
کمیشن خطرناک ہے
کمیشن خطرناک ہے
اس وقت رات کے بارہ بجنے والے ہیںوزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے ایڈوائز برائے انرجی شاہد ریاض گوندل ابھی ابھی برمنگھم سے لندن روانہ ہوئے ہیں۔ایک محفل میں تقریباًچار گھنٹے انہوں نے مختلف سوالوں کے جواب دئیے ۔تمام سوال پنجاب حکومت کے حوالے سے تھے ۔ہر سوال کا جواب انہوں نے بڑے اعتماد سے دیا مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن پرجواب دیتے ہوئے وہ صرف یہ بات کہہ کر بات بدل لیتے تھے کہ شہباز شریف کا ذاتی طور پر اس واقعہ میں کوئی قصور نہیں۔یہ واقعہ دراصل ان کے خلاف ایک سازش تھی جو بہت جلد بے نقاب ہوگی ۔یقیناسانحہ ماڈل ٹاؤن کے قاتل اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
یقین مجھے بھی ہے کہ قاتل اپنے انجام کوپہنچیں گے مگرایسا موجودہ حکومت میں ممکن نہیں ۔یہ حکومت جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے۔وجود میںآئی ہے اور مسلسل چل رہی ہے ۔بلکہ پاکستان بننے سے پہلے بھی یہی حکومت تھی۔ ہاں البتہ چہرے بدلتے رہے ہیں لوگ نہیں ۔برسوں سے ایک مخصوص طبقے نے سرزمینِ پاک پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔بس یہی لوگ مختلف شکلیں بدل بدل کر حکومت کرتے رہتے ہیں۔اسی طبقے نے سب سے زیادہ اس ملک پر فوج کو مسلط رکھا ہے ۔غور کیجئے کہ وہ تمام لوگ جو فوجی حکمرانوں کے دور میں اقتدار میں رہتے ہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔وہ تمام آپ کو اقتدار کے ایوانوں میں نظر آئیں گے ۔یہ سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں ۔دولت اور طاقت سے مضبوط اور کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔اس قبیلے نے اپنے رشتہ دار عمران خان کے اردگرد بھی جمع کر رکھے ہیں مگرعمران خان کو اللہ تعالیٰ نے بے پروائی کا بھی تھوڑا ساوصف دیاہے۔ اسے عوام کے سوا کسی کی کوئی پرواءنہیں ۔سرمایہ دار اور جاگیر دار اس کی جنبشِ آبرو پر حرکت میں آتے رہیں تو ٹھیک ہے وگرنہ اس کی آنکھیں تو ہمیشہ ماتھے پر رہتی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ فائدہ اور نقصان کا معاملہ اس نے اللہ پر چھوڑ رکھا ہے ۔
انتخابی دھاندلی کی کوکھ سے نکلنے والا تاریخ کا طویل ترین دھرنا کہاں منتج ہونا ہے۔عمران خان کو اس کی بھی پرواء نہیں۔اور یہ بھی طے ہے کہ اسے شاہوں سے توقع نہیں مگر زنجیر ہلاناتو اس کا حق ہے۔اس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے تحقیقات کرائی جائے کہ دھاندلی ہوئی ہے یا نہیں۔اگر ثابت ہوجائے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو نواز شریف استعفیٰ دے دیں اور ثابت نہ ہو ا تو تحریک انصاف دھرنا ختم کردے گی۔پیپلز پارٹی کی طرف سے سراج الحق کو دی جانے والی عمران خان کی اس آفر کوایک اچھی تجویز اورخوش آئند قرار دیاگیا ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے زیر نگرانی بننے والے کمیشن میںایم آئی اور آئی ایس آئی کے ممبران کو بھی ضروری قرار دیا ہے پھر یہ کہا تھا کہ اس کمیشن کا سربراہ غیر جانب دار آدمی ہو۔
یہی بات تیرہ اگست وزیر اعظم نواز شریف نے کچھ یوں کہی تھی”کہ ملکی صورتحال کا جائزہ لینے اور اجتماعی سوچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ 2013 کے انتخابات کے بارے میں لگائے گئے الزامات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا ایک کمیشن قائم کیا جائے اور اس مقصد کیلئے حکومت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کرے گی کہ وہ عدالت عظمیٰ کے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیں جو ان الزامات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے۔“
بظاہر تو عمران خان اور نواز شریف ایک ہی بات کہہ رہے ہیں مگر مجھے نہیں لگتا کہ حکومت اس بات پر تیار ہوگی۔اگر حکومت کمیشن بنانے میں سنجیدہ ہوتی تونوازشریف کا اعلان ہوا نہ ہو گیا ہوتا۔ سوچئے تین ماہ پہلے نواز شریف نے کہا تھا مگرحکومت نے ابھی تک چیف جسٹس کوایسی کوئی درخواست نہیں بھیجی۔پھر ایک غیر جانب دار کمیشن اور اس میں آئی بی اورآئی ایس آئی کے لوگوں کی شمولیت،چھوڑئیے !حکومت اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی کیسے چلاسکتی ہے۔ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ یہ اعلان کرکے عمران خان نے موجودہ حکومت کی عوام میں رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دی ہے۔کمیشن بناتی تو اس کا فیصلہ اسے معلوم ہے اور نہیں بناتی تواور خراب ہوتی ہے کہ خود نواز شریف نے اس کمیشن کے بنانے کا اعلان کیا تھا۔
میں نے شاہد ریاض گوندل سے کہا کہ مبارک ہو عمران خان نواز شریف کے فوری استعفیٰ سے دست بردار ہوگئے ہیں تو وہ کہنے لگے۔کمیشن بنانا اور خطرناک ہے۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح حکومت کے خلاف پھر کوئی سازش ہوسکتی ہے۔کمیشن کو دھاندلی کے جعلی ثبوت فراہم کرکے حکومت کے خلاف فیصلہ کرایا جاسکتا ہے۔میں نے حیرت سے پوچھا حکومت آپ لوگوں کی ہے جعلی ثبوت کون فراہم کرے گا تو کہنے لگا۔حکومت ہماری ہے اور ماڈل ٹاون میں چودہ آدمی قتل کر دئیے گئے۔میں تمہیں پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ شہباز شریف نے نہیں کرائے تو سوال پیدا ہوتا ہےناکہ کس نے کرائے۔

