
کچھ سیاسی شاعری
کچھ سیاسی شاعری
آصف علی زرداری جب صدر ہوا کرتے تھے تو کبھی کبھار ان کے حوالے کوئی نہ کوئی شعر سرزد ہو جاتا تھا مگر ان کے تمام دورِ اقتدار میں ان کے حوالے کہے گئے اشعار کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ۔ایک بار جب کسی بات پر بہت تکلیف ہوئی تو کہا تھا:
میں جنابِ صدر ملازمت نہیں چاہتا
مگر اب فریب کی سلطنت نہیں چاہتا
مرا دین صبح کی روشنی مری موت تک
میں شبوں سے کوئی مصالحت نہیں چاہتا
میں حریصِ جاہ و حشم نہیں اِسے پاس رکھ
یہ ضمیر زر سے مباشرت نہیں چاہتا
پھر ایک بار ایک نظم کہی تھی جس میں آصف زرداری کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری بھی موضوعِ سخن بن گیا تھا:
تُو ماں کی لاش سے اونچا دکھائی دیتا ہے
ترے مقام سے وحشت ترے وقار پہ تف
مگر جب سے نواز شریف کی حکومت آئی ہے ۔میں حیران ہوں ان کے حوالے خود بخود بے شمار اشعار ہورہے ہیں ۔ابھی جب سٹیل ملک کے فروخت کرنے کی خبر آئی توایک نظم ہوئی اس میں تین اشعار درج کر رہا ہوں:
پہنچنے والی ہے انگریز کی گرانٹ ابھی
بچا جو دیس میں تھوڑا بہت ہے بانٹ ابھی
میں تیری فونڈری بیچوں گا وقت آنے پر
تُو میرے بیج دے اسٹیل کے پلانٹ ابھی
تجھے کلاس کے کچھ چور مل بھی سکتے ہیں
فریب کار بہت ہیں کچھ اور چھانٹ ابھی
پھر جب حکمرانوں میں ایک اور’’ شریف‘‘کا اضافہ ہوا تو ایک نظم ہوئی۔اس کے بھی تین اشعار دیکھ لیجئے:
ہر ایک جرم ، بنام شریف زندہ باد
بڑے ہی نیک خرابوں کے چیف زندہ باد
یہ خونخواردھماکے تجھے مبارک ہوں
او دشمنانِ وطن کے حلیف زندہ باد
تباہ حال کرنسی پہ نعرۂ تکبیر
نئی معاش کی صبحِ لطیف زندہ باد
ابھی گذشتہ دنوں جب کوئٹہ میتوں کے ساتھ احتجاج ہورہا تھا تو ایک اور غزل ہوئی:
تہذیب کو فرسودہ دلائل سے نکالو
مرتے ہوئے لوگوں کومسائل سے نکالو
تم ملک خدا داد کا لوٹا ہوا گلشن
اب زردمعیشت کے خصائل سے نکالو
خیرات پہ جینا توکوئی جینا نہیں ہے
اک تازہ سحر اپنے وسائل سے نکالو
قانون کو نافذ کرو ہر ایک گلی پر
تم قاتلوں کو اپنے قبائل سے نکالو
منصور لٹیروں کو سرِعام دو پھانسی
اب دیس کرپشن کی شمائل سے نکالو
ابھی یہ غزل کہی ہوئی تھی کہ ایک اور غزل ہونے لگی ۔
دیارِ گل میں بھیانک بلا ئیں حاکم ہیں
طلسمِ شب ہے سحر تک بلا ئیں حاکم ہیں
سفید پوش ہیںسہمے ہوئے مکانوں میں
گلی میں پھرتی ہے کالک بلائیں حاکم ہیں
یہاں سے ہجرتیں کرنی ہیں خوش دماغوں نے
یہاں ہے موت کی ٹھنڈ ک بلا ئیں حاکم ہیں
یہ گفتگو سے سویرے طلوع کرتی ہیں
وطن پہ رات کی زیرک بلائیں حاکم ہیں
نکل پڑے ہیں ہزاروں سگانِ آدم خور
کھلے ہیں موت کے پھاٹک بلا ئیں حاکم ہیں
وہ ساری روشنیوں کی سہانی آوازیں
تھا اقتدار کا ناٹک بلا ئیں حاکم ہیں
جو طمطراق سے جالب کے گیت گاتی ہیں
وہ انقلاب کی گاہک بلائیں حاکم ہیں
کسی چراغ میں ہمت نہیں ہے جلنے کی
بڑا اندھیرا ہے بے شک بلا ئیں حاکم ہیں
سعودیہ سے ہواہے نزولِ پاک ان کا
چلو وطن میں مبارک بلا ئیں حاکم ہیں
خدا کے نام دھماکے نبیؐ کے نام فساد
بنامِ دین ہے بک بک بلائیں حاکم ہیں
یہ مال و زر کی پجاری ہیں وقت کی قارون
نہیں ہے مذہب و مسلک بلائیں حاکم ہیں
نظر نہ آئیں سہولت سے آنکھ کو منصور
لگا کے دیکھئے عینک بلائیں حاکم ہیں
مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف آئے دن کچھ نہ کچھ نازل ہوتا رہے گا۔ ان کے حالات بہت خراب ہیں۔
mansoor afaq

