
وقت کو قضا مت کرو
وقت کو قضا مت کرو
میں نے آج نواز شریف کے ایک قریبی آدمی سے کہا کہ ’’وقت کو قضا مت کرو‘‘ تو اس نے اس جملے کی وضاحت چاہی ۔ میں نے جملے کی وضاحت میں جو سچے واقعات اسے سنائے آپ کے ساتھ بھی شیئر کررہا ہوں ۔ یہ 1987ء کی بات ہے اگست کے ایک دہکتے ہوئے جمعے کی صبح تھی میں اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ٹھیک نو بجے اس شخص سے ملنے پپلاں گیا تھا وہ میرے بڑے بھائی کا دوست تھا وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے ہم جب وہاں پہنچے تو مولوی صاحب بڑے پیار سے ہمیں ملے ان کے حجرے میں چار لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے اور مولوی صاحب بڑے دھیمے انداز میں گفتگو کر رہے تھے۔ بات سمجھنے کیلئے مجھے اپنی سماعت مجتمع کر کے پوری توجہ ان کی آواز پر مرکوز رکھنی پڑرہی تھی۔
ہمیں وہاں بیٹھے ہوئے تقریباً آدھا گھنٹہ گزراتھا کہ انہوں نے کہا ’’جمعہ کی نماز کا وقت ہونے والا ہے اس لئے اٹھا جائے‘‘ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے میں نے سوچا کہ ہمیں اٹھانے کیلئے مولوی صاحب کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی ابھی ساڑھے نو ہوئے ہوں گے جمعہ کی نماز ایک ڈیڑھ بجے کھڑی ہوتی ہے یہی سوچتے ہوئے میں اس حجرۂ درویش سے باہر آیا تو مجھے احساس ہوا کہ سورج کو جہاں ہونا چاہئے تھا وہاں نہیں ہے۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے بارہ بج رہے تھے میں نے بھائی سے وقت پوچھا تو انہوںنے بھی میری گھڑی کی ایک لائن میں کھڑی ہوئی سوئیوں کی تصدیق کی۔ میں پریشان ہو گیا تقریبا ساڑھے تین گھنٹوں کا فرق لگ رہا تھا مجھے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ خانۂ ذہن سے یہ وقت کون چرا کر لے گیا ہے۔ میں ہفتہ بھر اسی وقت کی گمشدگی کے بارے میں سوچتا رہا۔ پھر ایک دن گھر سے نکلا تو میری موٹر سائیکل کی تیز تر رفتار اس وقت دھیمی ہوئی جب میں پپلاں پہنچ چکا تھا۔ پپلاں پہنچتے ہی میری موٹر سائیکل خودبخود اسی مسجد کی طرف مڑ گئی۔ میں نے کئی سال سے نماز نہیں پڑھی تھی مسجد کے دروازے کے پاس جا کر رک گیا۔ شام کی نماز ہو چکی تھی نمازی مسجد کے دروازے سے نکل رہے تھے، مسجد کے صحن میںصرف ایک شخص نمازپڑھ رہا تھا۔وہ وہی مولوی صاحب تھے، شاید نفل پڑھ رہے تھے، میں مسجد کے اندر داخل ہوا اور انہیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھنے لگا میں شاید ان سے اس موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔
اچانک مجھے ایک دوست کی آواز سنائی دی’’شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مسجد میں لے آیا ہے، رکے کیوں ہو چلو وضو کرو اور نماز پڑھو‘‘میں نے اس سے کہا ’’میں نماز پڑھنے نہیں آیا میرا مولوی صاحب سے کوئی کام ہے‘‘ اس نے مجھے کہا ’’دیکھو اگر آج بھی تم نے نماز نہ پڑھی تو میں ساری زندگی تم سے کلام نہیں کروں گا‘‘ اور میں نے اپنے دوست کیلئے نماز پڑھنے کا ارادہ کر لیا۔ وضو کیا اور مسجد کے صحن میں آگیا، جہاں پانچ چھ قطاروں میں پنکھے لگے ہوئے تھے جن کے نیچے صفیں بچھی ہوئی تھیں۔ میں آخری صف پر ایک پنکھے کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ میرے بالکل سامنے مجھ سے پانچ صفیں آگے مولوی صاحب نماز پڑھ رہے تھے میں نے ابھی کوئی الٹی سیدھی نیت باندھی ہی تھی کہ ایک طالب علم نے مولوی صاحب کے اوپر چلنے والے پنکھے کو چھوڑ کر باقی تمام پنکھوں کے بٹن آف کردئیے۔ بلا کی گرمی تھی میں نے سوچا کہ میرے دوست کا خدا بھی نہیں چاہتا کہ میں اس کیلئے نماز پڑھوں اور میں نے حیرت سے مولوی صاحب کو دیکھا جنہوں نے کھڑے کھڑے سلام پھیر لیا اور جا کر میرے اوپر چلنے والے پنکھے کا بٹن آن کیا۔ واپس آئے اور نماز کی پھر نیت باندھ لی میں اندر سے کانپ کر رہ گیا وہ مجھ سے اتنی دور تھے کہ انہیں میرے سر پر چلنے والے پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہی نہیں ہو سکتا تھا پھر میری طرف ان کی پشت تھی میں آج تک اپنے دماغ کو اس بات کا قائل نہیں کر سکا کہ انہیں پنکھے کے بند ہو جانے کا احساس ہو گیا تھا اور اگر احساس بھی ہو گیا تھا تو اس شخص سے زیادہ عظیم اور کون ہو سکتا ہے جس نے صرف ایک اجنبی آدمی کو گرمی سے بچانے کیلئے اپنی نماز توڑ دی۔
میں نے نماز پڑھی سچ مچ کی نماز اور مولوی صاحب سے کوئی بات کئے بغیر مسجد سے باہر آگیا۔ باہر میرا دوست میرا انتظار کر رہا تھا اس نے پو چھا کہ مولوی صاحب سے ملے تو میں نے کہا ’’ہاں میری ملاقات ہو گئی ہے‘‘۔ میرا دوست ہنس پڑا اور بولا ’’کسی وقت اس شخص سے ضرور ملنا۔ حیرت انگیز آدمی ہے میں نے اس سے ملنے والوں کی تقدیریں بدلتی دیکھی ہیں‘‘۔ بہرحال یہ واقعہ میرے دماغ میں اٹک کر رہ گیا تھا میں نے بہت سے ہم خیال دوستوں کے ساتھ اس موضوع پر گھنٹوں گفتگو کی۔ بہت سی تاویلیں بھی تلاش کیں مگر سانس میں پھانس بن کر اٹک جانے والا مولوی دماغ سے نکلتا ہی نہیں تھا تقریباً دو ہفتوں کے بعد میں نے سوچا کہ مولوی صاحب کی تقریر سنی جائے اس کے علم کا اندازہ لگایا جائے خود میں نے ایک مذہبی گھرانے میں جنم لیا تھا ابتدائی تعلیم مسجد سے حاصل کی تھی اور مطالعہ کا شوق مجھے لائبریری سمیت ورثے میں ملا تھا اس لئے میں خود کو اسلام پر اتھارٹی سمجھتا تھا اورشاید یہی زعم مجھے الحاد کی طرف لے گیا تھا۔ میں جمعہ کے روز جمعہ کی نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مسجد میں پہنچ گیا میرے پہنچنے سے پہلے وہ تقریر شروع کر چکے تھے، مسجد کا ہال نمازیوں سے بھرا ہوا تھا، میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب کے بالکل سامنے دوسری صف میں ایک شخص کے بیٹھنے کی جگہ موجود ہے میں صفیں چیرتا ہواس جگہ تک پہنچا ۔
مولوی صاحب سے میری نظریں ملیں اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں۔ جب ہوش آیا تو میں سلام پھیر رہا تھا اور شدت کے ساتھ رو رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا گریبان پسینے سے نہیں آنسوئوں سے بھیگا ہوا ہے ’’آنکھیں ٹکرانے‘‘ سے لے کر ’’سلام پھیرنے تک‘‘ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا فاصلہ ہے میں توان ساڑھے تین گھنٹوں کی تلاش میں تھا جو کچھ دن پہلے اسی شخص کی محفل میں کھو گئے تھے الٹا ڈیڑھ گھنٹہ اور کھو بیٹھا۔ مگر اس ڈیڑھ گھنٹے کی گمشدگی نے ساری گمشدہ گُتھیاں سلجھا دیںاور میں یہ سوچ کر تشکیک کی وحشت سے باہر نکل آیا کہ میں اس خدا کے وجود کا کیسے انکار کر سکتا ہوں جس کے ایک معمولی سے ماننے والے مولوی کی ایک نگاہ برداشت نہیں کر سکا۔ میں شام کے وقت پھر اسی مسجد میں گیا اور خود کو مولوی صاحب کے حلقۂ ادارت میں دے دیا۔ انہوں نے دو باتیں کیں پہلی یہ تھی کہ اپنا حلقہ احباب تبدیل کر لو اوردوسری یہ کہ وقت کو ضائع کرنا گناہ کبیرہ سے بھی بڑھ کے ہے قضا نمازیں تو لوٹائی جا سکتی ہیں مگر قضا ساعتیں نہیں لوٹ سکتیں۔ سو موجودہ حکومت سے درخواست ہے کہ کچھ کرسکتی ہے تو کرلے وگرنہ اس کے پاس دن تھوڑے ہیں۔

