دیوار پہ دستک

حکومت پنجاب میں نیب کا کردار

عثمان بزدار کے خلاف نیب کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ نیب کے جس سرکاری گواہ نے کہا ہےکہ وزیر اعلی نےاسےچھ سے زائد مرتبہ طلب کیااورلائسنس جاری کرنے کےزبانی احکامات دئیے ہیں ، اُس کے ساتھ وزیر اعلی کی ون ٹو ون ایک میٹنگ بھی ثابت نہیں ہوسکی ۔ہر موقع پر کچھ اور آفسران بھی موجود تھے جو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وزیر اعلی نے اُن پر اِس سلسلے میں کوئی دبائو ڈالا۔نیب کے آفسران نے فائلیں چھان ڈالی ہیں مگر کہیں بھی وزیر اعلی کےدستخطوں سے شراب کے لائسنس کے اجراءکے کوئی احکامات موجودنہیں ۔ان کے پرنسپل سیکرٹری اور چیف سیکرٹری پنجاب کی سمریاں موجود ہیں مگر ان میں واضح پر لکھا گیا ہے کہ قانون کے مطابق لائسنس جاری کیا جائے۔
اگر لائسنس وزیر اعلی کے دبائو پر جاری کیا گیا تھا تو پھر منسوخ کیوں کیا گیا۔سچ یہ ہے کہ اس کی منسوخی وزیر اعلی کے دبائو پر ہوئی ۔جب پارٹی ہائی کورٹ میں گئی تو محکمے کے آفسران نے لائسنس منسوخ کرنے کی کوئی وجہ بتانے کی بجائے خاموشی اختیار کرلی۔جس پر ہائی کورٹ کو لائسنس کو بحال کرنا پڑا۔اگر وہ لائسنس قانونی طور پر درست جاری نہیں کیا تھا تو پھر بھی یہ معاملہ نیب نہیں دیکھ سکتی تھی ، اِس کے خلاف محکمے کو سپریم کورٹ اپیل کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں کی گئی۔
دراصل تخت لاہور سے بہت بڑے بڑے لوگوں کے کاروبار جڑے ہیں، یہ تخت صرف سیاسی شاہی کا استعارہ نہیں ،ہر اُس شاہی کی علامت ہے ۔جسے کسی شریف، ایماندار اور دیانتدار حکمران سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ سیاست کے اس ایچیسن کالج میں (جس کو ہم تخت لاہور کہتے ہیں) اول تو کوئی عام آدمی یہاں داخل ہی ہو نہیں سکتا۔ اگر کوئی اہل شخص میرٹ پر ہواورووٹ کی طاقت سے داخلہ لینے میں کامیاب ہو جائے تو survival کی جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا وہ ان کلاس فیلوز سے احساس کمتری کا شکار ہوجائے اور اپنا بستر باندھ کر واپس روانہ ہوجائے یا ان سے مرعوب ہو کر ان کے رنگ میں رنگ جائے۔ عثمان بزدار کاقصور یہ ہے کہ انہوں نے ان میں سے کسی بھی راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ڈٹ گئے ۔مقابلہ کیا ۔انہوں خود کو بدلنے کی بجائے خود کو اُس طبقے کی پہچان بنا لیاجو کبھی تخت لاہور کی سیاست میں داخلے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس عوام کی آواز بن کر تخت لاہور والوں کو للکارا جو ہمیشہ اس شاہی طبقے کے ہاتھوں پستے رہے۔ تخت ِ لاہور گرفت کا اندازہ صرف اس بات سے لائیے کہ عثمان بزدار کو ابھی تک ’’پنجاب کلب ‘‘ نے اپنا ممبر نہیں بنایا۔لاہور شہرکے پچانوے فیصد لوگ یہ نہیں جانتے ہی نہیں ہونگے کہ پنجاب کلب ہے کیا چیز۔سویہ طبقہ عثمان بزدار کو سیاست کی اس کلاس سے خارج کروانے کیلئے ہمہ وقت مصروف ہے۔ جس دن سے وزیر اعلی نے حلف اٹھایا اور نا انصافیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔سیاست کے تخت لاہور پر قابض لوگوں کی نیندیں اڑ گئیں۔ انہیں عثمان بزدار کی کی سادگی بھاتی ہے، نہ انکی متانت ۔کیونکہ پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والا یہ بزدار قبیلے کاسردار ان سے زیادہ وضع دار ہے اور تو اور 2 سالوں میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں گھر کرگیاہےجن کو یہ تخت لاہور والے دہائیوں سے بے وقوف بنا رہے تھے،سو انہیں عثمان بزدار کی ہر اچھائی ،برائی نظر آتی ہے۔ یہ ہر 6 مہینے بعد 6 مہینے کی ڈیڈلائن دینے والے دراصل اپنی ڈیڈلائن سے پریشان ہیں ۔یہ لوگ ابھی تک عثمان بزدار پر عمران خان کے اعتماد کو متزلزل نہیں کر سکے۔
