ڈی چوک. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

ڈی چوک

ڈی چوک

شیخ رشیدنے غلط نہیں کہاکہ’ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان 14 اگست کو ’’ڈی چوک‘‘ میں اکٹھے ہونگے۔ عید کے بعدواقعی دما دما مست قلندر کی گونج دور دور تک سنائی دے گی ۔ حکومت رانا ثنااللہ خان کے بعد پارلیمانی سربراہ اور ایک وزیر کی قر بانی کیلئے بھی تیار ہے مگراب بہت دیر ہو چکی ہے۔ قوم بڑی قربانی مانگ رہی ہے‘ اورجو اپوزیشن جما عت مبینہ طور پرڈی چوک پرنہیںآئیگی۔ اس کی قسمت میںذلت کے سوا کچھ نہیں آئے گا‘۔میں جب بھی’’ ڈی چوک‘‘ کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے تحریر اسکوائر یاد آجاتا ہے۔تحریرا سکوائر سے میری ملاقات نجیب محفوظ کی وساطت سے ہوئی تھی۔ نجیب محفوظ بھی ایک عجوبہ تھا۔مصرمیںایک تو وہ اہرام ِ ہے جس کے سائے میں ہزاروں سال کی آسیب زدہ تاریخ کروٹیں لیتی ہے، جس کے باطن کی بھول بھلیوں میں سر بستہ اسرارروز کسی نئی کہانی کے تہہ خانے کی سیڑھیوں سے کوئی اینٹ سرکا دیتے ہیں اور کوئی خوف زدہ کرنے والا شگون جاگ اٹھتا ہے مگر مصر میں ایک اِس سے بھی عظیم تر ’’برے شگون کا دائرہ‘‘ ہے ۔ جہاں سے نجیب محفوظ نمودار ہوا۔ قاہرہ کے تحریر اسکوائرکا وہ سبز لان جہاں عادل، کامل احمد ذکی مخلوف اورقاہرہ کے کچھ اہل قلم نوجوان سال ہا سال تک بیٹھتے رہے۔ یہ نوجوان گھاس پر ایک دائرے کی صورت میں بیٹھتے تھے اوراس بیٹھک کا نام ا نہوں نے’برے شکون کا دائرہ ـ‘رکھا ہوا تھا۔اپنے ہم عصر نوجوان قلم کارروں کیساتھ اس وقت نجیب محفوظ کی غمگین گفتگوادب اور زندگی کی غیر مقصدیت پرمحیط ہوتی تھی۔وہ خواب لکھا کرتے تھے ۔انہی خوابوں نے انہیں نوبل انعام کا حقدار بنا دیاتھا ۔نجیب محفوظ کی شخصیت کے فکری دھارے اگرچہ اس کی زندگی کسی بڑی تبدیلی کا سبب نہ بن سکے تو مگر نجیب محفوظ کے ہاں آکرجو مابعد از طبیعات اور سائنسی سماجیات آپس میں کھل مل گئی تھیںاس نے آخر کارجنوری 2011ءمیں مصر میں عوامی بیداری کی ایک تحریک نے جنم دیا۔ عوام حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف گھروں سے باہر نکل آئے۔ قاہرہ کا تحریر ا سکوائر تبدیلی کے خواہشمند لوگوں کا ٹھکانہ بن گیا۔اٹھارہ روزہ احتجاجی دھرنے میں 300سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔مصر ی حکومت نے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے اپنے شہریوں کے بارے میں کوئی اعداد و شمار مرتب نہیں کیے تھے۔لاشیں مختلف شہروں کے مردہ خانوں بھیج دی گئی تھیں ۔ صرف تحریر اسکوائر دو سو ستانوے لوگ مارے گئے جن میں زیادہ تر گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔یہ وہ لوگ تھے جو تحریرا سکوائر پر موجود فوجی گاڑیوں کے پہیوں کے سامنے لیٹ گئے تھے ۔انسانی دائرہ بنایا تھا جوموت کا دائرہ بن گیا۔ وہی نجیب محفوظ والا برے شگون کا دائرہ۔

اگرچہ چودہ اگست اسلام آباد کے ڈی چوک پر جمع ہونے والوں کے پیچھے کوئی نجیب محفوظ نہیںڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان ہیںمگر مجھے یہ ڈی بھی وہی برے شگون کا نیم دائرہ بنتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔چودہ لاشیں پہلے جمہوریت کے اس ڈی چوک پر پڑی ہیں۔انہیں دفنانے کی بجائے دوچار سو اور لاشیں سجانے کا پروگرام بنانیوالی حکومت کے بارے میں کیا سوچا جائے۔حیران ہوں حکمرانوں کے مشیروں پر۔ایسا ایسا نادر مشورہ دیتے ہیں کہ آنکھیں پھٹ جاتی ہیں۔ذرا سوچئے کہ اس دانشور کے متعلق جس نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ چودہ اگست پر ڈی چوک پرعظیم الشان تقریب کی جائے۔جشن مناناجائے کہ افواج پاکستان نے شمالی وزیرستان میں عظیم الشان فتح حاصل کی۔دشمن کے مرنے پر بھرپور خوشی منائی جائے ۔وہاں ملک بھر سے نون لیگ کے کارکن وہاں جمع کئے جائیںاور یہ تقریبِ جشن دو ہفتوں تک جاری رہے ۔کیا کہنے ۔واہ واہ۔یقینا وہاں حکومت دوچار لاکھ لوگ جمع کرلے گی لیکن جب عمران خان کا آزادی مارچ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا انقلاب وہاں پہنچے گاتو کیا صورت حال ہوگی۔یہی کہ ڈی چوک پانی پت کا میدان بن جائے گا کہ کشتوں کے پشتے لگ جائینگے۔لہو کی ندیاں بہیں گی ۔اسپتال بھر جائیں گی۔یعنی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ۔ڈی چوک ،تحریر اسکوائر بن جائیگا۔پھریہ جنگ ڈی چوک سے نکل کر پورے اسلام آباد میں پھیل جائے اور پھروہاں سے یہ خوفناک وبا پورے ملک کو اپنے گھیرے میں لے لے گی۔

ہر طرح آگ ہی آگ ہوگی اورچین کی بانسری کے دھیمے دھیمے سُر دور دور پھیل رہے ہونگے ۔ اللہ تعالی پاکستان کو اُس دن سے محفوظ رکھے لیکن خدانخواستہ اگر کوئی ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو کیا ہوگا۔مجبوراً لاقانونیت کو روکنے کیلئےکسی ماورائے قانون اقدام کی ضرورت پڑے گی ۔پھر یہی لوگ یہ الزام لگاتے پھر رہے ہونگے کہ عمران خان کی سونامی جسے اب آزادی مارچ کا نام دیدیا گیا ہے اور ڈاکٹر طاہر القادری کے جمہوری انقلاب کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچا ہےجس نے بھی نون لیگ کی حکومت کو یہ مشورہ دیا ہے۔اس سےبڑا خیر خواہ نواز شریف کا اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے