
پیر معروف حسین شاہ کے دیوان ِ نوشاہیہ کا دیباچہ
پیر معروف حسین شاہ پنجابی زبان کے بےپناہ شاعر ہیں ۔دوہڑا اُن کی پسندیدہ صنف ہے انہوں اردو اور فارسی زبان میں بھی دوہڑے لکھے ہیں ۔تصوف اُن کا خاص موضوع ہے ۔انہوں نے تصوف کے اسرار و رموز کو ایسی چابک دستی سے حروف کا پیرہن عطا کیا ہے کہ مسائل ِ تصوف کو سمجھنے والے اش اش کر اٹھتے ہیں ۔بے شک وہ ولی ِ کامل ہیں ۔انہوں نے عین الفقر کو عین ِ الکلام کا روپ سروپ بخشتا ہے ۔کشف کو لفظ دیئے ہیں ۔مراقبے کو تفہیم سے ہمکنار کیاہے ۔جب وہ حمد کے پھول بکھیرتے ہیں تو حرف چہچہانے لگتے ہیں ۔جب وہ نعت کہکشائیں بُنتے ہیں تو فرشتے درود پڑھنے لگتے ہیں ۔جب وہ منقبت کے گہر ِ نایاب تراشتے ہیں تو بار گاہ ِ غوث اعظم سے پھولوں کے تحفے آنے لگتے ہیں ۔وہ شہدائے کربلاکی یاد میں آنسوئوں کے بند کھولتے ہیں تو زمین پر گرتے ہوئے موتی جبرائیل اٹھا رہا ہوتا ہے ۔
انہیں شاعری اپنےمرشد اور برادرِ بزرگ ابو الکمال برق نوشاہی سے ورثہ میں ملی ہے ۔مجھے یاد آرہا ہے برمنگھم کے ریپرٹر ی تھیٹر کے ہال میں شام کی نمازکھڑی ہو چکی تھی ،جہاں روز و شب رقص و سرود کی محفلیں سجتی ہیں ۔وہاں اللہ کی عبادت ہو رہی تھی۔ برق نوشاہی ادبی کانفرنس کی پہلی نشست اختتام کو پہنچ چکی تھی ،حمد و نعت کی روشنی آوازوں کے برش سے دیواروں پرتصویریں بنا چکی تھی ۔ابو الکمال برق نوشاہی کے الوہی نغموں سے فضائیں معمور تھیں۔نماز ختم ہوئی ابھی دوسری نشست کے آغاز میں چند ثانیے باقی تھے میرے اردگرد بہت سے روشنی اور خوشبو خیال تھے ۔جو کہہ رہے تھے ۔
’’مرے گیت تُو کہاں ہے۔۔روح کی خاموشیوں میں انتظاروں بھرے درد کا شور ہے۔۔بول ۔۔ اے میرے گیت ۔۔ بول ۔۔۔تیری ہی آواز سے تورگِ جاں کے تار بولتے ہیں، آاور میرے رگ و پے میں سست ہوتے ہوئے لہو کو تیز کر۔آکہ نواحِ جاں میں چیختے ہوئی کرخت اور بے مفہوم آوازوں کا انبوہ تُجھے نہیں روک سکتا۔۔۔آ کہ ایک کائناتی تنہائی میرے پہلو میں ہے۔۔آ کہ صدیوں کی پیاس نے میرے ہونٹوں کی حسیّات کواپنے درد سے سرفراز رکھا ہوا ہے۔۔آ کہ کڑوے کنوؤں میں شہد کی بوتلیں اُنڈیل اُنڈیل کر میں تھک گیا ہوں۔۔لاحاصلی کا حاصل بھی کیا حاصل ہے۔اے میرے حقیقت سے وصال کی تڑپ میں انتظاروں کے گنبدوں میں گونجتے ہوئے بے آواز گیت۔۔آاوراحساسات کی پوٹلی کی گرہ کھول۔۔لاشعور کادروازہ اور کتنی دیر بند رہے گا۔۔۔لاشعور جو ازل سے بھی زیادہ قدیم ہے۔۔اے مرے گیت تُو کہاں ہے ۔ تُجھے میں نے کتنا پکارا ہے مگر تُو نہیں آئے۔آج پیرمعروف حسین نوشاہی کا دیوان نوشاہیہ پڑھ کر میں پھر اُسی کیفیت میں ہوں ۔