کیاحجاب غیر اسلامی ہے؟. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

کیاحجاب غیر اسلامی ہے؟

کیاحجاب غیر اسلامی ہے؟

منصور آفاق

اسلام میں حجاب کے موضوع پر ایک بحث کا آغاز کررہا ہوںاور امید کرتا ہوں کہ احباب اس میں شریک ہونگے ۔اسلام کے آنے سے عورت میںجرات آتی ہے حوصلہ آتا ہے خود اعتمادی آتی ہے ۔ اسکے لرزتے کپکپاتے ہاتھوں میں اتنی توانائی آجاتی ہے کہ وہ امیرالممنین کا دامن پکڑ لیتی ہے ” رک جاﺅ عمر تمہیں یہ اتھارٹی کس نے دے دی کہ خدائے عزو جل کے احکام میںترمیم کرنے لگے وہ تو حق مہر میں ہمارے لئے ڈھیروں سونا بھی قبول کر تا ہے اور تم حق مہر کی مقدار متعین کر تے پھرتے ہو “ اورعمر کہتے ہےں شکریہ تمھارا کہ تم نے مجھے میری حیثیت یادد لادی اور خدا کا حکم بھی یاد دلاد یا کہ میںوہ بھول رہا تھا۔ تمہارے جیسی عورتیں موجود رہیں تو عمر اپنے راستے سے بھٹک نہیں سکیگا “۔عورت ” ظہار “ جیسے شرمناک معاشرتی قانون کے خلاف اجتجاج کرتی ہے اللہ کے رسول کے پاس آکر اس جاہلی قانون کو چیلنج کرتی ہے تو اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے خولہ بنت ثعلبہ ثھیک کہتی ہے یہ غلط قانون ہے آج سے اسے ختم کیا جاتا ہے اور خولہ کے واقعہ کو وہ تقدس ملتا ہے کہ وہ قران حکیم میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔عورت اس قابل ہو جاتی ہے کہ رسول خدا اس سے مشورہ لیتا ہے اسکا مشورہ اتنا دانشمندانہ ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کرتے ہیں اور انتہائی صحیح نتائج حاصل ہوتے ہیں یہ عورت ام سلمہ ؓ ہیں اور یہ مشورہ صلح حدیبیہ کی شکستہ دل فضا ءمیں بڑے صائب اور عقلمندانہ انداز میں دیا گیا۔عمر فاروق جیسا آدمی شفاءبنت عبداللہ کا مشورہ لینے میں پیش قدمی کرتا ہے۔امیرالممنین عمر فاروق ایک خاتون کو مدینہ منورہ کا میئر (Mayor)مقرر کرتے ہیں اور اسکے حسن انتظام سے مطمئن ہوتے ہیں (بحوالہ اسلام میںخواتین کے حقوق ص ۸۷۳)اب عورت کسی پنجرے میںبے بسی سے پھڑکنے والی مخلوق نہیںانتہائی جاندار کر دار کی مالک ہے میدان جنگ میں جاتی ہے اور اپنے فرائض پورے کرتی ہے وہ اپنا ہر کام پورے احساس ذمہ داری سے سر انجام دینے لگتی ہے ۔ علم و حکمت کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے میدان میں سرگرم عمل رہتی ہے ۔وہ عورت جسے مرد اپنا جنسی کھلونا سمجھا کرتا تھا اور اپنی شہوانی تسکین کے لئے جسے کوٹھے پر بٹھا دیتا تھا وہ عورت غائب ہوجاتی ہے اسلامی معاشرہ میں کہیں اسکا نام و نشان نہیںملتا اب ایسی عورت آگئی ہے جسے اپنی عفت کی پاسداری کا ہنرآتا ہے اب کوئی بھی اسے اپنے گناہ کا آلہ کار نہیںبنا سکتا۔ علامہ نیاز فتحپوری لکھتے ہیں ”اسلام نے فحش اور قحبگی کاقلع کر دیا تھا چنانچہ علامہ حلبی کا قول ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی صدی میں دنیائے اسلام کے اندر عصمت فروشی بالکل مفقود تھی “(شہوانیات ص ۱۹ شائع کردہ آواز اشاعت گھر لاہور )

