
ٹڈی دل ایک عذاب کی طرح پاکستان پر نازل ہوانے والا ہے
سنہ 2018 میں امریکی سائنسدانوں نے ایک تحقیق سائنس جرنل میں شائع کی تھی جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ گرم موسم کیڑے مکوڑوں کو زیادہ متحرک کرتا ہے اور وہ زیادہ تیزی سے افزائش نسل کرتے ہیں۔
یہ انھیں زیادہ بھوکا بناتا ہے اور ایک بالغ ٹڈا ایک دن میں اپنے وزن کے برابر خوراک کھا سکتا ہے۔
محققین نے اندازہ لگایا ہے کہ فی ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت بڑھنے سے فصلی کیڑوں کی وجہ سے گندم، چاول اور مکئی کی فصل کو ہونے والے عالمی نقصان میں 10 سے 25 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس نقصان کا نتیجہ معتدل آب و ہوا کے ان علاقوں میں ہوسکتا ہے جہاں زیادہ تر اناج پیدا ہوتا ہے۔
سنہ 2018 میں کی جانی والی تحقیق کی مصنف کرٹس ڈوشے لکھتے ہیں ’خطِ استوا کے قریب واقع علاقوں کے علاوہ گرم درجہ حرارت کیڑوں کی تولیدی شرح میں اضافہ کرے گا۔ آپ کے پاس زیادہ کیڑے ہوں گے اور وہ زیادہ خوراک کھائیں گے۔.پاکستان میں ان دنوں انہی ٹڈیوں کا حملہ ہوا ہوا ہے ۔ اور خدشہ ہے کہ یہ روز بروز دنیا میں بڑھتی جائیں گی ۔اور اسی سے خوراک میں کمی آئے گی
اس کی تاریخ بڑی خوفناک ہے ۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق سب سے زیادہ تباہ کن طاعون کی قسم صحرائی ٹڈیاں ہیں جو دنیا کی 10 فیصد آبادی کے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچانے کا قوی امکان رکھتی ہیں۔
ان ٹڈیوں کا ایک چھوٹا جھنڈ ایک دن میں 35 ہزار افراد کی خوراک کے برابر خوراک کھاتا ہے۔
ان کی پسندیدہ خوراک میں اناج کے پودے جیسے کے گندم، چاول اور مکئی شامل ہے۔
جیسا کہ قرآن اور بائبل میں بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ مخلوق انسانیت کی سب سے پرانی دشمن ہے۔
قدیم یونانی مورخ پلینی دی ایلڈر نے کہا تھا کہ ٹڈیوں کے طاعون کی وجہ سے قحط سے 800،000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ علاقہ اب لیبیا، الجیریا اور تیونس ہیں۔
سنہ 1958 میں ایتھوپیا میں ٹڈیوں کے ایک جتھے نے 1000 مربع کلومیٹر سے زیادہ کے رقبے پر 167،000 ٹن اناج تباہ کیا تھا جو ایک سال کے لیے 10 لاکھ افراد کی خوراک کے لیے کافی تھا۔۔ پرانے زمانے میں اسے اللہ کا عذاب سمجھا جاتا تھا ۔پاکستان اس عذاب کی زر میں آیا ہوا ہے ۔ (بی بی سی سے ماخوذ

