہے اس کے کشف و اظہار کا نام تاویل ہے ۔لغوی طور پرتاویل کا لفظ اول سے مشتق ہے اوراس کا مفہوم لوٹنا ہے ۔رجوع کرنا ہے ۔منحرف ہونا ہے اصطلاحی معنوں میں توضیح و تشریح کرنا تاویل ہے ۔خواب کی تعبیر کو بھی تاویل کہتے ہیں۔ کلام کا اظہار و بیاں بھی تاویل کے زمرے میں آتا ہے ۔قرآن حکیم میں تاویل کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔کہیں نتیجہ اور انجام کے مفہوم میں آیا ہے تو کہیں اعمال کے موجب و محرک کے طور پر۔۔کہیں تاویل سے مراد واقعہ کا ظہور پذیر ہونا ہے تو کہیں تعبیرِخواب۔مفتی محمدیار خان کے نزدیک کسی کلام میں موجود کئی نکات میں سے علمی دلیل اورخوبصورت قرینے سے کسی ایک نقطے کو ترجیح دینا دراصل تاویل کرنا ہے۔ صاحب ِ تفسیراُسی نقطے کی انتخاب میں کسی بھی آیت کی اصل کی طرف لوٹتا ہے اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی استعداد کے مطابق اسے بیان کرتا ہے ۔شرح کے اس عمل کو تفسیر کہتے ہیں ۔تفسیر کا لفظ فسر سے مشتق ہے ۔فسر کیا ہے ۔فسر بے حجاب کرنا ہے۔عریاں کرنا ہے ،نمایاں کرنا ہے ۔ظاہر کرنا ہے ۔ کھولنا ہے ۔وضاحت کرنا ہے۔تفسیر اونٹی یا گھوڑے سے اس کی زین اتارنے کے عمل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ زین اتارنے کے بعد بیٹھ ننگی ہوجاتی ہے۔مگر اس لفظ کا کثرت سے استعمال عقلی اور غیر مادی اشیائ کےلئے ہوا ہےاور محسوسات اور معقولات کے اظہار کےلئے مستعمل رہا ہے ۔
اصطلاحی مفہوم میں تفسیر ،احوالِ قرآن کے بیان کو کہتے ہیں ۔اور اسے ایک علحیدہ علم کی حیثیت حاصل ہے۔دیگر علوم کی طرح علمِ تفسیر کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں جوجزوی مسائل اور کلی قواعد کا تحفظ اور نگہداشت کرتے ہیں کیونکہ تفسیر کی تعریف میں آتا ہے کہ تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جو قرآنی آیات سے متعلقہ واقعات و اسباب پر بحث کرے۔حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمین و آسماں پر گزارے ہوئے ایک اایک لمحے کے تناظر میں قرآن حکیم کی آیات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔محکم آیات( جو کھول کر بیان کی گئی ہیں جن کی تاویل کی ضرورت نہیں ) اورغیر محکم یعنی متشابہ آیات کی پہچان کر ائے۔آیاتِ ناسخ و منسوخ کا عرفان دے ، خاص و عام کا فرق سمجھائے ۔مطلق و مقید اور مجمل و مفسرکی حقیقت دکھا سکے اور حرام و حلال وعدو وعید ، امرو نہی اور عبرت و امثال پر بحث کر سکے
کچھ علمائے کرام علم ِ تفسیر کو علوم میں شامل نہیں کرتے ان کے خیال میں علمِ تفسیر علوم کی بنیادی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔تفسیر صرف ایک ایساعلم ہے جوقرآن حکیم کی تشریح کرتا ہے اور اس کے الفاظ و معنی بحث کرتا ہے۔بہر حال یہ ایک اختلافی بحث ہے مفتی یار محمد خان سمجھتے ہیں کہ فہم ِ قرآن کےلئےدیگر علوم بھی حاصل کرنا انتہائی ضروری ہیں خاص طور پرلغت و قرآت ،صرف و نحو،منظق و تاریخ،علم ِحدیث و علم الکلام۔یوں اس سطح پر یہ علوم بھی علم تفسیر کا حصہ قرار پاتے ہیں ۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ علم ِ تفسیر کی ضروت کیوں پیش آئی۔اللہ تعالی جو قرآن حکیم نازل فرمایا ہے انسانوں کے لئے وہی کافی ہے۔اللہ کے کلام کو کسی تشریح کی کیا ضرورت ہے۔اس سوال کے جواب میں ارشادِ باری تعالی ہے
’’ہم نے با برکتات آپ پر نازل فرمائی تاکہ اس کی آیات میں تدبر کریں۔ایک اور آیت کریمہ میں فرمایا’’کیا قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں‘‘۔
یہی تدبر یہی غور و فکر علم تفسیر ہے ۔
شرح ِقرآن میں پہلی فصلیت اس تفسیر کی ہے جوقرآن حکیم کی وساطت سے کی جاتی ہے۔دوسرا مرتبہ اس تفسیر کا ہے جو احادیث ِ رسول کی روشنی میں بیان ہوتی ہے ۔تیسرا درجہ اس تفسیر کو دیا جاتا ہے جو اقوالِ اصحابِ رسول سے واضح ہوتی ہے۔چوتھے مقام اس تفسیر کا ہے جوتابعین اور تبع تابعین کے اقوال سے منور ہوتی ہے اورقواعدِ عربیہ سے مطابقت رکھتی ہے ۔کسی بھی تفسیر کاقواعدِ عربیہ سے مطابقت رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔عربی النسل فصحائ کے کلام کے مطابق ہو ۔بے شک تفاسیر میں مفسر اپنی رائے بھی درج کرتے ہیں مگراُس تفسیر بالرائے کو باطل سمجھا جاتا ہے جو فرمانِ ربِ ذوالجلال کے مطابق بھی نہ ہو ، شہرِ علم حضور سرورکائنات کی احادیث بھی جس کا ساتھ نہ دے رہی ہوںاور وہ قواعدعربیہ کیلئے بھی اجنبی ہو۔
تفسیر قرآن کیلئے بھی ضروری ہے کہ اس کا موضوع اور مضامین وہی ہوں جو قرآن حکیم کے بنیادی مقاصد سے تعلق رکھتے ہیں معرفت ِ احکام شریعہ سے منسلک ہیں۔بے شک قرآن حکیم کی بہت سی سورتیں اور آیتیں بالکل واضح ہیں جہاں نہ کوئی ناسخ ہے اور نہ کوئی منسوخ ۔ جہاں ناسخ و منسوخ کا تعلق ہے تو منسوخ وہ آیت ہوتی ہے جو پہلے ناز ل ہوتی ہے اس میں ایک حکم ہوتا ہے اور ناسخ وہ آیت ہوتی ہے جو بعد میں نازل ہوتی ہے اور اس میں بھی ایک حکم ہوتا ہے جو پہلی آیت کے حکم کو منسوخ کردیتا ہے ۔احکام میں نسخ کے مسئلہ پر بھی اختلاف موجود ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایک انسان کے متعلق تو یہ قیاس ہو سکتا ہے کہ اس نے ایک حکم دیا پھر تجربہ سے معلوم ہوا کہ وہ حکم غلط تھا یا اس کے فوائد سے اس کے نقصانات زیادہ تھے اس لیے اس حکم کو منسوخ کر کے اس سے بہتر حکم لا نا پڑا لیکن اللہ جو عالم الغیب ہے اس کے متعلق یہ تصور کرنا بھی غلط ہے کہ اس نے پہلے جو حکم دیا تھا اس کے نقائص ظاہر ہوگئے تواس سے بہتر حکم لانا پڑا ۔ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ قرآن حکیم کی اس آیت کا مطلب کیا ہوسکتا ہے ۔ جس میں خود خدا نے ناسخ منسوخ کی بات چلاتے ہوئے فرمایا ۔
’’مانسخ من آیۃٍ او ننسھا نأت بخیر منھا او مثلھا‘‘سورۃ البقرہ
ہم کسی آیت کو منسوخ کرتے یا بھلاتے نہیں جب تک اس سے بہتر یا اس جیسی آیت نہ لے آئیں۔ علمائے اسلام اس آیت کا مفہوم متعین کر نے میں مختلف الرائے ہیں اکثر یت کی رائے میں یہ آیت خود قرآن حکیم میں ناسخ منسوخ کے متعلق ہے۔یہی درست ہے کہ قران حکیم میں بہت سے ایسے احکام ہیں جو منسوخ کر دئیے گئے اور ان کے ناسخ احکام لائے گئے قرانِ حکیم کی بہت سی آیتیں منسوخ ہوگئی ہیں مگر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہاں تک قراّن حکیم نے بہتر آیتیں لانے بات کی ہے تووہ ناسخ و منسوخ کے اس نظام کے مطابق درست ہے مگراسی جیسی آیت لانے کی جو بات ہے اس سے پہلی آیت کو کیسے منسوخ مان لیا جائے جب اسی جیسی دوسری آیت بھی ہے ۔ یہ سوال اٹھانے والے علمائ کا خیال ہے یہ آیت پچھلی شریعتوں کے احکام کے متعلق ہے مگر ہمارے نزدیک اس آیت کی یہ تفسیر ، تفسیر بالرائے ہے اور باطل ہے کیونکہ اس کے حق میں قرآن وحدیث سے کوئی تاویل نہیں لا سکتے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف میں تین قسم کا نسخ ہے۔پہلا یہ کہ کسی آیت کا حکم منسوخ کردیا گیا، لیکن تلاوت باقی رہی۔دوسرایہ کہ تلاوت منسوخ کردی گئی مگر حکم باقی رہا۔تیسرایہ کہ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ کردیئے گئے المنسوخ إما أن یکون ھو الحکم فقط أو التلاوة فقط أو ہما معًا (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۸، ط بیروت)
اور یہ تینوں قسم کا نسخ قرآن میں اللہ تعالی کی طرف سے ہوا۔ بذریعہٴ وحئ الٰہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہوا، حضور سروکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوا ان کے بعد قرآن میں کوئی نسخ نہیں ہوا۔ اور نسخ صرف چند آیات میں ہوا ہے لہٰذا نسخ کے بعد صحابہٴ کرام جو قرآن پڑھا کرتے تھے آج بھی بعینہ وہی قرآن ہے۔
(۱) منسوخ الحکم آیت کی مثال جو قرآن میں موجود ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعاً إِلَى الْحَوْلِ (الآیة)اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور(اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہےکہ(مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں،اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، اللہ کے قول: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجاً يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْراً (الآیة)
اورتم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن تک رو کے رکھیں۔
کچھ لوگ اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پہلی آیت کو دوسری آیت قطعاً منسوخ نہیں کر رہی بلکہ مکمل کر رہی ہے۔ اسی طرح آیت: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً (الآیة) (مومنو! جب تم پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہو تو بات کہنے سے پہلے (مساکین کو) کچھ خیرات دے دیا کرو)۔کا حکم بھی منسوخ ہوگیا اور تلاوت اس کی باقی ہے۔
(۲) منسوخ التلاوة آیت کی مثال جس کا حکم باقی ہو : یروی عن عمیر -رضي اللہ عنہ- أنہ قال: کنا نقرأ آیة الرجم: الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموھما البتة نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ۔
(۳) ایسی آیت جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہوگئے ہوں: فھو ما ورت عائشة -رضي اللہ عنھا- إن القرآن قد نزل في الرضاع بعشر معلومات ثم نسخن بخمس معلومات فالعشر مرفوع التلاوة والحکم جمیعا والخمس مرفوع التلاوة باقي الحکم (تفسیر کبیر: ج۳ ص۲۰۹، ط بیروت)
صحیح بخاری کی روایت ہےکہ شروع میں آیت رجم اتری تھی مگر بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی تھی۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق والدین کے بارے بے رغبتی کو کفر قرار دینے والی ایک آیت مبارکہ بھی منسوخ التلاوۃ ہے۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ سورۃ توبہ کے برابر حجم کی سورت اور مسبحات کی طرح کی ایک سورت بھی صحابہ کےذہنوں سے محو کر دی گئی اور انھیں اس بارے صرف اتنا یاد تھا کہ ایسی ایسی کوئی سورت نازل ہوئی تھی۔ بہر حال کچھ صاحب ِدین ایسے بھی ہیں جو بخاری اور مسلم کی ایسی تمام احادیث کی صحت کو نہیں مانتے جن پرقرآن حکیم میں ناسخ و منسوخ کے نظام قائم ہے
اصولِ تفسیر میں الفاظِ قرآن کا تلفظ پر بحث کی جاتی ہے،لفظوں کے مفاہیم کو سمجھا جاتا ہے انفرادی اور آپس میں ملے ہوئے احکامات پر غور کیا جاتا ہے ان کے حقیقی اور مجازی معانی دیکھے جاتے ہیں ۔ اسبابِ نزول پربحث کی جاتی ہے قواعدِ عربیہ کی بنیاد پرتفہم کی جاتی ہے اورقصصِ قرآنی کو تاریخی اورقدیم الہامی کتابوں کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔
ابوالخیر ناصر دین بیضاوی کی یہ’’ تفسیر انوار التنزیل و اسرار ِ تاویل ‘‘علمِ تفسیر میں بہت اہمیت کی حامل ہے ۔مکمل طور پر اصولِ تفسیر کے مطابق ہے ۔عربی قواعد و ضوابط ہے۔حروف کی حرکت سے آیات کے درمیان تعلق کو سمجھ کر بیان کیا گیا ہے۔لفظ کے استعمال میں حقیقی ا ور مجازی معانی دیکھےگئے ہیں اور اس کی دلیل کیلئے دانش گاہِ عرب سے کلام سامنے لایا گیا ہے۔ فقہی مسائل کو آیات کی روشنی عطا کی ہے ۔عقل کی بنیاد پر قرآن حکیم سے نئے مفاہیم نکالنے والوں کاعقلی دلائل سے رد کیا ہے۔انہی عقلی دلائل کی وجہ سے امام بیضاوی پر کچھ اہل علم معترض بھی ہیں کہ ان کے ہاں عقلیت پسندی بہت ہے اور انہوں نے ضعیف احادیث بھی درج کی ہیں خاص طور پر سورتوں کی فضلیت میں درج شدہ حدیثیں خاصی ضعیف ہیں ۔
مگران اعتراض سے امام بیضاوی کی اہمیت باطل نہیں ہوتی کیونکہ ان کی عقلیت پسندی کہیں بھی عقلیت پرستی تک نہیں پہنچی اور جہاں تک احادیث کے ضعیف ہونے کی بات ہے تو وہاں امام بیضاوی کجا امام بخاری بھی کئی مقامات لڑکھڑا گئے ہیں ۔ کہتے ہیں ہدایہ شریف میں سب حدیثیں وضع کردہ ہیں مگر اس بات سے ہدایہ شریف کی اہمیت و حیثیت کم تو نہیں ہوتی ۔

