
ڈاکٹر طاہرالقادری کی واپسی
ڈاکٹر طاہرالقادری کی واپسی
ایک بات میری سمجھ میں آرہی کہ حکومتی حلقے ایک طرف اس بات کا شور کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت سے ڈیل کر لی ہے۔تین ارب روپے لے لئے ہیں۔دوسری طرف عمران خان کے ساتھ انہیں بھی دہشت گرد قراردے کر ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دئیے گئے ہیں بلکہ اشتہاری قرار دے دیا گیاہے۔صرف یہی نہیں حکومت نے تو ان کے خلاف اپنی پراپیگنڈہ مہم بھی تیز تر کردی ہے۔ایک اطلاع کے مطابق نون لیگ کے میڈیا کو قیادت کی طرف سے باقاعدہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائیں۔پتہ نہیں کیوں حکومت شروع سے ہی ڈاکٹر طاہر القادری سے خائف ہے ۔سانحہ ماڈل ٹائون کو دیکھیں یہ حکومت کا خوف ہی تھا کہ بے وجہ لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنادیا گیا۔یہ بھی سب نے دیکھاکہ اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر جہاز سات چکر لگاتا ہے اور اسے اترنے کی اجازت نہیں دی جاتی کہ اس میں ڈاکٹر طاہر القادری موجود ہیں۔کیایہ خوف نہیں تھا کہ انہیں اپنے ساتھیوں سمیت کئی دن تک مسلسل ماڈل ٹائون میں محصور رکھا گیا۔
بہرحال دوچار روز میں یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ میری لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری سے تفصیلی ملاقات ہوئی اور میں نے پوری طرح یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا کوئی الزام درست ہے یا نہیں۔ ان کی باڈی لینگوئج ان کی گفتگو ان کی آنکھیں کسی ڈیل کی خبر نہیں دیتی تھیں بلکہ ان کے ارادے پہلے سے زیادہ مضبوط دکھائی دئیے ۔ وہ مجھے اسی طرح استقامت کے پیکر محسوس ہوئے۔ مجھے یقین ہے اس مرتبہ ان کی جد وجہد پہلے سے زیادہ توقعات کے خلاف ہوگی۔ عین ممکن ہے تیس تاریخ کو اسلام آباد میں عمران خان کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دکھائی دیں۔
ایک پیش گوئی اور بھی کر رہا ہوں کہ اب ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب کیلئے ہر وہ طریقہ اختیار کریں گے۔ جسے موجودہ حکومت اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے جائز سمجھتی ہے۔وہ لوگ جو کسی کی شرافت کو اس کی بزدلی سمجھنے لگتے ہیں انہیں شایدعلم نہیں کہ سچ مچ اگر کوئی شریف اپنا حق لینے پر تل جائے تو پھر اسے روکنا ناممکن ہوجاتا ہے۔اب وہ بالکل اسی طرح حکومت کو گرائیں گے جیسے ماضی میں ن لیگ نے پیپلز پارٹی کی حکومتیں ختم کرائی تھیں۔ اب وہ اسی طرح الیکشن لڑیں گے جیسے ن لیگ اور پیپلز پارٹی لڑتی آئی ہیں۔اب وہ اس نظام کے خاتمے کیلئے اسی نظام کا ہتھیار استعمال کریں گے۔اب واقعی حکومت کو ڈاکٹر طاہر القادری سے ڈرنا چاہئے ۔ماڈل ٹاون میں لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے والوں کی زد میں یقیناً ڈاکٹر طاہر القادری بھی آسکتے ہیں مگر شہید طاہر القادری زندہ ڈاکٹر طاہرالقادری سے زیادہ خطرناک ہوجائے گا۔
میں لندن میں ہونے والے عوامی تحریک کے کنونشن میں بھی گیا تھا۔وہاں وہی دھرنے جیسی صورت حال تھی، وہی جوش تھا، وہی ولولے تھے۔وہی نعرے لگ رہے تھے ،ترانے بج رہے تھے۔کنونشن میں لارڈ نذیر احمد کی موجودگی میرے لئے حیران کن تھی اور انہوں نے بڑی پرجوش انداز میں تقریر کی ۔کہا کہ جو لوگ سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث ہیں انہیں سزائے موت دی جائے پھر اچانک خیال آیا کہ وہ تو برطانوی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں اور برطانوی حکومت دنیا بھر میں موت کی سزا کی مخالف ہے۔سو انہیں اپنے جملے کی وضاحت کرنا پڑی مگرعوامی تحریک میں اس درجہ شدت کے ساتھ ان کی موجودگی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ستر دن کادھرنا واقعی ذہنوں میں انقلاب لے آیا ہے۔
مجھے ان لوگوں پر بہت ترس آرہا ہے جو واویلا کررہے تھے کہ کسی ڈیل کے نتیجے میں ڈاکٹر طاہر القادری میدان چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ان ارمانوں پر اس کالم کی اشاعت کے وقت تک پانی پھر چکا ہوگا۔دوستو!ابھی اداسی درست نہیں۔ہم جیسوں کوزندگی کی نوید دینے والی ساعت ابھی مردہ نہیں ہوئی۔ابھی وہ ٹہنی موجود ہے جس پر پھول کھلنے ہیں۔درختوں کے ہاتھ ابھی خالی نہیں ہوئے۔ابھی بہار راستے میں ہے۔جہاں لہو کی بوندیں گری تھیں وہاںگلابوں کی سرخ کلیوں کے پھوٹنے کے امکا ن ابھی تک جاگ رہے ہیں۔اور اب ایک آخری بات کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دھرنے اپنے مقاصدحاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اس لئے اب حکومت کے جانے کا کوئی امکان نہیں رہا۔ ان سے عرض ہے کہ کوئی ٖفیصلہ کرنے سے پہلے حالات کا بغور جائزہ لیں پھر کسی نتیجے پر پہنچیں۔

