
ڈاکٹر طاہرالقادری کے وزیراعظم عمران خان
ڈاکٹر طاہرالقادری کے وزیراعظم عمران خان
سوال یہ ہے کہ چودہ اگست دوہزار چودہ کی صبح کیسی تبدیلیوں کے ساتھ نمودار ہوگی۔14 اگست،یہ وہ دن ہے جب دنیا میں ایک نئی قوم کی تخلیق ہوئی تھی۔جب وقت صدیوں کرب کے دوزخ میں تڑپ تڑپ اٹھا تھا، تب جا کر کہیں یہ ساعتِ پُرنور و ضیاء بخش نمودار ہوئی تھی جو ایک نئے عہد کی تمہید بنی۔نیا عہد،مگر کس کا۔چند حاکموں کا یا مظلوم عوام کا….. ہر سال جب چودہ اگست آتا ہے بڑی بڑی تقریبات ہوتی ہیں، نئے نئے نغمے لکھے اور گائے جاتے ہیں، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، پرچم لہرائے جاتے ہیں مگر عمران خان نے کہا ہے اس سال لوگ اپنے دامن کی دھجیوں سے جھنڈیاں اور پرچم بنائیں گے یعنی ہر جھنڈی اور ہر پرچم پر کچھ سوال درج ہوں گے۔ صرف یہی سوال نہیں لکھے ہوں گے کہ نواز شریف نے وقت سے پہلے فتح کی تقریر کیسے کی؟ انتخابات میں سابق چیف جسٹس کا کیا کردار تھا؟ نگران حکومت نے کیا کارنامے سرانجام دیئے تھے۔ 35 حلقوں میں نتائج کس نے تبدیل کرائے تھے۔ ان پرچموں پر ماڈل ٹائون لاہور میں شہید ہونے والی عورتوں کی آنکھیں بنی ہوں گی۔ شہید مردوں کے چہرے ہوں گے جو چیخ چیخ کر اپنے قاتلوں کا نام بتا رہے ہوں گے۔ دس لاکھ پرچم تو صرف تحریک انصاف کے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہوں گے اور ڈاکٹر طاہر القادری؟
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ملک بھر میں تقریباً ایک لاکھ کے قریب کارکن ہیں وہی ہر جگہ احتجاجی جلسوں، جلوسوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔اگر بات یہیں تک ہوتی تو ڈاکٹر طاہر القادری کی فلائٹ ای کے چھ سو بارہ کے اسلام آباد ایئرپورٹ کے ساتویں چکر پرحکومتِ وقت گھبرا نہ گئی ہوتی۔ ایک لاکھ لوگوں کو تو ان کے شہروں میں بھی محصور کیا جا سکتا تھا۔ حکومت اگر چار پانچ سو کے قریب تحصیل کی سطح کے شہروں کی پولیس سے کہہ دیتی کہ جو دو تین سو لوگ منہاج القران سے تعلق رکھتے ہیں انہیں فلاں دن شہر سے نکلنے نہ دیا جائے تو ڈاکٹر طاہر القادری کے استقبال کیلئے کوئی بھی موجود نہ ہوتا مگر حکومت کو معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ حکومت اس سے کہیں زیادہ خوفناک احکامات ہر تھانے کے ایس ایچ او کو دے چکی تھی۔ ہزاروں لوگ گرفتار کئے جا چکے تھے۔ بے شمار قافلے روک لئے گئے تھے، جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں۔موٹر وے اور تمام بڑی سڑکیں بلاک کردی گئی تھیں۔ اس سے پہلے دو تین سو لوگوں پر گولیوں برسائی گئی تھیں تاکہ لوگوں میں اس بات کا خوف بھی موجود رہے کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کی حمایت کیلئے نکلے تو مر بھی سکتے ہیں۔ اس کے باوجود راولپنڈی ایئرپورٹ کے اردگرد موجود لوگوں کی تعداد کے متعلق غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ کم از کم ڈیڑھ دو لاکھ آدمی وہاں موجود تھے۔
اگر اتنی پکڑ دھکڑ کے باوجود اتنے لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کے استقبال کیلئے جمع ہو سکتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ موجودہ حکومت کا خوف بے سبب نہیں تھا۔ منہاج القران والوں کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک ہزار چھوٹے بڑے شہروں میں ڈاکٹر طاہر القادری کے چاہنے والے موجود ہیں اور ہر شہر میں ان کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے یعنی کم از کم دس لاکھ لوگ ڈاکٹر طاہر القادری کی آواز پرلبیک کہنے والے موجود ہیں یعنی چودہ اگست کو صرف عمران خان کے ملین کارکنوں کے ہاتھوں میں سوال نہیں لہرا رہے ہوں گے تقریباً اتنے ہی ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن بھی ان کے ہمرکاب ہوں گے۔
حکومت میں آنے سے پہلے بھی پنجاب کے حکمرانوں کو یہی خوف تھا کہ اس ملک میں کسی وقت بھی خونی انقلاب آ سکتا ہے انہوں نے کئی مرتبہ کہا کہ غربت اور امارت میں بڑھتے ہوئے فاصلے کم نہ کئے گئے تو اس ملک میں ایک خونی انقلاب آجائے گا بلکہ وہ ہر فنکشن میں اس نظام ِ زر کی تباہی کا نوحہ عطاالحق قاسمی کی زبان سے سناتے تھے کہ اس نظام ِ زر کو اب برباد ہونا چاہئے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی زبان سے انقلاب کا نعرہ سن کر شاید ان کو وہی انقلاب یاد آگیا تھا کیونکہ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے دورِ حکومت میں غریب مسلسل غریب تر اور امیر مسلسل امیر تر ہوتے چلے جارہے ہیں ۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اُس خونی انقلاب کا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پُرامن انقلاب سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دونوں رہنما خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر تبدیلی کے خواہاں ہیں۔
میرے نزدیک تو سانحہ ماڈل ٹائون کا لہو حکومت کے خاتمہ کیلئے کافی ہے ۔یہ جو اس سلسلے میں اے پی سی بلائی گئی ہے۔ حکومت کیلئے یہ بھی کسی خطرے سے کم نہیں۔ مجھے لگتا ہے اسی سال نئے انتخابات ہوں گے… اور آئین کے مطابق امیدواروں کی اسکروٹنی ہوگی۔ چور اور ڈاکو الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ کم از کم ستّر اسّی فیصد موجودہ سیاستدان اپنے حلقوں کیلئے نئے امیدوار ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے۔ یہ وہ انقلاب ہوگا جو عام آدمی کو ووٹ دینے کے ساتھ ساتھ ووٹ لینے کا حق بھی دے گا، نئے لوگ اسمبلیوں میں آئیں گے اور ایک خوبصورت خبر یہ بھی میرے پاس ہے کہ ڈاکٹرطاہر القادری کے وزیر اعظم عمران خان ہوں گے۔
mansoor afaq