مجھے وہ بھی ابولکمال ببرق نوشاہی کی طرح اسی الوہی گیت کی تلاش میں سرگرداں و حیراں دکھائی دئیے ۔پاکیزہ روح کے سناٹوں میں اسی گیت کے منتظر۔وہ گیت جو تم بھی ہو وہ گیت جو میں بھی ہوں۔اُسی الوہی گیت کے انتظارمیں ۔ ۔ ۔ جس کے بول آدمی اور کائناتِ خارجی کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔وہ گیت جسے زمانہ کہتے ہیں ۔ زمانہ جو خدا ہے۔ایک بے کراں تنہائی کی
وحدت میں گم زمانہ ۔۔جس کی ساعت ساعت میں کثرت کے ابد زار بکھرے ہوئے ہیں،بہشتِ بریں کے کرم بار دریا جس کے قدموں تلے بہتے ہیں۔ وہ ازل آباد خاموشی کا گیت۔وہ خاموشی جسےہم سب سُن بھی رہے ہیں۔مفہوم سے بھری ہوئی پُر شورخاموشی۔سناٹے کی آخری انتہا کی آواز۔۔جہاں برق نوشاہی سجدہ ریز ہو کر پکار رہا ہے۔
برق اُس دے دوارے تے ٹیک متھا۔۔۔ او بولے نہ بولے توں بولیا کر
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سننے سے زیادہ خوبصورت عمل اور کوئی نہیں، اسی لئے کانوں کو بے پردہ بناگیا ہے ورنہ آنکھ کو پلکوں کی قید میں رکھا گیا ہے اور زبان کو دانتوں اور ہونٹوں کے دروازوں کے پیچھے چھپادیا گیا ہے۔ لیکن کثرتِ اصوات کے اس عہد میں اعتکافِ ذات کا عمل بھی بڑا ضروری ہے کیونکہ ہر شور بھری آواز کے پس منظر میں طلبِ مال وزر اور خواہشِ نام و نمود کی پستیاں گونجتی ہیں۔بقول برق نوشاہی
حلقے ذکر اذکاراں والے سب روزی دیاں کھیڈاں
او سمجھن ایہہ راکھا ساڈا ایہہ سمجھن ایہہ بھیڈاں
سید ابو الکما ل بر ق نو شا ہی ایک صوفی شاعر تھے ، عظیم المر تبت رو حا نی پیشوا تھے ۔ ایک صا حبِ معر فت دینی رہنما تھے ۔ علمِ طب میں انہیں کما لِ خا ص حا صل تھا۔ خطا بت کے میدا ن میں ان کا کوئی ثا نی نہیں تھا ۔ ایسے شعلہ بیا ں مقر ر تھے کہ تقر یر کر تے ہو ئے پا نی میں آگ لگا دیتے تھے۔ شا عرِجا دو بیا ں تھے۔ اُن کی پنجا بی اور فا ر سی زبا ن کی شا عر ی ادبِ عا لیہ کا ایک حصہ ہے ۔مقا م معرفت کے اسرا ر و رمو ز سے کچھ ایسے آشنا تھے کہ ان کی گفتگو تر جما نِ حقیقت کبر یٰ محسو س ہو تی تھی۔ ادب کے بڑ ے با ر یک بین نقا د تھے ۔ایک مستند مورخ تھے ۔ ایک نکتہ سنج مفّسرتھے ۔ اشہبِ تحقیق کے شہسوا ر تھے ۔ ایک مسلمہ مفتی کی حیثیت رکھتے تھے ۔علم الکلا م اور فلسفے پر ان کی اتنی گہری نظر تھی کہ مشکل معا ملا ت میں علی عبا س جلا ل پو ر ی تک اُن سے مشو ر ہ لیتے تھے۔ علم نفسیا ت پر بھی انہیں مکمل عبو ر حاصل تھا ۔ ما ہر عمرا نیا ت بھی تھے ۔ صر ف و نحو اور منطق ان کی گفتگو سے سنو ر سنو ر جا تی تھی ۔ بلند پا یہ منا ظر اور ایک عظیم الشان مبلغِ اسلام تھے۔ سو ایک شخصیت جو اتنے علو م و فنو ن میں یکتا ہو اُ سکے با ر ے میں کچھ کہنا سو ر ج کو چرا غ دکھا نے کے مترا دف ہے ۔ اس نا بغہ روز گا ر شخصیت کے ہر عمل میں قدرت کی ایسی کر م نوا زیا ں نظر آتی ہیں کہ حیر تو ں کے در وا ہو نے لگتے ہیں ۔انہوں نے اپنی چا لیس سا لہ تصنیفی زند گی میں چارسو سے زا ئد تصا نیف زمانے کے حو الے کی ہیں۔ یہ کتابیں شاعری، علم تفیسر ، علم حد یث ، علم فقہ، علم تصو ف ، علم طب ، علم منطق، علم نحو، علم صر ف، سفر نا مے ،تذکر ے، سیر ت، منا قب و فضائل ، وعظ، عملیا ت، مکتوبات،رنگوں کی فلاسفی اور تار یخ گوئی کے موضوعات پر ہیں۔ انہو ں نے 1985 میں انتقا ل فر ما یا۔ را قم الحر و ف کو ان کے قطعہ تا ریخ وفا ت کہنے کی سعا دت بھی نصیب ہو ئی۔
حا صلِ علم و فضیلت صا حب عِلمِ لد نّی ، حا ملِ کشف القبور
وار ثِ فیضا نِ نو شہ ، منزل اِسرا ر کے راہی کی ر حلت کیا ہو ئی
سوگئے پھر شہر کن میں مومنِ شب زندہ دارو عاملِ تسخیرِ ذات
کُھل گیا روحانیت کا’’ بابِ رحلت ،بر ق نو شا ہی کی رحلت‘‘ کیا ہوئی
۱۹۸۵ء
پیر معروف حسین شاہ نوشاہی انہی ابوالکمال برق نوشاہی کا تسلسل ہیں ۔اگلا اور نیا روپ ہیں ۔اسی سلسلے کی ایک اگلی کڑی ہیں جو مجدد اعظم حضرت نوشہ گنج بخش سے شروع ہوا۔یہ سلسلہ ،یہ خاندا ن صد یو ں سے گنا ہو ں کی شبِ تا ریک میں ثوابوں کے آفتا ب بکھیر تا چلا آرہا ہے۔ اُن کے دروا زے سے ایک دنیا دینِ مصطفوی کی رو شنی سے فیض یا ب ہو ئی ہے ۔گیا رہو یں صد ی سے تسلسل کے سا تھ چلتا ہو ا یہ سلسلہ ء نو شا ہیہ کہیں رکا نہیں ۔ اس لڑ ی کا ہر مو تی ایک گہر بے قیمت تھا اور اس وقت یہ سلسلہ حضرت سید معر و ف حسین شا ہ عا ر ف نو شا ہی تک پہنچا ہو ا ہے۔ جنہو ں نے اِسے برِ صغیر سے نکال کر پو ر ی دنیا میں پھیلا دیاہے ۔
شاعری کے حوالے سے پیر معروف حسین شاہ نوشاہی سمجھتے ہیں وقت نے ادب اور مذہب کے درمیان ایک وسیع خلیج کھینچ دی ہے جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اس خلیج کو کم کیا جائے تاکہ دنیا میں پھر کوئی مثنوی معنوی لکھی جا سکے۔پھر کوئی سعدی شیرازی پیدا ہو ۔پھر کسی نوشہ گنج بخش کے کلام سے فضائیں معمور ہوں ۔پھر کسی اقبال کی آواز سنائی دے۔پھر کوئی شاہ حسین دھمال ڈالے ۔پھر کوئی وارث شاہ کے بیلے میں اپنے البیلے ساجن کوڈھونڈتا پھر رہا ہو۔پھر پیر فرید کی روہی میں کسی مٹیار کادرشن ہو۔پھر کوئی میاں محمد بخش کسی لڑکی کو شام سے پہلے گھر جانے کی تلقین کرے۔پھر کسی ٹھگوں کے ٹھگ کو ٹھگنے والے بھلے شاہ سے ملاقات ہو۔پھر کوئی سلطان باہو چبنیلی کی بوٹی کی مدح سرائی کرے۔پھر کوئی برق نوشاہی پیداہو۔
سینکڑوں سے سالوں سےمجدد اعظم حضرت نوشہ گنج بخش کا عرس ہوتا چلا آرہا ہے۔مجھے ایک بارپیر سید معروف حسین نوشاہی نے حکم دیا کہ عرس کے موقع پر ایک کل پاکستان نعتیہ مشاعرہ بھی کرایا جائے ۔میں نے سوچا کہ چونکہ مزار محکمہ اوقاف کے پاس ہے اس لئے مشاعرہ کا مہمان خصوصی پنجاب کے وزیر اوقاف کو بنالیتے ہیں تاکہ ان کی آمد عرس کے موقع پر ہمارے لئے آسانیوں کا سبب بنے اور ہم اچھے طریقے سے اس مشاعرہ کا انعقاد کرسکیں ۔وزیر موصوف بھی شعرائے کرام کے ساتھ لاہور سے ایک قافلے کی صورت میں نوشہ گنج بخش کے مزار پر جائیں گے ۔مقررہ دن قافلہ جب اُس جگہ پر پہنچا تو عرس میں شریک ہونے والے لوگوں کا جم غفیر راستہ میں حائل تھا ۔ مشاعرہ گاہ تک گاڑیاں پہنچنے کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں مل رہا تھا اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیں وہاں تک پہنچانے میں کوئی کردار ادا کرنے پر تیار تھے ۔تقریبا ً ایک گھنٹہ اس رش میں گزارنے کے بعدوزیر تو واپس لاہور کی طرف روانہ ہوگئے مگر ہم شعرائے کرام کومشاعرہ گاہ کے پنڈال تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے ۔ان دنوں میں نوشہ گنج بخش کے عرس مبارک پر بہت سے غیر اسلامی کام بھی ہوتے تھے ۔ تھیٹر وغیرہ لگائے جاتے تھے ۔ مگر پیر معروف حسین نوشاہی کے پائے اقدس کی برکت سے اب وہ عرس واقعی عرس مبارک بن چکا ہے ۔
ان کی شاعری کی آغاز حمد ِ ذوالجلال و الاکرام سے ہوتا ہے ۔سلسلہ ِکلام ’’ ترانہ وحدت‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ ’’شہ رگ کے قریب ‘‘ ، ’’فراق ‘‘کی چیخ سنائی دیتی ہے ۔’’ محبت ‘‘ کی روح میں روانی ،’’کار ساز‘‘ کی ہر شے میں موجودگی پر محیط نظر آتی ہے اور شاعر ’’لاموجود الااللہ کے مقام سے اپنے اندر جھانکنے لگتا ہے ۔’’دعوتِ جلوہ ‘‘شروع ہوتی ہے ۔پردے اٹھتے ہیں ۔ہواللہ ہو کی ’’وحدت ‘‘درختوں کے پتوں سے ابھرتی ہے ۔ہر طرف انوار پھیلتے جاتے ہیں ۔’’الباقی ‘‘ کا غلغلہ بلند ہوتا ہے ۔غیر فانی لمحوں میں ’’فانی ‘‘ہونے کی حقیقت عیاں ہوتی ہے ۔ہو کی عینک آنکھوں پر سج جاتی ہے اور ’’وحدت ‘‘ کا منظرکثرت میں دکھائی دینے لگتا ہے مگر ’’ تلاش ‘‘ جاری رہتی ہے ۔دل کے غار میں عشق کی شمع کی کرنیں بکھرتی رہتی ہیں ۔کہیں یہ تلاش مسجدوں میں جاری رہتی ہے تو کہیں مندروں میں رواں دواں ، کہیں گنگا کے پانیوں میں تو کہیں ارمغانِ حجاز میں ۔کہیں ساز و رباب میں تو کہیں سوز و گداز میں ۔ مگر ’’انوار ‘‘ تک صرف وہی پہنچتا ہے جس کی آنکھوں میں مازاغ کا سرمہ ہوتا ہے ۔
