
تو نسہ انڈسٹریل اسٹیٹ
ایک سمجھداردوست نے کہا :لوگوں کا ٹارگٹ وزیر اعظم ہوا کرتا تھا ،وزیر اعلیٰ نہیں۔وہ نواز شریف کے خلاف کالکھتے تھے شہباز شریف کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ اب معاملہ الٹ گیاہے ۔توپوں کا رخ عمران خان کی بجائے عثمان بزدار کی طرف ہے۔یہ کیا معاملہ ہے ۔غور کیا تو بات درست لگی۔سوچا کہ آخرلاہور کا میڈیا عثمان بزدارکے خلاف یک زبان کیوں ہے ۔یہ تو خیر مجھے ذاتی پر معلوم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا وہ حصہ جو لاہور کے معاملات دیکھتا ہے و ہ عثمان بزدار کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتا مگر وہ لوگ جواسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں وہ بھی عثمان بزدار کے مخالف ہیں ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں ،وہ نا اہل ہیں۔واہ واہ ۔کیا باقی اہل ہیں ۔چلیے یہ دیکھتے ہیں عثمان بزدار کے بعد کس کے کاندھےکے پاس ہما کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دے سکتی ہے ۔پہلا نام جس نوجوان کا ہے ۔وہ دوبھائی ہیں ،ایک مرکز اور ایک صوبے میں ہے۔ ان کی کئی شوگر ملیں ہیں جو کچھ زیادہ پرانی نہیں۔ سنا ہے نیب اُس سرمائے کی منی ٹریل پوچھتی پھرتی ہے جس سے وہ ملیں لگائی گئیں ۔دو امیدوار اور بھی تھے ، بزعم ِ خویش تو ابھی تک ہیں ۔دونوں نیب کے کیسز میں نوے دن سے زیادہ جیل میں گزار آئے ہیں ۔چوہدری پرویزالہی کا نام ِ نامی بھی گونج رہاہے۔ق لیگ ترجمان کامل علی آغا انہیں وقت کی ضرورت قرار دے کر پیش کر رہے ہیں۔ اُدھرعمران خان ہیں کہ اہل ِگجرات کی آہ و فغان سےپریشان ہیں وہ پورا پنجاب چوہدریوں کے حوالے کیسے کرسکتے ہیں ۔
سالہاسال کے بعد شہر میں کوئی مضافات سے آیا ہے یعنی رولز پنجاب سے کوئی وزیر اعلی بنایا گیاہے ۔سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہواہے ،پہلے پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا تیس فیصد حصہ صرف لاہور پر خرچ ہوتا تھا اب پورے پنجاب پرہورہا ہے ۔مضافاتی کوشش میں ہے کہ پنجاب کا ہر شہر اور ہر گائوں ترقی کرے ۔ شہباز شریف کے زمانے میں عام آدمی کی وزیر اعلی تک رسائی مشکل بلکہ ناممکن تھا ۔ ایم پی ایز مہینوں خواہش کرتے تھے مگر پوری نہیں ہوپاتی تھی ۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ پیرکرم شاہ ؒکے صاحبزادےپیر امین الحسنات شاہ ایک دنیا جن کے جوتے جوڑتی ہے،اس وقت مذہبی امور کےوزیر مملکت تھے ۔ وہ شہباز شریف سے ملاقات کےلئے اسلام آباد سے لاہور پہنچے ۔ طےشدہ وقت سے دس منٹ لیٹ ہو گئے۔انہیں بیٹھا دیا گیا جب دو گھنٹے گزر گئے تواُن کے ساتھ موجود علامہ مسعود عالم الازہری نےمجھے فون کیاکہ شعیب بن عزیزتمہارے دوست ہیں اُن کی وساطت سے یہ تو پتہ کردو کہ شہباز شریف پیر صاحب سے کتنے بجے ملیں گے ۔ مپتہ کرایا تو معلوم ہوا کہ شہباز پرواز کرچکا ہے۔یعنی وزیر اعلی اب کل واپس دفترآئیں گے۔یہ تو شہباز شریف کاوفاقی وزیروں کے ساتھ رویہ تھا ۔ دوسروں کے ساتھ کیسا ہوگا ۔ اس کے برعکس عثمان بزدار تک ہر ایم پی اے کی رسائی ہے ۔ وہ سب سے ملتے ہیں ،توجہ سے مسائل سنتے ہیں اور حل تلاش کرتے ہیں ۔
کرپشن کے معاملہ میں بھی عثمان بزدار کا دامن صاف ہے ۔الزام تو کئی لگائے گئے مگرکوئی ایک روپے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کر سکا ۔انہوں نے کسی رشتہ دار کو دوسو گز کا پلاٹ بھی نہیں دیا ۔دوسری طرف شہباز شریف کے دور میں رمضان شوکر مل کے اردگرد اٹھائیس سو ایکٹر زمین خرید ی گئی ۔جاتی عمرہ بھی بتیس سو ایکٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔بہادر شاہ ظفر کا ایک مصرعہ یاد آگیا ہے ،انتہائی معذرت کے ساتھ۔’’دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘‘
یہ جھوٹ بھی مسلسل بولا جارہا ہےکہ وزیراعلیٰ پنجاب کو نہ ہٹانے پر مرکزی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ ڑڑڑ۔۔۔پڑ گئی ہے۔یہاں تک پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ حکومت پر عثمان بزدار کے معاملے میں دبائو بڑھائے کےلئے اسٹیبلشمنٹ کسی حد تک مولانا فضل الرحمن کا ساتھ دے رہی ہے ۔ میں خود اِس پروپیگنڈا کا شکار ہوا مگر زیادہ دیر نہیں ۔گہرائی میں دیکھا تو معاملہ لاہور تک محدودتھا۔کچھ لوگوں کے ذاتی معاملات تھے ۔حقیقت کچھ اور تھی ۔بھلا اسٹیبلشمنٹ کو عثمان بزدار کے ساتھ کیا مسئلہ ہو سکتا ہے ۔انہوں نے کبھی کسی کی اچھی تجویز کو در نہیں کیا ۔پھر وہ بہت سارے معاملات میں وہ ڈائریکٹ عمران خان سے ہدایات لیتے ہیں ۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پنجاب کی بیورو کریسی کا ایک بڑا حصہ عثمان بزدار کے خلاف ہے مگر ان کی مخالفت ذاتی طور عثمان بزدار سے نہیں ،عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہے ۔وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کامیاب ہو گیا تو انہیں زندگی صرف تنخواہ پر گزارناپڑے گی ۔وہ اِس تصور سےبھی کانپ اٹھتے ہیں (وزیر اعلی نےتنخواہیں ڈبل کردی ہیں مگرپھر بھی )۔اسی بات سے اندازہ لگائیے کہ عثمان بزدار تونسہ میں انڈسٹریل زون بنانا چاہتے ہیں ۔ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں مگر بیوروکریسی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔تونسہ جیسے پسماندہ علاقے میں انڈسٹریل زون بن گیا تو کہیں اور تبدیلی آئے نہ آئے وہاں ضرور آ جائے گی ۔ معاشی ترقی کا دور شروع ہو جائے گا ۔ویرانے روشنیوں سے بھر جائیں گے مگر بیورو کریسی ہے کہ سوبہانے تراش لیتی ہے ۔کبھی کہتی ہے کہ اس کے قرب و جوار میں کوئی کاروباری شہرنہیں ۔کبھی کہتی ہے وہاں ہنر مند لیبر نہیں ملے گی وغیر وغیرہ ۔بھئی صوابی میں گدون انڈسٹریل اسٹیٹ بن سکتی ہے ۔ہری پور میں حطار انڈسٹریل اسٹیٹ بن سکتی ہے تو نسہ انڈسٹریل اسٹیٹ کیوں نہیں بن سکتی ۔
میرے خیال میں حکومت پنجاب میں جو خرابیاں ہیں ان کی ذمہ دار ی وفاق پر عائد ہوتی ہے ۔وہاں سے کئی ایسے حکم نامے جاری ہوجاتے ہیں جو تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں ۔وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بیٹھے ہوئوں کی اکثریت زمینی حقائق لاعلم ہے۔جیسے وہاں سے ایک شخص کو وزیر اعلی کا ترجمان بنا کر بھیج دیا گیااُس کے ماضی کے متعلق کوئی کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔پتہ نہیں ہماری ایجنسیوں نے اس سے کیوں صرفِ نظر کیا ۔ بہر حال اگر عمران خان عثمان بزدار کو فری ہینڈ دیں تو وہ پنجاب کو نئے پنجاب میں بدل سکتے ہیں ۔چڑیا گھر کے گرد و نواح میں کھلتے ہوئے پھولوں سے خوشبو بھی آ سکتی ہے ۔ایک دن جیو کے ساتھ بھی گزارا جاسکتا ہے ۔

