Iran Saudi Conflcit
دیوار پہ دستک

ایران میں سعودیہ پر حملے کی منصوبہ بندی کیسے ہوئی تھی؟ وائس آف جرمنی کا الزام

دنیا کی سب سے بڑی آئل فیلڈ پر اٹھارہ ڈرونز اور تین میزائلوں کے حملے سے چار ماہ پہلے اعلیٰ ایرانی سکیورٹی عہدیدار تہران کے ایک قلعہ بند کمپاؤنڈ میں جمع ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اب تلواریں نکالنے کا وقت آ چکا‘ ہے۔اس میٹنگ میں پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ ساتھ فوج کے ان شعبوں کے عہدیدار بھی شامل تھے، جو میزائل سازی اور خفیہ آپریشنز کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ رواں سال مئی میں ہونے والے اس خفیہ اجلاس کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ امریکا کو کس طرح نشانہ بنایا جائے؟ کیوں کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی تھی۔

میجر جنرل حسین سلامی اپنے اعلیٰ کمانڈروں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس میٹنگ سے آگاہ چار افراد نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ایک کمانڈر کا کہنا تھا، ”اب تلواریں نکالنے کا وقت آ چکا ہے تاکہ امریکا کو سبق سکھایا جا سکے۔‘‘ اس میٹنگ میں امریکی فوجی اڈے سمیت ہائی ویلیو ٹارگٹس کو نشانہ بنانے کی بات کی گئی۔ اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ اس طرح کی کوئی بھی کارروائی امریکا کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بنے گی۔

اس کے بعد ایک کمانڈر نے یہ تجویز دی کہ امریکا کی بجائے اس کے اتحادی سعودی عرب کی آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا جائے۔ میٹنگ میں موجود کم از کم چار عہدیداروں نے اس کی حمایت کی۔ اس میٹنگ کے حالات سے واقف تین اہلکاروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان تینوں اہلکاروں کا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے اس آپریشن کی بذات خود منظوری دی تھی لیکن انہوں نے ساتھ ہی شرائط بھی رکھی تھیں۔ وہ یہ تھیں کہ اس آپریشن میں نہ تو کسی عام شہری اور نہ ہی کسی امریکی کو ہلاک کیا جائے گا۔
نیوز ایجنسی رائٹرز نے اپنی اس خصوصی رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں پاسداران انقلاب سے بھی رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی بھی جواب دینے سے انکار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے اسے بالکل مسترد کر دیا ہے کہ مئی میں ایسی کوئی میٹنگز ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی آئل فیلڈ پر ہونے والے حملے میں ایران کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس وقت ان حملوں کی ذمہ داری یمن کے حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔یکن امریکا اور سعودی عرب نے اسے مسترد کر دیا تھا کیوں کہ ان حملوں کا انداز انتہائی ماہرانہ تھا اور یہ صلاحیت حوثی باغیوں کے پاس موجود نہیں ہے۔

 

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے