
وابستگانِ افواجِ پاکستان
وابستگانِ افواجِ پاکستان
پنجاب میں ضمنی انتخابات افواج ِ پاکستان کے زیر نگرانی ہونگے ۔باقی حلقوں کیلئے خیر یہ کوئی اتنا بڑامسئلہ نہیں وہاں نون لیگ ہار بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر این اے 122کا معاملہ تھوڑا جدا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ نے فوج کی مقبولیت کہاں پہنچا دی ہے ۔ایاز صادق نے بھی اپنی الیکشن مہم کے اشتہار میں افواج پاکستان کے ساتھ اپنی ہم آہنگی کو اجاگر کیا ہے ۔علیم خان کے پوسٹروں میں بھی کہیں کہیں راحیل شریف کی تصویر دکھائی دیتی ہے ۔میں اس وقت ایاز صادق اورعلیم خان کا موازنہ کرنے موڈ میں نہیں ہوں۔نہ ہی یہ فیصلہ دینا چاہتاہوں کہ دونوں امیدواروں میں سے بہتر کون ہے ۔ایاز صادق عمران خان کے بچپن کے دوست ہیں۔ایک بار ایچی سن کالج میں ہاکی کھیلتے ہوئے ان کی ہاکی سے عمران خان زخمی ہوگئے تھے ۔پھر یہ واقعہ دونوں کے درمیان دوستی کا سبب بن گیاتھا۔ثروت حسین کی نظم کی طرح دوستی بھی کہیں سے شروع ہوسکتی ہے ۔
پھر عمران خان نے انہیں نیرنگی ء سیاست کے رنگوں کی طرف مائل کیا ۔جب تحریک انصاف نے پہلی اڑان بھری تو پرواز میں ایاز صادق بھی موجود تھے مگر’’ستارہ ء شام بن کے آیا برنگ ِ خواب سحر گیا وہ‘‘ ۔ اُن کی سعودی عرب میں نواز شریف سے ملاقات ہوگئی تھی مگر جیسے ہی پیادیس سدھارے یعنی نون لیگ میں شامل ہوئے فتح ان کے پائوں چومنے لگی۔دوہزار دوسے ان کا ستارہ مسلسل عروج پر رہا۔مگر اس سال جب اسپیکرشپ کے برج میں ستاروں کی کچھ الٹی سیدھی گردشیں ہوئیں تو لوگوں نے پروین شاکر کی طرح حیرت سے کہا۔’’وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ توآپ اپنی مثال تھا۔‘‘دوسری طرف علیم خان ہیں ۔وہ تحریک انصاف میں زیادہ پرانے نہیں ۔یعنی بزمِ یار میں نئے نئے آئے ہیں۔سیاست کے البتہ کئی سرد و گرم موسم دیکھ چکے ہیں ۔چوہدری پرویز الہٰی کے دور میں پنجاب کے وزیر بھی رہے ہیں۔ تھوڑا عرصہ پہلے جب انہیں کینسر ہوا اورپھر اللہ تعالی نے انہیں ایک نئی زندگی عطا کی تو انہوں نے شوکت خانم اسپتال سے علاج کرانے کے بعد ایک خطیر رقم اسپتال کے فنڈ میں دی تھی ۔
اسی بات پرعمران خان ان کی طرف متوجہ ہوئے کہ’’ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی‘۔بہر حال گزشتہ تین سالوں میں ’’لوگ کہتے ہیں کہ چنگاری الائو بن گئی ہے‘‘ان دونوں شخصیتوں سے اپنی شناسائی کا کیا کہوں۔’’نہ تعلق نہ روابط نہ مراسم ان سے ‘‘میں نے صرف انکی آواز ٹیلی فون یا میڈیا کی وساطت سے سنی ہے ۔جب ایاز صادق اسپیکر بنائے گئے تھے تو قومی اسمبلی سے ایک دوست کا فون آیا تھاکہ عطاالحق قاسمی تمہارے پاس برمنگھم آئے ہوئے ہیں۔ان سے میرے لئے ایاز صادق کو ایک فون تو کرادو ۔میں نے ان سے درخواست کی تو انہوں نے کہا ’’فون ملائو ابھی بات کرلیتے ہیں‘‘۔فون کیا مگر وہ دفتر میں موجود نہیں تھے ۔ تھوڑی دیرمیں ایاز صادق کا فون آگیا ۔ میں نے فون اسپیکر پر لگادیا انہوں نے جس محبت اور احترام سے قاسمی صاحب سے بات کی اسے بھلایا نہیں جا سکتا ۔یہ بات علیحدہ ہے کہ کام انہوں نے نہیں کیاتھا۔علیم خان سے بھی ایک کام کے سلسلے میں بات ہوئی تھی ۔لطف کی بات یہ ہے کہ وہ کام انہوں نے بھی نہیں کیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میرے بہنوئی کی وفات کے تقریباً دس سال بعد تحریک انصاف کے ایک ایم پی اے نے ان کی زمین جعلسازی سے اپنے نام منتقل کرالی ہے۔اس زمین کی مالیت تقریباًپچیس کروڑ روپے ہے ۔میں تمام ثبوت لے کر لاہور آیا ۔نون لیگ کی ایک اہم شخص سے ملا اور اسے کہا میں مقدمہ بازی نہیں چاہتامگر میں چاہتاہوں کہ میرے بھانجوں کو ان کا حق مل جائے ۔اس نے مجھے علیم خان سے ملنے مشورہ دیا اور علیم خان کی خاصی تعریف کی ۔میں نے کہا کہ میری اطلاعات اس کے برعکس ہیں۔کچھ مسائل ہیں جس کی وجہ سےعمران خان نے ان کو انتخابات میں ٹکٹ بھی نہیں دیا تھا ۔وہ کہنے لگا۔لوگ باتیں کرتے رہتے ہیں یہی دیکھو کہ تحریک انصاف نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا تھامگر ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی ، وہ اسی طرح کام کرتے رہے۔میں نے کہا ’’مگرمیری تو اُن سے کوئی جان پہچان نہیں ہے۔کہنے لگا ۔میں فون کر دیتا ہوں ۔
علیم خان سے بات ہوئی انہوں نے مجھے کہاکہ’’ کل صبح تمام ثبوتوں کے ساتھ میرے آفس آجائیے گا ۔‘‘ ۔دوسرے دن میں وہاں لیٹ پہنچا ۔علیم خان چلے گئے تھے۔ان کے سیکرٹری نے فون پر بات کرائی تو الٹا انہوں نے معذرت کی کہ میں زیادہ دیر انتظار نہیں کرسکااور کہا کہ کاغذات کی کاپیاں میرے سیکرٹری کو دے دیجئے ۔اب میں خود آپ سے رابطہ کروں گا۔ مجھے برطانیہ آنا تھا سو پھر رابطہ نہ ہوسکا۔میں نے وہ ثبوت تحریک انصاف کے میانوالی ایم پی اے سبطین خان کوبھی بھجوائے تھے۔ٹیلی فون بھی کیا تھا۔ایک دوست کی معرفت سیف اللہ نیازی کو بھی بھیجے تھے۔۔لگتا ہے اب عمران خان سے ہی بات کرنا پڑے گی۔(مزید تفصیلات کیلئے ۔مظہر برلاس روزنامہ جنگ )
ہاںتو این اے 122کے ضمنی انتخاب موضوع ِ گفتگو تھا۔یہ مقابلہ اصل میںتو نواز شریف اور عمران خان کے درمیان ہے اور نواز شریف کا اس حوالے پلڑا بھاری ہے کہ وہ وزیراعظم بھی ہیں۔یعنی ان کا رخِ روشن پوری طرح بام پرہے ۔ اس میں بھی شک نہیں عمران خان کی عوامی مقبولیت بہت ہے ۔کچھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ’’اٹھا لے جو بڑھا کے ہاتھ پیمانہ اسی کا ہے ‘‘ دیکھتے ہیں کون ر گِ گل سے بلبل کے پر باندھتا ہے ۔اس ضمنی انتخاب میں مسائل بہت ہیں۔ ایاز صادق کامیاب نہیں ہوتے تو پھر اس بات پر مہر تصدیق ثبت ہوجائے گی کہ انتخابات درست واقعی نہیں تھے ۔تحریکِ انصاف ہارتی تو2013کے انتخابات صاف شفاف قرار پاتے ہیں ۔فوج موجود ہے دھاندلی کا امکان بھی نہیں ہے۔

