
گردی کی دہشت
گردی کی دہشت
منصور آفاق
سب سے پہلے میں نے جس” گردی “کا نام سنا تھا وہ غنڈا گردی تھی۔میرے بستے میں بہت سارے قلم تھے ان میں سے ایک قلم ایک لڑکے مجھ سے زبردستی لے لیا تھا۔میں نے کلاس ٹیچر سے شکایت کی ۔اس نے مجھے قلم تو واپس نہیں دلایا تھامگر اس لڑکے کو ڈانتے ہوئے کہا تھا ”دیکھوہیڈ ماسٹر کے بیٹے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تم سکول میں غنڈا گردی کرو۔پھر ایک دن کافی دیر سے گھر گیاتو امی نے کہا ”کہاں آوارہ گردی کرتے رہے ہو۔یوں دوسری ”گردی “سے آشنائی ہوئی۔یہ آشنائی بہت دیر تک رہی ۔یعنی میں خاصا آوارہ گرد بچہ تھا۔کافی عرصہ تک زندگی انہی دو گردیوں کی ارد گرد گھومتی رہی ۔ پھر ایک دن ابو سے لاہور جانے کی اجازت مانگی تو کہنے لگے ”ابھی تیری عمر نہیں ”جہاں گردی “ کی ۔ یوں تیسری ”گردی سے میل ملاقات ہوئی ۔پھر جب شاعری کا وائرس مکمل طور پر روح و بدن میں پھیل گیاتو گردیوں کی بہار لگ گئی ۔دشت گردی ، کوچہ گردی ، شہر گردی ، ملال گردی ، میر تقی میر سے آنکھیں ملیں تو ”ہرزہ گردی “ تک پہنچ گئے
موقوف ہرزہ گردی نہیں کچھ قلندری زنجیرِ سر اتار کے زنجیرِ پا کرو
اور پھر ایک دن دہشت گردی علیک سلیک ہوگئی اور ایسی ہوئی کہ دل کو اور ”گردی یادہی نہ رہی ۔جس گلی گئے وہاں اِسی ”گردی“ کی گرد اڑ رہی تھی ۔یہ گردی اپنے ساتھ نئی نئی چیزیں لے آئی ۔خودکُش جیکٹیںجسم پر سجنے لگیں ۔بم کسی کے پاﺅں تلے دکھائی دینے لگے اور ریموٹ کسی کے ہاتھ میں ۔مسجدوں میں اِسی ”گردی “ مناظرے ہونے لگی ۔ کسی نے کہا کہ اسلام میں اِس گردی کی اجازت ہے ۔کسی نے اسے غیر اسلامی قرار دیا۔دانشور اِس ”گردی “ کتابیں لکھنے لگے ۔فلمیں بننے لگیں ۔بلکہ گیتوں تک آ گئی (تیرے بدن کی دہشت گردی بلے بلے )یقین کیجئے کہ پچھلے کچھ سالوں میں دہشت گردی کی اصطلاح میں نے کچھ اتنی بار سنی ہے ، اتنی بارپڑھی ہے ، اتنی بارلکھی ہے کہ اب ایسا لگتا ہے جیسے گردی کا لفظ تخلیق ہی دہشت کےلئے ہوا تھا۔ہرداستان گوکے ہونٹوں میں بس کسی نہ کسی دہشت گردی کی داستان گونج رہی ہے۔
تہذیبی دہشت گردی،تعلیمی دہشت گردی،مذہبی دہشت گردی،لسانی دہشت گردی،سیاسی دہشت گردی،اقتصادی دہشت گردی ،سرکاری دہشت گردی ،صحافتی دہشت گردی ، عدالتی دہشت گردی ، بین الاقوامی دہشت گردی ،کرپشن کی دہشت گردی ، پتہ نہیں کتنی قسموںکی دہشت گردیوں سے ہر روز صاحب سلامت ہوجاتی ہے۔کوئی اِدھر سے آتی ہے ۔کوئی اُدھر سے جاتی ہے ۔کوئی دھماکے کی آواز کے ساتھ کانوں کوپھاڑتی ہوئی ذہن کے بالکل قریب سے گزر جاتی ہے ۔کوئی ٹیلی ویژن کی سکرین سے نکلتی ہے اور بستر میں درآتی ہے۔سوچ رہا تھا کہ آئندہ کا مورخ اس عہد کو عہدِ دہشت گردی ہی لکھے گا مگرپھر یاد آگیا کہ لمحہ ءموجود کی مقبول ترین شخصیت راحیل شریف ابھی موجود ہیں جنہوںنے ہر طرح کی دہشت گردی ختم کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے ۔پھر خیال آیا کہ ضرب عضب کی کامیابی سے انکار ممکن نہیں۔پھر دماغ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو آئین کا حصہ تسلیم کرلیا ہے۔ پھر خبر آئی کہ وفاق اور پنجاب کے بعد سندھ بلوچستان اور صوبہ پختون خواہ بھی آرٹیکل 245کا نفاذ ہونے والا ہے ۔
یعنی بس ابھی دوچار دن میں آئینی فوجی عدالتیںہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف فیصلے سناسکیں گی ۔اللہ اللہ معروف ماڈل ایان علی کیس بھی انہی بندوق بکف عدالتوں میں جائے گا۔سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے شہیدوں اور زخمیوں کی پکار بھی جی ایچ کیو کی دیواروں میںگونجے گی ۔ اندھیروں اور لٹیروں کی چیخیں سنائی دیں گی ۔سٹریٹ لائٹس بجھانے والے کھمبوں سے لٹکیںگے ۔ایک اور سابق صدر دبئی سے واپس پاکستان آئے گا۔برطانیہ سے بھی کچھ لوگ آئیں گے یا کچھ لوگوں کے بدلے میںلائے جائیں گے۔وہ جو روشنی لے کر چراغوں کو بجھا دیتے تھے ان کی پڑتال ہوگی ۔
وہ جو سوچتے تھے کہ ان کی باری نہیں آسکتی ۔ان کے قلعوں کی فصیلیں فوجی منجیقوںکے گولے نہیں توڑ سکتے ۔وہ اپنی پناہ گاہوں میں محفوظ ہیں،کیونکہ فوجی عدالتیں صرف وہی کیس سن سکتی ہیں جو انہیں وفاق کی طرف سے بھیجے جائیں۔بظاہر ایسا ہی ہے مگر حقیقت میںکچھ اور ہے ۔ آرٹیکل 245کے نفاذ کے بعد اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔وہ آرٹیکل فوج کوجتنے اختیارات دیتا ہے اس پر کسی دھیان ہی نہیں دیااگرچہ یہ خطرناک سابق صدر آصف علی زرداری بھانپ لی تھی مگر کچھ نہیں کرسکے تھے کیونکہ نواز شریف اُن سے زیادہ ذہین واقع ہوئے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں راحیل شریف جو کچھ کر رہے ہیں وہی وقت کی ضرورت ہے اور راحیل شریف کی پوری توجہ مذہبی و لسانی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کرپشن کی دہشت گردی کی طرف ہے ۔ان کی طرف دو فوجی جرنیلوں کوکوپشن پر سزااس بات کا پیغام ہے کہ کسی کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔ہر طرح کی ”گردی “ گرفت میں آنے والی ہے
mansoor afaq