سورئہ نور میں مردوں کے لئے حکم ہے ۔

”مسلمان مردوں کو کہ دیجئیے ۔کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے یقینا اللہ تعالی ان کے کاموں سے باخبر ہے “نگاہیں نیچی رکھنے کا یہی حکم عورتوں کو بھی انہیں الفاظ میںدیا گیا ہے اگلی آیت ہے ۔”اور مسلمان عورتوں سے کہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں “دونوں کو یہاں تک ایک جیسے احکام دئیے گئے ہیں دونوں کو غض بصر کا حکم ہے اگر اس سے مراد وہ گتھی نمابر قع ہے جو عورتوں پر چڑھا دیا جاتا ہے تو مردوں کو بھی برقع پہننا چاہیے ۔ نگاہیں نیچی رکھنے کا مطالبہ ہے یہی اسلئے کہ مرد عورت دونوں کے چہر ے کھلے ہوئے ہیں۔اس کے بعد عورتوں کو ایک او رحکم دیا گیا ہے۔” اور عورتےں اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے “

زینت کیا ہے ؟ ظاہر ہے جسم کا حصہ تو زینت نہیں ہو سکتا زینت توخارج کی چیز ہوتی ہے جیسے فرمایا ” کہ دیجئے کون ہے جس نے اللہ کی زینت کی چیز وں کو حرام کیا جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیں“ یہاں زینت کی چیزیں وہ ہیں جو بندوں کے لئے الگ سے پیدا کی گئی ہیں جیسے سونے چاندی کے زیورات ہیرے جواہرات وغیرہ ۔ انہی آیات میں آگے چل کر زینت کی قرآن نے خود ہی وضاحت کر دی ہے ۔” اور اپنے پیروں کو زمین پر زور سے مارتی چہلیں کرتی نہ چلیں کہ جس زینت کو وہ چھپائے ہوئے ہیں اسکا پتہ چل جائے “

صاف ظاہر ہے کہ زینت سے مراد کوئی ایسی چیز ہے جو چھپی ہوئی بھی ہو تو پاﺅں زمین پر مار کر چہلیں کرتے ہوئے چلنے سے اس (زنیت)کا پتہ چل جاتا ہے ۔ جسم کے کپڑے بھی نہیں بناﺅ سنگار یعنی سرخی کا جل وغیرہ بھی نہیں کہ زمین پر پاﺅں مارکر چلنے سے تو یہ ظاہر نہیں ہوتیں واضح ہو گیا کہ وہ ایسا زیور ہے جو زمین پر پاﺅں مارکر چلنے سے ظاہر ہوجاتا ہے یعنی اسکا پتہ چل جاتا ہے پاﺅں کی پازیب ہے یا اس قسم کے دوسرے زیور جنہیں جاہلیت میں عورتیں چھنکاتی ہوئی چلتی تھیں وہی بات جیسے شاعر کہتا ہے

تو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے ۔۔۔پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے

یہاں تک بات صاف ہوگئی کہ چہرا کھلا ہوا ہو گا (کہ غض بصر کا حکم دیا گیا ہے ) چہر ے پر برقع ہو تو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم کیوں ؟ چلیئے آپ کہیں گے عورت برقع سے بھی اوپر نہ دیکھے تو مرد کو یہ حکم دیا گیا عورت برقع میںسربندلفافہ بن گئی اب نگاہ اوپرہو یا نیچے کیا فرق پڑتا ہے ۔ بہر حال یہ حکم عورت کو الگ سے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی زینت کو غیر محرم مردوں سے چھپائے اسی سلسلہ میں فرمایا گیا ۔” اور اپنی اوڑ ھنیاں انپے سینوں پر ڈال لیا کریں “یہاں سینہ چھپانے کا حکم آیا ہے اگر برقع میں عورت ملغوف ہے تو اس حکم کی کیا ضرورت ہے وہ توساری کی ساری چھپی ہوئی ہے پھر اوڑھنیاں سینوں پر ڈالنے نہ ڈالنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔اب آئیے سورہ اخراب کے حکم کی طرف اارشاد ہو تا ہے ۔

” اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیویوں، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہ دیجئے کہ اپنے اوپر جلباب ڈال لیا کریں “

یہ جلباب کیا ہے عام طو ر پر اس سے چادر مراد لی جاتی ہے یہ ایک قسم کا اوور آل ہے اس کا مقصد کیا ہے اسکی وضاحت اسی آیت میں یوں کی گئی ہے ۔” اس لئے کہ اس سے بہتر انداز میں انکی پہنچان ہو جائیگی اور ان کو اذیت نہیں دی جائیگی “گویا یہ ” جلباب “ مخلوط معاشرہ میں مسلمان عورت کی یونیفارم تھی جس سے پہچان ہوسکتی تھی مفسرین لکھتے ہیں مدینہ مطہرہ کے معاشر ہ میں منافقین عورتوں کو چھیڑ ا کرتے تھے اور ابھی اسلامی قوانین کی گرفت میں پوری طرح نہیں آئے تھے پس یہ ” جلباب “ مسلمان عورت کی پہچان تھی ۔مختلف ادوار میںایسا بھی ہوا ہے کہ بری عورتوں کو معاشرہ میں ممےز رکھنے کے لئے انکی کوئی پہچان مقرر کردی جاتی تھی چنانچہ سولھویں صدی میں جرمنی میں زانیہ اور دلالہ کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ پہچان کے طور پر چہرے پر نقاب ڈال کر گھر سے نکلا کریں (شہوانیات ص ۳۷۲) ابتداءمیں مدینہ منورہ کے معاشرہ میںیہودی اور منافقین بھی تھے تو جلباب مسلمان عورت کی پہچان رکھی گئی آئیے اب زینت چھپانے کے متعلق مفسرین کی تفاصےل دیکھتے ہیں ۔علامہ حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر میں مختلف اقوال جمع کے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں :

” عورتیں اجنبی غیر مردوں کے سامنے اپنی زینت کی کوئی چیز ظاہر نہ کریں ہاں جن کا چھپانا ممکن نہ ہو جیسے چادر اور اوپر کا کپڑا وغیرہ جن کا چھپانا عورت کے لئے ناممکن ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مرادچہرہ اور پہنچوں تک ہاتھ اور انگوٹھی ہے لیکن ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ یہی زینت کے وہ مقام ہیںجن کے ظاہر کرنا شریعت نے منع کیا ہے جیسے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں یعنی بالیاں ، ہار ، زیور وغیرہ ۔ فرماتے ہیں کہ اس آیت میںجن رشتہ داروں کا ذکر ہے ان کے سامنے تو دوپٹہ ، بالیاں کھل جائیں تو حرج نہیں لیکن دوسرے لوگوں کے سامنے صرف انگوٹھیاں ظاہر ہو جائیں تو پکڑ نہیں اور روایت میں انگوٹھیوں کے ساتھ ہی پاﺅں کے خلخال کا بھی ذکر ہے ہو سکتا ہے ماظھر منھاکی تفسیر ابن عباس ؓ وغیرہ نے منہ اور پہنچوں سے کی ہو جیسے ابو داﺅد میں ہے کہ اسماءبنت ابی بکر حضور اکرم کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے تھیں تو آپ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا جب عورت بلوغت کو پہنچ جائے تو سوا اس کے اور اس کے (آپ نے ہاتھوں اور چہرے کی طرف اشارہ کیا ) اس کا کوئی عضو دکھانا ٹھیک نہیں ۔ جاہلیت کے دورمیں عورتیں اپنے سینوں پر کچھ نہیں ڈالتی تھیں بسا اوقات گردن ، بال ، چوٹی اور بالیاں وغیرہ صاف نظر آتی تھیں اور آیت میں ہے اے نبی اپنی بیویوں سے اپنی بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں۔ خمر خمار کی جمع ہے خمار ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو ڈھانپ لے چونکہ دوپٹا سر کو ڈھانپ لیتا ہے اس لئے اسے خمار کہتے ہیں پس عورتوں کو چاہے کہ یا تو اپنی اوڑھنی سے یا کسی اور کپڑے سے اپنا گلا اور سینہ چھپائے رکھیں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں اللہ ان عورتوں پر رحم کرے جنہوں نے شروع شروع میںہجرت کی تھی کہ جب یہ آیت اتری تو انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر دوپٹے بنا لئے بعض نے تہمد کے کنارے کاٹ کر سر ڈھک لیا “۔

(تفسیر ابن کثیر پارہ ۸۱ ص ۰۶©-۹۵مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی )

اس طویل اقتباس سے یہ دکھانا مقصود تھا کہ ضعیف ترین اقوال کو بھی لیا جائے تو موجودہ برقع کی تائید نہیں ہوتی بعض نے جلباب سے چہرہ اور ہاتھ چھپانے کی جو بات کی ہے اس کی حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ؓ سے منسوب روایات سے تردید ہو جاتی ہے بلکہ خود قرآن بھی اس کی تردید کر تا ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے عورتیںاپنی نگاہیں نیچی رکھیں اگر آنکھیں اور چہرہ موجودہ برقع کے مطابق ڈھکے ہوئے ہیں تو پھر نگاہیں نیچی رکھنے کی کیا ضرورت ہے

علامہ محمد ناصر ا(لدین البانی آگے لکھتے ہیں”چونکہ اکثر حالات میںچہرہ اور ہاتھ عادتاً اور عبادت کرتے ہوئے کھل جاتے ہیں یہ صلوة اور مناسک حج کی ادائیگی میںبھی ہوتا ہے تو یہ بات درست ہے کہ استثنا ءچہرے اور ہاتھوں کی طرف ہی راجع ہو اس پر وہ روایت بھی روشنی ڈالتی ہے جسے ابو داﺅد نے حضرت عائشہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضرت اسماءحضور کے پاس حاضر ہوئیں تو باریک کپڑے پہنے تھیں آپ نے منہ پھیر لیا اور فرمایا جب عورت بلوغ کو پہنچ جائے تواس اور اس (چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا ) کے سوا باقی اعضا ءظاہر نہیں کرنے چاہئیں “۔اس سلسلہ میں ذرا آگے چل کر کہتے ہیں :

” یہ بات خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ حضور اکرم کے عہد مبارک میںعورتوں کا عمل اس پر رہا ہے کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھتی تھیں حضور کے دربار میںاس طرح حاضر ہوتی تھیں اور آپ ان پر کوئی نکیر نہیں فرماتے تھے اس سلسلہ میں کثیر روایات ہیں جن میں سے ہم چند کا ذکر کرتے ہیں :حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میںحضور کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر ہوا آپ نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھا ئی جس میں نہ اذان تھی نہ اقامت پھر بلا ل ؓ کے سہارے ٹیک لگا کر آپ کھڑے ہوئے اور تقوی کا حکم دیا و عظ فرمایا ۔ پھر عورتوں کے پاس گئے انہیں نصیحت فرمائی ذکر خدا کی طرف مائل ہونے کی ترغیب دی اور فرمایا صدقہ کرو کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن بن جاتی ہیں عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی ایک عورت کے رخساروں کا رنگ پھیکا پڑ گیا اور سیا ہ ہو گیا بولی اے اللہ کے رسو ل کیوں ؟ آپ نے فرمایا تم کثرت سے غیبت کرتی ہو حضرت جابر کہتے ہیں کہ وہ اپنے زیورات کا صدقہ کرنے لگیں اور بلال کے کپڑے میںاپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں “۔ (مسلم ، نسائی ، داری ، بیہقی ، مسند احمد )