میرے نزدیک عثمان بزدار پر ہوٹل کیلئے شراب لائسنس کے اجراء کا الزام، عقل والوں کیلئے نشانی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم قصور وار کا تعین کیا جائے ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جاری کیا جانے والا لائسنس کوئی نئی طرز کا لائسنس نہیں تھا، بیچ چوراہے پر شراب کی دکان کھولنے کا لائسنس نہیں تھا۔ پچھلے ادوار میں پنجاب کے 9 ہوٹلوں کو لائسنس جاری کئے جاچکے ہیں۔ پورے پاکستان کے تمام بڑے ہوٹلوں کے پاس یہ لائسنس موجود ہیں۔بلکہ پاکستان میں شراب بنانے کی فیکڑیوں کے لائسنس بھی دئیے جا چکےہیں ۔یہ لائسنس ضروری ہیں ۔کیونکہ غیر مسلم افراد یا باہر سے پاکستان کے دورے کیلئے آنے والے غیر مسلم افراد کو حکومت کی اجازت کے بغیرشراب فروخت کرنا قانونی طور پر جرم ہے۔ لائسنس دراصل قانون کی پاسداری کا نام ہے۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے پر ملک میں دوسرے ممالک سے سرمایہ کاری کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، لوگوں نے نئے کاروبار شروع کئے، ٹورزم میں پہلی مرتبہ پیش رفت ہوئی، یہ ہوٹل بھی بیرون ممالک سے آئے سرمایہ کاروں کا ایک پروجیکٹ ہے، جو ملک میں نوکریوں اور ایف ڈی آئی کا ذریعہ بنا۔ اس طرح پراجیکٹ ہی ملک کومعاشی استحکام فراہم کر سکتے ہیں ۔ رہی بات کہ کس کا قصور تھا تو اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ یہ لائسنس وزیر اعلی کے دستخط سے جاری نہیں ہوتا۔ 20 ویں گریڈ کا بیوروکریٹ ہی واحد اتھارٹی ہے جو لائسنس کا اجرا کرسکے۔ اور 2018 میں جو نیب نے بیوروکریسی کے ساتھ سلوک روا رکھا، اس کے بعد کوئی بیوروکریٹ آنکھیں بند کر کے کسی کے کہنے پر تو کوئی کام کرنے والا نہیں۔ یہاں جائز کام کیلئے بیوروکریسی انتہائی سوچ سمجھ کر فیصلے لیتی ہے جو اچھی علامت ہے۔ بے لگام فیصلوں سے ماضی کی حکومتیں بہت نقصان اٹھا چکی ہیں ۔ تو کیا کوئی ڈی جی کسی حکمران کے کہنے میں آکر اپنا کیریئر تباہ کرنے کی غلطی کرسکتا ہے؟ البتہ جہاں آپ بیوروکریسی کو ڈرا دھمکا چکے ہیں وہاں بغض ِبزدار میں اس کیس کو بنیاد بنا کر آپ کاروباری حضرات کو، سرمایہ کاروں کو جو پیغام دے رہے ہیں اس کا ازالہ شاید ممکن نہ ہو۔
پنجاب میں نیب کی کارکردگی پر بھی بہت سوالات اٹھ رہے ہیں ۔پنجاب حکومت کے وزراءعلیم خان اور سبطین کو گرفتار کیا گیا مگر کچھ ثابت نہیں ہوا ۔انہوں نے کئی ماہ بے وجہ جیل میں گزارے ۔اب وزیر اعلی کی پیشیاں شروع کر دی گئی ہیں اور ثبوت کوئی نہیں ہے ۔ نیب پنجاب پرمیر شکیل الرحمن کے حوالے بھی الزام آرہا ہےکہ اُس کی وجہ سے پاکستان کی سب سے بڑی صحافتی شخصیت مسلسل جرم ِ بے گناہی کی سزا کاٹ رہی ہے ۔ڈی جی نیب پنجاب انتہائی ایماندار ہیں ۔میرے خیال میں موجودہ صورتحال میں انہیں مستعفی ہو جانا چاہئے یا چیئرمین نیب کے غلط احکامات ماننے سے انکار کر دینا چاہئے ۔نیب کو موجودہ قوانین کے مطابق کسی بھی وزیر ، ایم این اے یا ایم پی اے کے خلاف چیئرمین نیب کے احکامات کےبغیر کوئی مقدمہ نہیں چلا جا سکتا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے