
عمران خان ! دو میں سے ایک
عمران خان ! دو میں سے ایک
منصور آفاق
میں جب صاحبان ِ اقتدار کے بلند و بانگ دعوے سنتا ہوں تو مجھے گاجر یاد آجاتی ہے ۔جسے کسی زمانے میں گدھے کے منہ سے تین چار انچ آگے سر کے بالکل ساتھ باندھ دیا جاتا تھاتاکہ اسے دکھائی دیتی رہی اور اسے کھا بھی نہ سکے ۔یوں بیچارہ گدھا تمنائے گاجر میں دوڑتے دوڑتے منزل تک پہنچ جاتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے قوم کے ماتھے پر وہی گاجر باندھ دی گئی ہے ۔ شاید سفر کے اختتام پر گدھے کو تو گاجر مل جاتی ہو گی ۔یہاں اس کا حصول کے امکان نہیںنظر آتا۔
بلند بانگ دعووںاور وعدوں کی فہرست بڑی طویل ہے ۔اتنے وعدے ہیں گنواﺅں تو گنوا بھی نہ سکوں ۔کسی زمانے میں میرا خیال ہوا کرتا تھا کہ عوام کی یاداشت بہت کمزور ہوتی ہے ۔وہ بھول جاتی ہے کہ چند ماہ پہلے ووٹ مانگنے والوں نے اس کے ساتھ کیا کیا وعدے کئے تھے۔مگر جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے مجھے اپنا یہ خیال غلط ثابت ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ۔اب تو میڈیا روز ہی سیاست دانوں کی پرانی تقریروں کی جھلکیاں دکھاتا رہتا ہے مگر پھر بھی لوگوںکو کچھ دکھائی کچھ سنائی نہیں دیتا ۔جیسے کانوں میں سیسہ بھرا ہوا ہے جیسے آنکھوں میں سلائیاں پھری ہوئی ہیں۔ یہی دیکھئے کہ نون لیگ نے اقتدار میں آنے سے پہلے کیا کیا وعدے نہیں کئے تھے ۔ایسے وعدے جوان کے پانچ سالہ دور میں پورے ہونے ممکن نہیں مگر لوگ ہیں کہ انہیں ووٹ دئیے جارہے ہیں ۔ہری پور میں نون لیگ کی فتح سب کے سامنے ہے ۔اس سے پہلے تقریباً چھ نشستوں پر ضمنی انتخابات میں نون لیگ کے امیدوار کا میاب ہوچکے ہیں ۔
ہری پور تو صوبہ پختون خواہ میں ہے ۔جہاں عمران خان کی حکومت ہے۔ کہتے ہیں کہ عمران خان نے وہاں پوری کوشش کر رہا ہے کہ اقتدارعوام تک پہنچے ۔ لوگ اپنے مسائل خود حل کریں ۔ کرپشن کا خاتمہ ہو ۔انصاف لوگوں کے دروازے تک آئے ۔پولیس آزاد ہو ۔ حکمرانوں کا احتساب ممکن رہے ۔مگر اس کے باوجود لوگوں نے پی ٹی آئی کے امیدوارکو شکست سے دوچار کیا ۔ آخر کیوں؟۔
یقینا اس سلگتے ہوئے سوال کا جواب عمران خان بھی تلاش کر رہے ہونگے۔ممکن ہے اُن کے حواریوں نے یہ کہہ کر انہیں بہلانے کی کامیاب کوشش کی ہو کہ نون لیگ کے امیدوار کی برادری بہت بڑی تھی ۔ اس نے لوگوں نے بہت کام کئے ہوئے تھے ۔ وہ عوام میں بہت مقبول تھا ۔چلیں یہ بھی مان لیتے ہیں مگر پھریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسے اتنی زیادہ لیڈ کیوں حاصل ہوئی ۔ اس بات کے دو جواب ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ ابھی عمران خان” نیا پختون خواہ “بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔دوسری وجہ” دھرنے “کے بعد کی صورت حال ہو سکتی ہے جس میںوہ مسلسل پسپاہو رہے ہیں ۔شایدجوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو مان لینا ۔ اسمبلی کا دوبارہ حصہ بن جانا وغیرہ وغیرہ عوام نے پسند نہیں کیا ۔
میرے نزدیک اب عمران خان کے پاس دو راستے ہیں ۔اگر وہ واقعی نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں تو ان دو میں سے ایک راستہ انہیں چننا پڑے گا۔ایک تو یہ کہ صوبہ پختون خواہ کی اسمبلی تحلیل کردیں۔ باقی اسمبلیوں سے باہر آجائیں اور ملک گیر عوام تحریک کا آغاز کریں یا پھر صوبہ پختون خواہ کوحقیقی معنون میں نیا پاکستان بنادیں ۔یہ راستہ اگرچہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔اس لئے انہیں سب سے پہلے پورے صوبے کا تعلیمی نظام بدلنا ہوگا۔ تمام مدارس ،تمام پرائیویٹ اور سرکاری سکولز کےلئے ایک طرح کی سہولیات اور ایک طرح کا نصاب رائج کرنا ہوگا اور جو سکول یا مدارس معیار پورے نہیں اترتے انہیں بند کر دینا ہوگا۔دوسرا سوشل سیکورٹی سسٹم رائج کرنا ہوگا کہ جن لوگوںکو حکومت روزگار فراہم نہیں کر سکتی انہیں ہر ہفتے ایک معقول معاوضہ ملے۔ساٹھ سال سے زیادہ عمر رکھنے والے ہر اس بزرگ کو وظیفہ دیا جائے جسے پیشن نہیں ملتی ۔تمام ملازمین کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ کر دیا جائے ۔اگرچہ اس کام کےلئے بہت بڑے سرمائے کی ضرورت ہے مگریورپ کی طرح امیر لوگوں پر بہت زیادہ ٹیکس عائد کر کے اس بات کو ممکن بنایا جا سکتا ہے ۔(یورپ میں دس ہزار پونڈ سالانہ کمانے والے پر کوئی ٹیکس نہیں مگرگیارہ سے تیس ہزار پونڈ کمانے والوںپر بائیس فیصد ٹیکس عائد ہوتا ہے اسی طرح ٹیکس بڑھتا جاتا ہے سالانہ ایک لاکھ کمانے والے کو تقریباًپچاس سے ساٹھ ہزار پونڈ ٹیکس دینا پڑ جاتا ہے ۔)صوبہ پختون خواہ کے وہ حصے جہاں دہشت گردی کا کوئی خطرہ نہیں وہاں بڑی سطح پرغیر ملکی سرمایہ کاری کرائی جا سکتی ہے۔اگر متحدہ عرب امارات بھارت کے ساتھ 75ارب ڈالر کے معاہدے کر سکتا ہے، اگرصوبہ پنجاب ترکی اور چین کے ساتھ مل کر پراجیکٹس کر سکتا ہے تو صوبہ پختون خواہ کو کیا مسئلہ ہے ۔اس کےلئے باقاعدہ ایک علاقہ مختص کیا جاسکتا ہے ۔جہاںحکومتِ پختون خواہ بین الاقوامی قوانین کا نفاذ کردے تاکہ بیرون ملک سے آنے والوں کووہ تمام سہولیات مل سکیں جو انہیں یورپ میں حاصل ہیں ۔محکمہ صحت کو بہتر بنانے کےلئے دنیا بھر سے صحت کےلئے کام کرنے والی بڑی بڑی این جی اوز کو بلایا جاسکتا ہے ۔سیاحت کے فروغ کےلئے مختلف پُر فضا مقام بین الاقوامی کمپنیوں کو دئیے جاسکتے ہیں ۔چین کے ساتھ تجارت کو فروغ دیاسکتا ہے ۔خاص طور پر وہ علاقہ جہاںچین کی سرحد ہے ۔اس کے قرب و جوار میں چین کی مدد سے نئے شہر آباد کئے جاسکتے ہیں۔پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیدوار میں تیزی کے ساتھ بہت زیادہ اضافہ ممکن ہے ۔وہاں قدرتی وسائل میں پانی ، درخت ، پہاڑ اور جفا کش لوگ وافر مقدار میں موجود ہیں ان سے بھرپور کام لیا جا سکتا ہے ۔ صوبے میں ہونے والی غیر قانونی اسلحہ سازی کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دیا جاسکتا ہے میں نے اپنی آنکھوں سے درہ آدم خیل کے بنے ہوئے راکٹ لانچر دیکھے ہیں ۔وہاںپولیس کا نظام اگرچہ بہتری کی طرف گامزن ہے مگر اسے اور بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اس کےلئے سب اہم ترین بات یہ ہے کہ ہر تھا نے میںجو سپاہی تعینات کئے جائیں ان کا تعلق اسی تھانے کے علاقے سے ہو ۔جن کے پاس چھوٹے چھوٹے جھگڑوں کے فیصلے کا بھی اختیار ہو۔حکومت آباد کرنے کےلئے کسانوں کو قسطوں میںبہت کم قیمت پر زمینیں فراہم کرے اورجو انہیں آباد نہ کریں ان سے واپس لے لے۔جو زمینیں حضور سرور کائنات نے صحابہ کو دی تھیں ان میں سے جن صحابہ نے انہیں آباد نہیں کیا تھا حضرت عمر فارو ق نے وہ واپس لے لی تھی ۔ معدنی ذخائر کی تلاش کے کام میں تیزی لائی جاسکتی ہے اور جہاں ذخائر موجود ہیں انہیں نکالنے کےلئے سرمایہ کاری کرائی جاسکتی ہے ۔ اگر پشاور میں تمام ترقی یافتہ ممالک کے سفیروں کو بلا کران پراجیکٹس پر ایک ڈونر کانفرنس کرائی جائے تومجھے یقین ہے کہ اس کے بعد صوبے میں مالی وسائل کوئی کمی نہیں رہے گی۔ویسے ماروی میمن کا کہنا ہے کہ وفاق کی طرف سے صوبے کو جو فنڈ فراہم کئے جاتے ہیں صوبہ انہیں پوری طر ح خرچ بھی نہیں کرتا مگر میں اس الزام کو تسلیم نہیں کرتا۔اور ہاں ایک آخری بات کہ ان تمام کاموں کےلئے جہانگیر ترین جیسے کسی شخص کے وزیراعلیٰ ہونے کی ضرورت ہے ۔ پرویز خٹک بہت اچھے آدمی ہیں مگر اتنی زیادہ صلاحیتوں کے مالک نہیں کہ نیا پختون خواہ وجود میں لا سکیں