اس راویت میںحضرت جابر بتا رہے ہیں کہ عورت کے رخساروں کا رنگ پھیکا پڑگیا اور سیاہ پڑگیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ چہرہ کھولے بیٹھی تھی کہ حضرت جابر ؓ نے اس کے رنگ کے متعلق یہ تغیر دیکھ لیا ۔

” حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک خاتون حجة الوداع میںقربانی کے دن حضور سے ایک مسئلہ پوچھنے آئی فضل بن عباس حضور کے ذرا پیچھے بیٹھے تھے عورت بھی بڑی حسین تھی اور فضل بھی بہت خوبصورت تھے دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے حضور نے فضل ؓ کی ٹھوڑی پکڑ کر دوسری طرف موڑ دی ۔ یہی روایت حضرت علی بن ابی طالب سے بھی ہے “۔(بخاری ، مسلم ، ابو داﺅد ، نسائی ، ابن ماجہ ، موطا امام مالک ، بیہقی )

یہ اور اس قسم کی بہت سی روایات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور کے عہد میںعورتیں خود آپ کے پاس بھی اس حال میںحاضر ہوتی تھیں کہ ان کا چہرہ اور ہاتھ کھلے ہوتے تھے حضور نے کبھی انہیں یہ حکم نہ دیا کہ وہ چہرے اور ہاتھوں کو چھپا لیں ۔ (تفسیر قرطبی زیر آیات حجاب )

رہا گھر وں میں بالکل بند ہو جانا تو یہ قرآن کی تجویز کر دہ ایک سزا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
”تمہاری عورتوں میں سے جو ایسی حرکات کی مرتکب ہوں جو زنا کی طرف لے جانے والی ہوں تو اس پر چار آدمیوں کی گواہی طلب کرو اور اگر وہ گواہی دیں تو انہیں گھر سے باہر آنے جانے سے روک دو تاآنکہ انہیں موت آجائے یا اللہ ان کے لئے کوئی راستہ پیدا کردے “۔مولانا سید ابو اعلی مودودی صاحب اس مسئلہ میں خاصے متردد ہیں ایک طرف یہ لکھتے ہیں کہ :”مردوں کے لئے عورت کا ستر ہاتھ اور منہ کے سوا پورا جسم ہے عور ت کو ایسا باریک یا چست لباس نہیں پہننا چاہیے جس سے بدن اندر سے چھلکے یا بدن کی ساخت نمایاں ہو حضرت عائشہ ؓ کی راویت ہے کہ ان کی بہن اسماءبنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں حضور نے فورا منہ پھیر لیا اور فرمایا ” اسماءجب عورت بالغہ ہو جائے تو جائز نہیں ہے کہ منہ اور ہاتھ کے سوا ان کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے “۔ (ابو داﺅد )

(تفسیر سورہ نور طبع اول محرم ۳۸۳۱ءص ۵۰۱۔۴۰۱)آگے یہ روایت نقل کرتے ہیں :

حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ان کے رضاعی بھائی عبداللہ بن الطفیل کی صاحبزادی آئی ہو ئی تھیں ۔ رسول اللہ گھر میں تشریف لائے تو انہیں دیکھ کر منہ پھیر لیا ۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ یہ میری بھانجی ہے ۔ آپ نے فرمایا جب عورت بالغ ہو جائے تو اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ ظاہر کرے اپنے منہ کے سوا اور اپنے ہاتھ کے سوا اور ہاتھ کی حد آپ نے اس طرح بتائی کہ خود اپنی کلا ئی پر ہاتھ رکھا ۔ مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان صرف ایک مٹھی کی جگہ تھی “۔

ان واضح روایات کو وہ تسلیم کرتے ہیں پھر اصرار کرتے ہیں کہ منہ ڈھکا ہوا ہونا چاہیے ۔
بہر حال فقہائے حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے جو کچھ تسلیم کیا ہے وہ مولانا مودودی ہی کے الفاظ میں ہم لکھ دیتے ہیں ۔

