
یہ عالم خوف کا، دیکھا نہ جائے
یہ عالم خوف کا، دیکھا نہ جائے
محمود اچکزئی سے لے کر حضرت ِ عطاالحق قاسمی تک تمام ہمدردان ِ نون نے اپنی جمہوری حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ 23جون کو وہی سلوک کرے جو فوجی حکومت نے نواز شریف کے ساتھ کیا تھایعنی پاکستان پہنچتے ہی انہیں ڈی پورٹ کردیا جائے ۔ طاہرہ سید کی غزل میں تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ(یہ عالم خوف کا ، دیکھا نہ جائے ۔وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے)
یہاں تک توساری دانائیاں متفق ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری سلطنتِ علم و قلم کے صاحبانِ اقتدار میں سے ہیں۔قلم پکڑتے ہیں تو کاغذ موتیوں سے بھر جاتے ہیں۔بولتے ہیںتو سماعتیں مسحور ہوجاتی ہیں۔ آسماں اتنا مہرباں ہے کہ لاکھوں افراد ان کے نقشِ کفِ پا کونجاتِ دوجہاں کاراستہ سمجھتے ہیں۔ابلاغ کے حاملان جبہ و دستار جن کی اکثریت ڈاکٹر طاہر القادری کے فقر اور فقیری کو تسلیم نہیں کرتی میں نے ان کے ہونٹوں سے بھی ایسے جملے پھسلتے ہوئے دیکھے ہیں کہ معاملاتِ مملکت میں ڈاکٹر طاہر القادری جو کہہ رہے ہیں۔ ہے تو وہی سچ۔حتی کہ انتخابات کے نتائج دیکھ کر عمران خان کو بھی یہی کہنا پڑگیا تھاکہ ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے۔
اور اب 23جون۔۔ ایسا لگتا ہے اسلام آبادکے دل میں دھڑکتاہوا’ دھرنا‘جس کے خاتمہ کیلئے پیپلز پارٹی کی حکومت کو دا م ِ ہم رنگ ِ زمیں بچھانا پڑگیا تھا۔ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ تبدیلی کے ڈی چوک سے گھروں کی طرف گئے ہوئے لوگ ابھی راستے میں ہیں۔تحریک انصاف کے وہ کارکن جنہیں دکھ تھاکہ ان کی خواہش کے باوجودد عمران خان اس ’دھرنے‘ میں شریک نہیں ہوئے تھے جہاں سے روشنی طلوع ہوسکتی ہے ۔وہ بنی گالہ کی طرف چل پڑے ہیں یقیناً اس مرتبہ عمران خان گذشتہ غلطی کو نہیں دھرانے دیںگے۔ عمران خان بھی جانتے ہیںکہ مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔
ان دنوں بس یہی ایک سوال پریشانی کی گلی کوچوں میں چکراتا پھر رہا ہے کہ وہ نام جس کیلئے 23جون کے دن کو تکلیفِ انتظار دی گئی ہے اس سے نون لیگ اتنی خائف کیوں ہے ۔ ایسا کیوں ہے کہ صرف ایک مرتبہ غارِ حرا تک جانے کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری نواز شریف کے کاندھوں پر تھوڑی دیر کیلئے سوار ہوئے تھے مگر پھر کبھی ان کے اعصاب سے اترے نہیں کر سکے۔ ان دنوں ان پر لگائے گئے جن پرانے الزامات کی حکومتی وسائل چیخ چیخ کرمنادی کر رہے ہیںکہ دنیا جنہیں شیخ الاسلام سمجھتی ہے وہ سچ نہیں بولتے۔
آئیے اس سلسلے میں نون لیگ کی طرف سے فراہم کئے گئے ثبوتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کہا جارہا ہے ادارہ منہاج القرآن کے قیام کے حوالہ سے خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو بشارتیں ڈاکٹر طاہر القادری کو حاصل ہوئیں۔وہ انہیں حاصل ہو ہی نہیں ہوسکتیں۔میں نے نون لیگ کی اِس غیب دانی پر کافی دیر تک سوچا تو یادداشت نے کہا اگر نوازشریف کودربارِ رسالت سے گنبدِ خضرا کے اندر داخل کی اجازت مل سکتی ہے توڈاکٹر طاہر القادری کو خواب میں زیارتِ رسولؐ کیوں نصیب نہیں ہوسکتی۔
یہ الزام بھی بہت دھرا یا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری پر جو قاتلانہ حملہ ہوا تھا عدالت نے اسے غیر حقیقی اور ڈرامہ قرار دیاتھا۔پرویز رشیدنے اسی واقعہ کے تناظر میں ارشاد فرمایاکہ ’’طاہر القادری نے1990میںبکرے کا خون استعمال کرکے ڈرامہ کیاتھا‘‘شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ دن کوجس بکرے کا خون عدالت کو فراہم کیا گیا تھا، رات کو اسی بکرے کا گوشت ،نون کی نوکیلی سلاخوں میں پرو کر بھونا گیا تھا۔قصہ یہ تھاڈاکٹر طاہر القادر ی کی کردار کشی کرنے والوں کی ایما پرایس پی ملک محمد اشرف نے لیبارٹری رپورٹ کیلئے بکرے کا خون فراہم کیا تھااور اس کے ساتھ ہی یک رکنی ٹربیونل کی سربراہی سے جسٹس فضل کریم ہٹا کر اس کی جگہ اختر حسین کو سربراہ بنایا گیا تھاتاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔
ایک الزام یہ بھی بہت زیادہ لگایا جارہا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے توہینِ رسالت کے قانون میں اہم کردار اداکیا تھا اور ڈنمارک میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا اس قانون بنانے میں کوئی کردار نہیں۔یہ گفتگو صرف سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کی جارہی ہے ،تفصیل سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتاہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ توہین رسالت کا قانون ہونا چاہئے اور اس کے بننے پر میں نے خوشی کا اظہار بھی کیا تھامگر بعد جب قانون کے مسودہ کا مطالعہ کیاتو مجھے درست نہیں لگا میں اُس قانون پر تحفظات رکھتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اس قانون نفاذ کے نظام کوخاص طورپر بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ‘‘ایک اور الزام جسے پڑھ میں بے ساختہ ہنس پڑا’’محترمہ بے نظیر بھٹونے جب ادارہ منہاج القرآن کی تاحیات رکنیت حاصل کی تھی۔
تواس وقت ان کے سر پر دوپٹہ نہیں تھایقینا پڑھنے والوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ پھیل گئی ہوگی۔ ان پر ایک اور الزام دہری شہریت کا بھی بڑی شد ومد سے لگایا گیا۔دہری شہریت کے باب میں سپریم کورٹ کا یہ اعلامیہ دہری شہریت پر چیخنے والوں کیلئے کافی ہونا چاہئے تھا جب سپریم کورٹ نے کہاججز پر دہری شہریت رکھنے کی کوئی ممانعت نہیں یعنی کوئی دہری شہریت رکھنے والا چیف جسٹس آف پاکستان بھی ہوسکتا ہے۔ابھی ابھی دو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔پہلی خبر یہ ہے21جون کو لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور الطاف حسین کی ملاقات طے ہوگئی ہے اوراس مرتبہ ایم کیو ایم پیچھے نہیں ہٹے گی۔اور دوسری خبر یہ ہے کہ شیخ رشید نے عمران خان کو راضی کرلیا ہے کہ وہ بھی 23جون کو ڈاکٹر طاہر القادری کا استقبال کریں۔یہ عالم خوف کا دیکھا نہ جائے۔

