یہ تو خیر طے شدہ بات ہے کہ میڈیا سے خیر کی خبر کبھی نہیں آئی لیکن گزشتہ کچھ ماہ سے نشرہونے والی خبریں اور زیادہ دل دہلانے والی ہیں ۔ایسا لگتا ہے کچھ ہونے والا ہے،کوئی طوفان،کوئی خوفناک حادثہ،کوئی ہولناک واقعہ،کوئی کرب کی دوزخ سے نکلی ہوئی تاریخ بدلنے کی ساعت،کوئی ٹوٹتی زمین کی دہشت خیز آواز،کوئی ساکت ہوتی زندگی ، کوئی پاکستان ٹیلی وژن کی ا سکرین پر چہرے بدلتی ہوئی رات،کوئی اجتماعی سماعت شکن دھماکہ…کچھ ہونے والا ہے۔ میں ایک تیز رفتار ریل گاڑی کو ایک ایسی سرنگ سے گزرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں جِس کا دوسرا دہانہ بند کردیا گیا ہے ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ کھونٹوں پر بندھے ہوئے اپنی زنجیریں توڑ کر بھاگنے کی کوشِش میں ہانپ رہے ہیں ، گھونسلوں سے پرندے نکل آئے ہیں اور اپنی اپنی بولیوں میں شور مچا رہے ہیں۔دماغوں میں افراتفری کا عالم ہے ، زمین کے پرت اُلٹ جانے کا اِمکان پیدا ہورہا ہے،پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اُڑ نے پر پر تول رہے ہیں۔ فضاء میں ایک بے رونق سُرمئی اور سُرخ بُجھا بُجھا رنگ پھیلتا جارہا ہے۔ درخت اپنی بہاروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، سوکھی ٹہنیاں اپنے استخوانی وجودلئے ساکت و جامداپنی پور پور خشک پتھرائی آنکھوں میں دہشت بھر کر آسمان کی طرف اُٹھی ہوئی ہیں،کانٹوں کی باڑیں اپنے قریب کی ہر شے سے لپٹتی جارہی ہیں۔ تیز و تند زہریلی آندھیاں ہر چیز کو جڑ سے اُکھاڑ کر بگولوں کے چکر میں جکڑنے کے موقع کی تلاش میں ہیں۔کیا یہ خوفناک قہقہے تاریخ میں بدل جائیں گے،زبانیں پتھرکی ہوجائیں گی،آنکھیں پھیل کر باہراُبل آئیں گی ،زندگی کی رمق موت کی زردی میں بدل جائے گی…. مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے….ممکن ہے کہ جو کچھ میں سوچ رہا ہوں ، دیکھ رہا ہوں ویسا نہ ہو…. کچھ اور ہو اور خدا کرے کچھ اور ہومگر یہ مصدقہ ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ….
سیاست کی جنگاہ پورے عروج پر ہے۔ہر شہر فیصل آباد بننے والا ہے۔ایک طرف موجودہ وزیراعظم اورسابقہ صدر ایک ہی مورچہ میں جمع ہوگئے ہیںاور اُن کی توپوں کا رُخ بھی ایک ہی فصیل کی جانب ہے ۔وہ فصیل جِس کے ہر بُرج اور ہر منارے پرعوام کے لشکری ایستادہ ہیں۔مورچے میں توپوں کے گولے اُٹھانے والے گلو بٹوںکی بھی کوئی کمی نہیں۔ اتحادی جماعتوں کی کمک بھی مسلسل پہنچ رہی ہے۔ سراج الحق کا سفید پرچم بھی داغ داغ ہونے والا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی آنکھیںبھی صورتِ حال کو بھانپنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتیں ۔مگر صورت حال ایسی ہے کہ رنگ بدلنا ممکن ہی نہیں رہا اور۔ بازارِ وقت میں فروخت کیلئے کوئی اور سپاہ بھی موجود نہیں۔ سوخریدار کے پاس ایک اور مارشل لا کے زنگ آلودہ اسلحہ کے سِواکوئی اور چارہ نہیں رہ جائے گا اور میرا ذاتی خیال ہے کہ اب پاکستان کسی اور مارشل لا کا متحمل نہیں ہو سکتاا س سرنگ کے آخری کنارے پر روشنی کی کرن کا تصور ہی بعید از اِمکان ہے۔
معیشت کی ستم گاہ میں زندگی کی درد انگیزکراہ طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے۔ اس کی قبا میںجا بجا بھوک کے پیوند لگے جاتے ہیں۔مہنگائی نے اس کا بند بند مضمحل کر دیا ہے ۔ روٹی کی تلاش میں نکلا ہوا بچہ چاند کی گولائی دیکھ دیکھ کراُکتا چکا ہے۔بھوک اس کا پیٹ کاٹتی جا رہی ہے۔ماں کو ہنڈیا میں پتھر ابالتے ہوئے بہت دیر ہو چکی ہے۔فاقہ زدہ دوشیزہ کو اپنی عصمت کے دام بھی پورے نہیں مل رہے۔ روکھی سوکھی کھا کر رات گزارنے والے سفید پوش صرف پانی پر عمر گزارے جا رہے ہیں ۔ماہانہ پانچ ہزار روپے تنخواہ لینے والاچار بچوں کا باپ خودکشی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔غربت آخری احتجاج کیلئے سڑکوں پر آنے والی ہے اور خدا نخواستہ اسے کالے بوٹوں تلے روند دیا گیاتو کیا ہوگا۔کچھ ضرور ہوگا کہ کچھ ہونے والا ہے
شدت پسندوں کے نام سے جو ہر گلی کو لہورنگ کرنے کا جو کام شروع کیا گیا تھا افواجِ پاکستان نے بڑی حد تک اس پر کنٹرول کرلیا ہے مگرانسانی خون تو پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے ۔مذہب کی آڑ میںسروں کی بیچ بونے والے یہ نہیں جانتے کہ جہاں سر بوئے جاتے ہیں وہاں دماغوں کی فصل اگ آتی ہے۔اور اس وقت پوری قوم کے سروں میں دماغ جاگ پڑے ہیں جو بار باررانا ثنااللہ سے کہہ رہے ہیں کہ کچھ ہونے والا ہے ۔علم کی درس گاہ میں نصاب سے روشنی کے وہ تمام ورق نکال لئے گئے ہیں جو سچائی کی کھوج میں نکلنے والوں کی رگوں میں لہو کی رفتار کو تیز کرتے تھے۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس نصاب کو پڑھ کر پروان چڑھنے والی نسلیں اپنی سرحدوں کا دفاع کیسے کریں گی۔ شاید پھر نصاب بدلنے والا ہے۔کچھ نئے نصاب لکھنے والے قلم اپنے کان پر رکھ کر حرکت میں آنے والے ہیں۔ کچھ ہونے والا ہے۔ہاںمیں نا امید نہیں ہوں۔۔ مجھے اس پتھرائی ہوئی زندگی میں’گو گو‘ کی صورت میں کسی نومولود بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