پھر سلسلہ ِ کلام میں ’’قدرت ِ الہیہ ‘‘کی ظہور منکشف ہونے لگتا ہے۔بادلوں کی ٹکڑیوں سے لے کر آبشاروں کے گیسووں تک ۔خوشبو سے چاندنی تک اورشبِ تار سے رخسار تک ہر جگہ اسکی قدرت کا ظہور طلوع ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔’’جلوے ‘‘ اور ’’ تجلیات ‘‘ہم آغوش ہوتی ہیں ۔’’نظارہ ء قدرت‘‘ کی بے صورتی دلھائی دیتی ہے ۔’’صفاتِ الہیہ ‘‘اسرار بکھیرتی تحریریں حکمت کے در کھولنے لگتی ہیں ۔’’جلوہ گری ‘‘ کے ضیا بخش نظاروں سے دل و دماغ بھر جاتا ہے ۔’’انوار ِ الہیہ ‘‘ کی فراوانی ’’ اللہ ہی اللہ ‘‘ کا شور کرنے لگتی ہے ۔’’رجوع الی اللہ ‘‘ کی ساعت ِ سعید آتی ہے۔ در بار ِ خداوندی میں شفاعت ِسرکارِ دوعالم ، چارہ ساز بیکساں ، پیغمبرِ انسانیت کالمحہ ِ پُر نور و کرم بار ہم نفس ہوتا ہے ۔
’’دین اسلام ‘‘کی حقانیت سامنے آتی ہے۔شب ِ معراج میں مقام ِ قاب ِ قوسین پر ’’شان ِ محبوب ‘‘ کا ذ کرہوتا ہے ۔’’سبحان اللہ ‘‘ الوہی صدائوں سے ہزاروں کائناتیں معمو ر ہوجاتی ہیں ۔
اور پھرپیر سید معروف حسین شاہ نوشاہی عارف اپنی ’’بخشش‘‘ کے لئےآوازِ اشکبار و درد انگیز میں روتے ہیں جیسا رونے کا حق ہے ۔انہیں اِن آنسوئوں کی بدولت ’’ حیرانی ‘‘ کی دولت ملتی ہے ۔’’قدرتِ الہی ‘‘ میں سبز رنگ کی معجز نمائیاں چہچہانے لگتی ہیں۔’’جلوہ ِ الہی ‘‘ کے نور کی بارشوں سے ذات و کائنات دھل جاتی ہے اور اُس کی ’’ رضا‘‘ پر راضی رہنے کی کیفیت رونما ہوتی ہے۔’’ستار‘‘ تمام عیوبِ برہنگی پر اپنے کرم کے چادریں پھیلا دیتا ہے۔’’عشق ‘‘کی آوازجاگتی ہے۔وہ آواز جو ازل سے ہوا کے ساتھ چلتی ہوئی ابد تک دلوں کو مسرتوں کی کمک عطا کرتی رہتی ہے۔بے حد و بے شمار عارف اسی عشق کی آگ میں جلا کر راکھ ہوتے ہیں ۔’’بارگاہ ِ الہی میں دعا‘‘ کے دستِ مقدس اٹھتے ہیں اور اٹھے رہتے ہیں ۔کہیں ’’کائنات ‘‘ میں وصال کی شراب ِ صبح بہتی ہے تو کہیں فراق کی شبِ سیاہ ۔بس ’’ بندگی ‘‘ اور مسلسل بندگی ہی اصل زارِ حیات و ممات ہے ۔کاتنات میں اِسی سے اس کے ’’ جود و سخا ‘‘کے دریا بہتے ہیں۔
یہ تو دیوان ِ نوشاہیہ کے پہلے چند صفحات کا احوال ہے ۔پورے دیوان کے کچھ لکھنے کےلئے کئی دفتر درکار ہیں ۔ ہر بند ایک پورے مضمون کا متقاضی ہے ۔اللہ تعالی نے توفیق دی اور پیر معروف حسین نوشاہی کی نظرِ کرم رہی تو انشاللہ ایک دن میں ضرور یہ کارنامہ ِکلام سر انجام دونگا۔