”بعض مفسرین نے ماظھر منھا کا مطلب لیا ہے مایظھر ہ الا نسان علی العادة الجاری ”جسے عادة انسان ظاہر کرتے ہےں “اور پھر وہ اس میں منہ اور ہاتھوں کو ان کی آرائشوں سمیت شامل کر دیتے ہیں یعنی ان کے نزدیک یہ جائز ہے کہ عورت اپنے منہ کو اور سرمے اور سرخی پاﺅڈر سے اور اپنے ہاتھوں کو انگوٹھی ، چھلے اور چوڑیوں اور کنگن وغیرہ سے آراستہ رکھ کر لوگوں کے سامنے کھولے پھر ے یہ مطلب ابن عباس اور ان کے شاگردوں سے مروی ہے اور فقہائے حنفیہ کے ایک اچھے خاصے گروہ نے اسے قبول کیا ہے “۔

(احکام القرآن ج ۳ ص ۹۸۳ ۔ ۸ ۸۳ بحوالہ تفسیر سورہ نور ص ۶۰۱ طبع اول ۱۸۳۱ء)

مولانا نے پردہ نام کی ایک کتاب بھی لکھی ہے اور وہاںبھی انداز ایسا ہی متردد ہے اور آخر میںکہہ جاتے ہیں کہ ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہیے کہ جہاں عورت کو میلی نظر سے دیکھنے کے لئے دو آنکھیں انھیں وہاںانہیں نکالنے کے لئے پچاس ہاتھ بھی اٹھ جائیں ۔ مولانا کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے ۔

ان تصریحات کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ اسلام نے کہیں بھی یہ حکم نہیں دیا کہ عورت کو گھروں میںبند رکھا جائے اور اگر انتہائی مجبوری کے عالم میں اسے گھر سے نکلنے کی اجازت بھی دی جائے تو برقع کی صورت میںاسے پنجرے میںہی بند باہر بھیجا جائے جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے گھر میںبندرکھنا تو قرآن حکیم کے نزدیک ایک سزا ہے جو زن فاحشہ کے لئے تجویز کی گئی تھی جسکا ذکر سورہ نساءمیں آچکا ہے ۔

مگر ملائیت کے غلبہ نے خاتون کے لیے نئی اصطلاحات وضع کر دیں،خود لفظ عورت کے معنی ہیں ڈھانپ کر رکھی جانے والی ۔ شرمگاہ اور وہ اعضا ءجنہیں ڈھانپ کر رکھا جائے انہیں ” عورت “ کہا جاتا ہے مگر اسی لفظ کو خاتون کے معنی دے دیئے گئے تاکہ ذہنوں میں تصور واضح ہوجائے کہ صفت نازک ساری کی ساری سرکی چوٹی سے پیر تک چھپا کر یا ڈھانپ کر رکھی جانے والی چیز ہے “ اسکے ساتھ ہی دیکھئے ” گھر “ سے بھی بیوی مراد لی جاتی ہے کیونکہ عقیدہ ہے کہ وہ گھر میں مقید رکھی جانے والی مخلوق ہے دکن کی اردو میں ” گھر “ بیوی کو ہی کہا جاتا ہے ۔ پشتو میں گھر کو ”کور “ کہتے ہیں اور بیوی کو بھی ”کور “ کہتے ہیں ۔ عورت کے ساتھ دوسرا لفظ مستورات رائج ہو گیا جس کے معنی چھپی ہوئی چیز کے ہیں۔

رسول اللہ کے عہد سعادت میںعورتوں نے زندگی کے ہر میدان میں انتہائی جاندار کردار سر انجام دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک عرصہ سے ہمیں پڑھایا جا ہا ہے کہ

”حصول علم ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے “اگر عورت کو گھر میں بند کر کے ہی رکھنا ہے تو علم کہاں سے حاصل کریگی اور پھر علم اس کے کس کا م آئیگا کیا وہ ساری عمر کھانے پکانے کی ترکیبیں ہی سیکھتی اور پڑھتی رہیگی ۔گھر کے بند ماحو ل میں عورت کے ذہن میں وہ وسعت کبھی نہیں آسکتی جو ایک اچھی ماں بننے کے لئے ضروری ہے ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے