
بنام حسین پانی کی سبیلیں
بنام حسین پانی کی سبیلیں
منصور آفاق
جس حادثہ کبریٰ کی یاد میںبرطانیہ کے کچھ احباب نے حسینی سبیل اور لنگرِ حسینی کا آغازکیاہے،وہ تاریخ ِ درد کا ایک انتہائی الم انگیز اور بے مثال حد تک کربناک باب ہے ۔محرم کے انہی ایام میں رسول کائنات کے لا ڈلے نواسےؓ نے اپنے خانوادہ ءاقدس کے ساتھ اپنے لہو سے ایثار وقربانی کی یادگار تحریر کی تھی۔انہی ایام محرم میںریگ زار کربلا میںان کے نانا کی امت نے ان پر پانی بند کر دیا تھا۔
روکے ہوئے تھی نہر کو امت رسول کی
سبزہ ہرا تھا خشک تھی کھیتی بتول کی
ادھر وحشت وسنگ دلی کا شیطان بھی اپنی تاریخ کا سفاک ترین باب لکھ رہا تھا۔آسمان کی آنکھ اشک بار نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کہ معصوم علی اصغرکے جسم میں زندگی کی نمی ختم ہو رہی ہے ۔اس کی ساری حسیات حیات پیاس بن کر اس کے ہونٹوں پر بکھر گئی ہیں۔امام حسین علیہ السلام نے اسے گود میں لیااور میدان کربلا میںآکر کہا”میں تم سے پانی مانگنے نہیں آیا۔مجھے اپنی ذات کے لیے پانی نہیں چاہیے۔مجھ سے اس معصوم کی پیاس نہیں دیکھی جاتی۔
سچ کہہ رہا ہوں تم سے اگر کچھ خیال ہے
یثرب کے شاہزادے کا پہلا سوال ہے
وہ کہہ رہے تھے اور زمیں کا نپتے ہوئے کلیجے سے یہ سن رہی تھی”بیٹا تم بھی اپنی خشک زبان نکال کر دکھا دو“اور
پھیری زبان لبوں پہ جو اس نو ر عین نے
تھرا کے آسمان کو دیکھا حسین نے
مگر ادھر سینوں میںدلوں کی جگہ پتھر رکھے ہوئے تھے۔جواب میں ایک تیر آیا اور علی اصغر کا گلا چھید کر رہ گیا۔معصوم خون بہنے لگا توامام حسین ؓ نے چلو بھر لیااور آسمان کی طرف اچھا ل کر کہا”اے خدا! تیری راہ میں حسین ؓہی معصوم لخت جگر کی قربانی پیش کر سکتاتھا۔اے محبوب ازل تیرا یہ مطالبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تھا مگر تو نے ذبح عظیم کی خاطر اس میں تاخیر کر دی تھی۔لے آج اولاد ابراہیم سے اپنے مطالبے کا جواب پالے“
اتنے بڑے حادثہ پر جتنے بھی آنسو بہائے جائیں کم ہیں مگر میں جوش اضطراب میںسینہ کوب حضرات سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کس لیے ہوا۔حضرت امام حسین ؓ نے ثبات وپامردی سے سنگدلانہ جفاکشیوں کی یلغار کیوں برداشت کی۔میرا ایمان ہے کہ اگر حسین ؓ زمین پر پاﺅں مارتے تو زمین اپنے آنسوﺅں کا وہ پانی ضرور اگل دیتی جو اس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی معصوم ایڑیوں رگڑ پر اگلا تھا۔حضرت امام حسینؓ حکم دیتے تو آسمان سے باران رحمت کا نزول شروع ہو جاتا مگر امام حسین ؓ چاہتے تھے کہ وہ احیائے دین کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کویہ بتا جائیں کہ
یہ راہ محبت ہے ساتھی اس راہ پہ جو بھی آتے ہیں
وہ راہ کے ہر ہر کانٹے ہر کچھ خون جگر ٹپکاتے ہیں
برطانیہ میں انسانیت خدمت کر نے والوں نے اسی راہِ محبت و ہدایت پر خون ِ جگر ٹپکانے کا سلسلہ شروع رکھا ہے ۔ حسینی سبیل کے نام سے دنیا کے پیاسوں کو پانی پلانے کی ایک تحریک شروع کی گئی ہے ۔خاص طور پر پاکستان میں جہاں کی صورت حال بہت تشویشناک ہے ۔وہاں اس تحریک اس محرم میں پورے زور و شور سے شروع کیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق اِس وقت پینے کاصاف پانی نو سو ملین افراد کی دسترس سے باہر ہے ، تین ارب لوگ نکاسی ءآب کی سہولیات سے محروم ہیں ۔دنیا کے تقریباً آدھے ممالک میںآدھی بیماریوںکا سبب پانی کی آلودگی ہے ۔کئی علاقوں میںبچوں اور عورتوں کو پانی کے لئے کےلئے چار چار میل پیدل چلنا پڑتا ہے ۔پاکستان کاشمار دنیا کے ان سترہ ممالک ہوتا ہے جہاں بہت زیادہ مسائل ہیں۔ پانی میں آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ پاکستان میں تقریباً چودہ کروڑافرادکوپینے کا صاف پانی میسرنہیں۔پاکستانی معیشت کا ایک بڑا حصہ اس وقت پانی سے متعلقہ بیماریوں پر خرچ ہورہا ہے ۔پانی جس کے متعلق قدوس ذوالجلال نے کہا ”اور ہم نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ پیغمبرِ انسانیت ۔چارہ ساز بیکساں کا فرمان ہے کہ افضل صدقہ پانی ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ’پانی زندگی ہے ۔کربلا میں اہلِ صبر کا امتحان بھی پانی سے لیاگیا۔اور امام حسین علیہ اسلام کو یاد کرنے والے پانی سے محروم ہیں۔خاص طور پر تھر(سندھ ) کے علاقے میںپیاس نے گذشتہ چند سالوں میں سینکڑوں بچوں کی جان لی ہے ۔اسی کو دیکھتے ہوئے حسینی سبیل اور لنگر حسینی کے نام سے پیاسوں کی پیاس بجھانے کی تحریک شروع کی گئی ہے۔اس میں ایسے شامل ہیںجن کے دل دھڑکتے ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں۔آئیے پیاس ِ کربلا کی اس تحریک میں حصہ لیجئے ۔تھر کے پیاسوں کی پیاس بجھائیے۔ ، حسینی سبیل کو فروغ دیجئے۔جہاں جہاں آپ موجود وہیں وہیں یہ کام کیجئے ۔اور جنہیں مناسب سمجھے انہی کے ساتھ مل کر کیجئے ۔میرے خیال میں اس کا م میں ذکرِ حسین بھی موجود ہے ۔مشنِ حسین بھی یہی ہے
mansoor afaq