خطبہ ئ تفسیرِبیضاوی

﴿ترجمہ ﴾
سب تعریفیں اُس اللہ کےلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیاتاکہ وہ تمام جہانوں کو
(اللہ کے قہر کا) ڈر سنا سکے ۔اور پھر للکاراقرآن حکیم کی سورتوں میں سے کسی جھوٹی سی سورت کے مقابلہ کےلئےاور خالص عربی زبان کے بلیغ خطیبوں کو خاموش کرادیا(اس لئے کوئی ترجمہ ےتلاش کرنا ہے)

شرح ِ خطبہ

تفسیر بیضاوی کے خطبےکی اہمیت کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خطبہ کے پہلے جملے ’’ الحمدللہ الذی نزل الفرقان علی عبدہ ‘‘کے اندر نو بحثیں موجود ہیں۔
پہلی بحث
ابوالخیر ناصر دین بیضاوی نے قرآن حکیم کی مناسبت کے طور پر’’ الحمدللہ‘‘ تو درست فرمایا ہے مگر اس کے بعد ’’نزل الفرقان‘‘کیوں کہا ہے ۔ اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ اسم جلالت ’’اللہ ‘‘ اللہ تعالی کا اسمِ ذاتی ہے اور ’’الذی نزل الفرقان ‘‘ اللہ تعالی کی صفت ہے۔اگر وہ صرف’’ الحمدللہ ‘‘لکھتے تو یہ واہمہ ذہن میں لہرا سکتا تھاکہ سزاوارِ حمد و ثناصرف ذات کے اعتبار سے حمد کا مستحق ہے صفات سے اعتبار سے نہیںاور اگر وہ صرف اسم صفت کاذکر فرماتے تو دماغ میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ قدوسِ ذوالجلال صرف حیثیتِ صفات سے حمد کا استحقاق رکھتا ہے حیثیتِ ذات میں حمد کا لائق کا نہیں ۔اسی لئے انہوں نے اسم ِ ذاتی کے ساتھ اسمِ صفاتی کا ذکر بھی فرمایا۔

دوسری بحث
انہوں نے الفرفان سے پہلے ’’نزل ‘‘ کا لفظ استعما ل کیا ہے ۔’’نزل ‘‘تنزیل سے مشتق ہے ۔ اوپر سے لے کر نیچے تک منتقلی کے عمل کوتنزیل کہتے ہیںاور یہ نقل اعلی من اسفل جواہر میں ہوتی ہیں جب کہ قران حکیم الفاظ و معانی کا نام ہے اور الفاظ و معنی اپنی تشکیل میں مکمل ہوتے ہیں ان میں انتقال کیسے ممکن ہو سکتاہے ۔یہ سوال اپنی جگہ پر مضبوط ہے مگر انتقال کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک انتقال کسی واسطہ کے بغیر ہوتا ہے اور ایک منتقلی کسی واسطے کی وساطت سے ہوتی ہے۔بے شک الفاظ و معانی میں بلاواسطہ انتقال ممکن نہیں لیکن بالواسطہ ممکن ہو سکتاہے۔جب اللہ سے قرآن فرشتے کو منتقل ہوا تو بالواسطہ الفاظ و معنی کا بھی انتقال ہوگیا
تیسری بحث
تیسری بحث دوسری بحث کے جواب پراعتراض سے جنم لی رہی ہے کہ بالواسطہ بھی قرآن حکیم میں منتقلی ممکن نہیں کیونکہ قرآن اللہ تعالی کی صفت ہے اور صفت موصوف کے ساتھ قائم ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کی جاسکتی سو قرآن میں نقل صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالی میں انتقال کی صورت ہوجب وہاں انتقال محال ہے تو قرآن میں کیسے بالواسطہ انتقال ممکن ہوسکتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کلام نفسی بھی اور کلام لفظی بھی۔جہاں تک کلام نفسی کی بات ہے تو وہ صفتِ قدوس ذوالجلال ہے وہ اللہ سے جدانہیں ہوسکتا اللہ کا کلام ازلی ہے اور اللہ تعالی ازل سے متکلم ہے مگرکلام کی یہ صفت ِ ازلی لفظ کے متصف نہیں ہے اسی لئے کلام لفظی کو اللہ کے ساتھ نہیں مخلوق کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے سو اس میں انتقال ممکن ہے اور ہم اسی کلام لفظی کو کلام اللہ کہتے ہیں﴿یہ بات پہلی بار امام احمد بن حنبل نے کی تھی جب مامون رشید کے دور میں خلقِ قرآن کا مسئلہ شروع ہوا تو انہوں نے کہا کہ قرآن حکیم کلام ِ اللہ ہے اوراس لئے غیر مخلوق ہے کہ اللہ کے علم سے صادر ہوا ہے مگر قرآن حکیم کے الفاظ مخلوق ہیں۔اس موضوع پر اہم ترین کتاب قاضی ابوبکرباقلانی کی کتاب ’’الانصاف ‘‘ ہے ۔
چوتھی بحث
چوتھی بحث ’’تنزل‘‘ اور’’ انزال‘‘ کی ہے۔انزال دفعتاً اترنے کو کہتے ہیں اور تنزیل وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں نزول تدریجی ہو۔قرآن حکیم اپنے نزول کے متعلق ایک جگہ فرماتا ہے ۔ ’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القران‘‘یعنی قرآن رمضان کے مہینے میں دفعتاً نازل ہوا۔اسی آیت کی تصدیق کرتے ہوئے ایک اور جگہ نزول قرآن کے متعلق قرآن فرماتا ہے ’’بے شک ہم اس﴿قرآن مجید ﴾ کو اتارا ہے شبِ قدر میں ‘‘پھر ایک جگہ قر آن حکیم فرماتا ہے ’’وقرآنا فرقتاہ لتقراہ علی الناس علی مکثہ و نزلناہ تنزیلا‘ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن حکیم بتدریج نازل ہوا ہے جیسے احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کا دورانیہ تیئس سالوں پر پھیلا ہوا ہے۔سوال پیداہوتا ہے کہ کیا ان آییتوں میں کوئی تضاد ہے ۔اس سوال کے کئی جواب دئیے گئے ہیں ایک جواب تو یہ دیا گیا کہ قرآن حکیم دو مرتبہ نازل فرمایا گیاایک مرتبہ ماہ ِ رمضان میں لوح محفوظ سے دنیائے آسمان پر اتارا گیااور پھر اسے دوسری مرتبہ بتدریج زمین پر نازل کیا گیاکچھ مفسرین نے اس تشریح پر بھی اعتراض کیا اور کہاکہ جس آیت میں دفعتاً نزول کا ذکر آیا ہے اس کے آگے اللہ تعالی فرماتا ہے ’’ھدی للناس و بینات من الھدی و الفرقان‘‘کہ قرآن حکیم کو اس لئے اتارا گیا ہے کہ وہ لوگوں ہدایت دے اور حق و باظل میں تمیز پیدا کرے۔نزول قرآن کا یہ مقصد دنیائے آسمان پر اس کے نزول سے لگا نہیں کھاتاکیونکہ آسمان پر قرآن کے نزول کا مفہوم یہ ہوا کہ لوگ اس کی تعلیمات سے آشنا نہ ہوسکے اور وہ لوگوں کے پاس نہیں پہنچا تو لوگ اس سے ہدایت کیسے حاسل کر سکتے ہیں ۔اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن حکیم کی صفتِ ہدایت اس کے کچھ عرصہ تک آسمان پر رہنے سے الجھتی نہیں ہے۔کیونکہ قرآن حکیم یہ مقصدِ عظیم یہ حق و باطل میں تمیز یہ ہدایت کا سلسلہ ایک مدت سے موقوف تھاسو جب اس کے اترنے کیلئے زمین فراہم ہوئی تو اسے زمین پر اتارا گیا۔
پانچویں بحث
پانچویں بحث یہ ہے کہ امام بیضاوی نے’’نزل الفرقان ‘‘ کیوں کہا ہے ’’انزل الفرقان ‘‘ کیوں نہیں کہاتو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ خطبات کے آغاز میں میں جب حمد ِ ربانی کی جاتی ہے تو اس کا اظہار نعمت کے طور پرشکر کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔اگرچہ انزال بھی نعمت ہے مگر نعمتِ کاملہ نہیں جب کہ تنزیل نعمتِ کاملہ ہے
چھٹی بحث
چھٹی بحث یہ ہے کہ انہوں نے فرقان کا لفظ کیوں استعمال کیا فرقان تو مصدر ہے وہ یاتو فاعل ہو گا یا مفعول اس کا جواب یہ ہے کہ اگر فرقان فاعل ہوا تو حق و باطل میں فرق کرے گا قرآن حکیم نے جنگ بدر کے دن کو یوم الفرقان کہا ہے یعنی حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے والا دن ۔قرآن حکیم کو بھی فرقان اسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب ہے ۔اور اگر فرقان مفعول ہواتو وہ مفروق ہوگااور جب مفروق ہوگا تو ہر اشتباہ سے خارج ہوجائے گا
ساتویں بحث
ایک اعتراض یہ بھی ہوسکتاہے کہ امام بیضاوی نے’’علی عبدہ کا استعمال کیوں کیا انہوں نے علی العبد کیوں نہیں کہا۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ اضافہ تعظیم کیلئے کیا گیا ہے ۔بے شک وہ اللہ کا بندہ ہے مگر یہاں مراد وہ بندہ خاص ہے جواپنی طرف سے کچھ نہیں کہتاوہی فرماتا ہے جو اللہ تعالی کہتا ہے یہ دراصل اِ س بات کی طرف اشارہ ہے کہ ’’وما ینطق عن الھوی ان ھوالا وحی یو حی‘‘یعنی وہ﴿نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم﴾ اپنی خواہش سے نہیں بولتے ،یہ تو ایک وحی ہے جو ان پر نازل کی جارہی ہے
آٹھویں بحث
ایک بحث یہ بھی ہے کہ امام بیضاوی نے اس آیت سے کیوں اقتباس کیا ہے جس میں قرآن مقدم ہے اور عبدہ موخر ہے انہوں نے کسی ایسی آیت سے استفادہ کیوں نہیں کیاجس میں عبد مقدم ہو اور قرآن موخرہو۔جس طرح سورۃ کہف میں آتا ہے ’’الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب‘‘تو اس کا جواب یہ ہے کہ مقام قرآن حکیم کی تفسیر کا تھااس لئے انہوں موجود مقام کی ریاعت سے کام لیتے ہوئے قر آن کا ذکر پہلے فرمایا ہے ۔ سورۃ کہف جہاں عبد کومقدم کیا گیا ہے وہاں اللہ تعالی نبوت کے متعلق دلائل دے رہا ہے اور چونکہ نبی عبد ہوتا ہے اس لئے وہ مقام عبد کی اولیت کا ہے
ناویں بحث
امام بیضاوی نے علی عبدہ کیوں کہا علی رسولہ یا اعلی نبیہ ہی کیوں نہیں کہا۔یہ تو بھی رسول اللہ کے وصف تھے اس سوال کے دو جواب ہیں کہ تو سیدھا سادہ جواب ہے کہ عبودیت کا وصف اعلی ترین ہے دوسرے وصف اس سے کم ترہیں اس لئے انہوں نے اعلی وصف کو اختیار کیامگر امام بیضاوی نے فرمایا کہ عبودیت کے علاوہ جتنے اوصاف ہیں ان میں رسالت اعلی ترین وصف ہے ۔ عبودیت اس لئے عظیم تر ہے کہ اس میں مخلوق کی توجہ خالق کی طرف اور خالق کی توجہ مخلوق کی طرف ہوتی ہے۔دوسرا جواب جو مولاناعبدالحکیم سیالکوٹی جنہیں فاضل لاہوری کہا جاتا ہے نے دیا ہے کہ عبودیت شجرِاصل ہے باقی تمام وصف اس کاثمر ہیں۔یہ دلیل فاضل لاہوری نے شیخ شہاب الدین سہروردی سے نقل کی ہے کہ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کونساوصف پسند ہے عبودیت کا یا محبوبیت کا تو سرکارِ دوعالم نے فرمایا کہ مجھے عبودیت والا وصف پسند ہے۔اللہ نے اس پر کہاچونکہ عبودیت والا وصف پسند کیا ہم نے آپ کو تمام کمالات عطا کردئیے ہیں یوں عبودیت تمام کمالات کا اصل قرار پائی اس لئے امام بیضاوی نے اصل ذکر فرمایاثمرات کا نہیں

لیکون للعالمین نذیراً

آئیے’’ لیکون لعالمین نذیراً ‘‘پر غور کرتے ہیں لیکون میں لام نفع کاہے یعنی ثابت ہوا کہ تمام تعریفیں صرف اللہ تعالی کیلئے ہیں جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نفع کیا ہے ۔نفع یہ ہے کہ وہ عالمین کیلئے نذیر بنا دیا گیا ہے ۔اب لیکون للعالمین نذیراً کی تشریح اپنے دامن میں چار بحثیں رکھتی ہیں
پہلی بحث
پہلی بحث یہ ہے کہ لیکون کی ضمیر کا مرجع کون ہے، عبد ہے یا فرقان،نذیرآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصف بھی ہے اور نذیر عالمین کیلئے فرقان بھی ہوسکتا ہے ۔اس بات کا جواب یہ ہے کہ نذیر دونوں کیلئے ہوسکتا ہے حقیقتاً عبد کیلئے اور مجازاً فرقان کیلئے اور جہاں حقیقت اور مجاز دونوں ہوں وہاں مجاز ضعیف ہوا کرتا ہے مگر چونکہ یہ مقام ِ قرآن کی تفسیر ہے اس لئے ’’مقام ‘‘اور’’ حال ‘‘نے اس ضعف کوختم کر دیا ہے سویہاں پہنچ کرعبد اور قرآن دونوں کا لیکون کی ضمیر کا مرجع بننا درست قرار پا جائے گا۔جہاں اللہ کی بات ہے تو وہ لیکون کی ضمیر کا مرجع نہیں بن سکتاکیونکہ اللہ تعالی کے تمام نام توصیفی ہیں ہم کسی اسم ِ صفتی کا اپنی طرف سے اللہ پر اطلاق نہیں کر سکتے۔اب یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ نذیر کامعنی ڈراناہے تو ڈرانے کا اطلاق خود اللہ تعالی پر کیوں نہیں ہوسکتا جس طرح ’ویحذر کم اللہ ‘‘ میں ہوا یہاں تحذیر کی نسبت اللہ تعالی کی طرف ہے اور اس کا مفہوم بھی ڈرانا ہے ۔اس سوال کے دو جواب ہیں ۔پہلا جواب یہ ہے کہ دونوں کا مادہ ایک نہیں ہے ایک انداز ہے اور ایک تحذیر ہے۔ایک صفتِ ذاتی ہے اور ایک ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق اسم ہے ۔دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر مادہ بھی ایک ہوتا تو پھر بھی نذیر کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔اللہ پر اگر فعل کا اطلاق کیا جانا لگے تو اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ اس سے صیغہ صفت مشتق کیا جائے۔ اور اس کا اطلاق ذات بای تعالی پر کیا جائے ۔جس طرح علمِ آدم سے الاسما علم کی نسبت ہے مگراس سے معلم مشتق کرکے اس کا اطلاق اللہ پر نہیں کیا جا سکتا۔اسی طرح حاظر و ناظر کا اطلاق بھی اللہ پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ناظر نظر سے ہے اورنظر کا معنی دیکھناہے ۔رویت کا معنی دیکھ لینا ہیںیعنی رویت نظر پر مرتب ہوتی ہے۔رویت خاص ہے ، نظر عام ہے۔پھر کبھی نظر ہوتی ہے اورکبھی رویت اس پر مرتب نہیں ہوتی جس طرح عربی زبان کا محاورہ ہے ’’نظر ولم براہ‘‘اب اگر ناظر کا اطلاق اللہ پر کیا جائے تو پھر یہ کہنے پڑے گا کہ کبھی اللہ میں رویت نہیں ہوتی جو غلط ہے۔اس لئے ناظر کا اطلاق ممکن نہیں۔اسی طرح حاضر کا اطلاق بھی درست نہیں حاضر کے اطلاق میں اگر کوئی قباحت نہ بھی ہو تو پھربھی اللہ تعالی کے اسما توصیفی ہیں ۔حاضر موجود نہیں ہم اپنی طرف سے کس طرح اس کا اللہ پر اطلاق کر سکتے ہیں۔
کچھ احادیث کچھ لوگوں نے درج کی ہیں جن سے حاضر و ناضر کا اطلاق ثابت کیا ہے مگر ان میں فعل کے اطلاق کے ساتھ ضیغہ صفت کا اطلاق ثابت نہیں ہوتااور جہاں واقعی حاضر و ناضر کا اطلاق ہو رہا ہے تو ہم کہیں گے یہ متشابھات ہیں جن کا علم صرف اللہ اور اس کے رسول کو ہے

دوسری بحث
عالمین عالم کی جمع ہے اور آلہ کا صیغہ ہے اس کا مفہوم ہے’’مایعلم بہ اشئی ‘اور اصطلاح میں اللہ کے ماسوا جو موجود ہے اسے عالم کہتے ہیں ۔پھر جس وقت موجود کہہ دیا تو معدوم نکل گیاجب ماسواللہ کہا تو اللہ نکل گیایعنی اللہ کی ذات پر عالم کا اطلاق نہیں ہوتا۔عالم میں تیرہ کرے آتے ہیں ان میں چار عناصر ، سات آسماں ، عرش اور کرسی شامل ہیں ۔یہ تیرہ کرے اللہ کی دلیل ہیں مگر یہ دلیل معلول سے علت کی طرف جاتی ہے ۔جسے دلیل ِ انی کہا جاتا ہے ۔علت سے معلول کی طرف نہیں کیونکہ اللہ تعالی کی کوئی علت نہیں۔عالم اللہ کے وجود پر بھی دلیل ہے اور اللہ کی توحید پر بھی ۔وجود پر اس طرح کہ عالم دیکھ کراس کے بنانے والے کا علم ہوتا ہے اور توحید پر اس طرح کہ اگر بنانے والا ایک نہ ہوتاتو ایک تناسب کا شاہکار نہ ہوتا۔اس میں بگاڑ دکھائی دیتا۔ہم یہ جو کہتے ہین کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عالم کے ذرے ذرے کا علم ہے تواس سے اللہ کی توحید مکمل ہوتی ہے۔اگر کہا جائے کہ انہیں اس عالم کے فلاں حصے کا علم نہیں تو توحید محکم نہیں رہے گی ۔عالم کاجتنا زیادہ علم ہوگا توحید اتنی زیادہ کمال پردکھائی دے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کو فلاں چیز کا علم نہیں تو فلاں چیزجس کا آپ کو علم نہیں وہ خدا کی ذات بھی ہوسکتی ہے یوں آپ کے علم کی کمی توحید کو کامل نہیں رہنے دیتی۔توحید اسی وقت مکمل ہوگی جب عالم کے ذرے ذرے کا علم ہوگا کہ یہ سب عالم ہے خدا نہیں ۔ بے شک عالم کہتے ہیں جو کچھ ماسواللہ موجود ہے مگر یہاں عالم سے مراد مخلوقِ مختار ہے کیونکہ آگے نذیر کا لفظ آیا ہے ۔یہ فرشتوں کیلئے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ گناہوں سے پاک ہیں گناہ کرنے پر قدرت ہی نہیں رکھتے۔

تیسری بحث
تیسری بحث یہ ہے کہ نذیر کیامصدر ہے یا منذر کے مفہوم میں آیا ہے اس کا جواب صرف اتنا ہے کہ اگر نذیربہ انزار کی طرح مصدر ہے تو اس کا استعمال (حمل )مبالغتہ ًہے جیسے کہ زید عدل میں ہے اور اگر نذیر منذر کے معنی میں آیا ہے تو اس کا برتائو قواعد کے مطابق ہے
چوتھی بحث
ایک بحث یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نذیر کیوں کہا گیا ہے بشیر کیوں نہیں کہا گیا۔حالانکہ جیسا وصف نذیر ہے ویسا ہی وصف بشیر بھی ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ نذیر کا لفظ استعمال کرنے کی دو وجوہات ہیں ۔پہلی وجہ یہ ہے کہ نذیر عام کیلئے ہے اور بشیر خاص کیلئے کیونکہ نذیر آپ مومنوں اور کافروں دونوں کیلئے ہیں جب کہ بشیر صرف مومنوں کیلئے ہیں لہذا خاص کی بجائے عام کو اختیار کیا گیا ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ نذیر میں دافع ضرر ہے جب کہ بشیرحامل ِ منافع ہے ۔جہاں یہ دو صورتیں موجود ہوں تو اولیت دافعِ ضرر کو دی جاتی ہے یعنی انسان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ فائدہ ہو یا نہ ہو وہ نقصان سے بچ جائے ۔اس لئے نذیر کا لفظ یہاں استعمال کیا گیا۔

فتحدی با قصر سورۃ من سورۃ مصاقع الخطبائ من العرب العربا ئ فلم یحد بہ قدیراً

(پس للکارا عرب کے صاحبانِ فصاحت و بلاعت کوبس سورتوں میں سے ایک چھوٹی سی سورۃ کے مقابلے کیلئے مگرکوئی ایسا نہیں تھا جو اس پر قدرت رکھتا)
اس جملے کی تفہیم میں بھی نو بحثیں شامل ہیں
پہلی بحث
پہلی بحث یہ ہے کہ ’’تحدی‘‘ کی ضمیر کا مرجع کون ہے ۔ اس میں تین احتمال ہیں۔یا تواسم جلالت ’’اللہ ‘‘ہوسکتا ہے یا ’’عبد‘‘ ہو سکتا ہے یا پھر’’ فرقان‘‘ ہوسکتا ہے ۔اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالی نے مقابلہ کیلئے طلب کیا تھا تو یہ بات بھی درست ہے کیونکہ اللہ کا اپنافرمان ہے ’’ وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ وادعو شھداء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین۔‘‘
( سورۃ البقرۃ ۲:۲۳)
     ’’ اگر تم اس چیز میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے کسی قسم کے شک میں ہو  تو پھر تم اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا  لاو ، اور اللہ کو چھوڑکر اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔‘‘
۔اگر یہ کہا جائے کہ ’’تحدی ‘‘ کی ضمیر کا مرجع عبد ہے تو بھی درست ہے کیونکہ ایک تو قرآن نے جو کہا وہ عبد کی زبان سے کہا گیادوسرا خود عبد نے بھی کہاقرآن حکیم میں آتا ہے ’’ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُواْ مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ۔
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے ، جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہوں، اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو۔(ھود 13)
باقی تحدی کی ضمیر کا مرجع فرقان نہیں بن سکتا۔کیونکہ آگےجو’’ فلم یحد ‘‘آرہا ہے اس کی ضمیر کا مرجع بھی وہی ہوناہے جو ’’تحدی‘‘ کی ضمیر کا مرجع ہےاس لئے فلم یحد کا مرجع فرقان کا بنانا مناسب نہیں لگتاکیونکہ کچھ پانا یا نہ پانا ذی طلب کے ذیل میں آتا ہے اور قرآن حکیم کو ذی طلب نہیں کہا جا سکتا۔اس لئے فلم یحد کی ضمیر کا مرجع قرآن نہیں ہوگا
دوسری بحث
’’فتحدی‘‘ کے آغاز میں جو ’’فا‘‘ ہے وہ عاطفہ ہےاور نزل پر اس کا عطف ہے۔نزل صلہ ہے تو تحدی بھی صلہ ہوا۔اور صلہ موصول کا ہوتا ہےاگر ’’تحدی کے ضمیر کامرجع عبد ہے تو پھرموصول کس کی طرف عائد ہوا۔اس سوال کے دو جواب ہیں پہلا جواب فاضل لاہوری نے دیا ہے کہ یہ اعتراض اس وقت ہوتا جب مرجع صرف عبد ہوتاہم کہتے ہیں عبد مقید مرجع ہے یعنی سارا مرجع عبدہُ ہے عبدہُ کی ہُ کی ضمیر تو اللہ تعالی کی طرف مرجع ہے تو پھر عائد اسی پر ہوا
دوسرا جواب رضی کا ہے جسے محشی نے نقل کیا ہے۔کہ جب معطوف اور معطوف علیہ صلہ بن رہے ہوں توموصول کی طرف معطوف علیہ سے عائد ہی کافی ہوتا ہے اگر معطوف میں عائد نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا

تیسری بحث
تیسری بحث یہ ہے کہ یہ ’’فا‘‘ کونسا ہے ۔ تسلیم کہ ’’فا‘‘عطف کی ہے مگر حروفِ عطف کی بھی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں پھر یہ’’فا‘‘ کیا ہے کیا یہ سببیہ کےلئےہے یعنی ماقبل مابعدکا سبب ہے ۔پھراس کا مفہوم یہ ہوگاکہ ’’تحدی‘‘ کا سبب تنزیلِ قرآن ہے ۔سبب کے اعتبار سے یہی درست بات ہے ۔اور یہاں پر سارا قرآن بھی ’’تحدی‘‘ کا سبب ہے۔اور جزوِ قرآن بھی۔یا ’’فا‘‘ برائےترتیب ہے یعنی مابعد و ماقبل پر واقع اور مرتب ہے۔یہ بھی درست ہے تحدی نزول قرآن پرمرتب اور واقع سکتی ہے اور جزوِ قرآن پر بھی۔اور کل پر بھی یا یہ ’’فا‘‘ تعقیب کےلئے ہویعنی’’تحدی‘‘نزولِ قرآن کے بعد ہوئی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے