چوہدری سرور کے گورنر پنجاب. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

ن لیگ کے حق میں کلمہٴ خیر

ن لیگ کے حق میں کلمہٴ خیر

چوہدری سرور کے گورنر پنجاب ہونے کے امکانات پر بہت سے لوگ ناراض ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بیانات شائع ہوچکے ہیں، بہت سے کالم بھی لکھے جا چکے ہیں۔کسی نے انہیں ”لاٹ صاحب “کہہ کر مخاطب کیا ہے تو کسی نے ”ان کیلئے امپونڈ گورنر“ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ میں نے تکلیف زدہ احباب کے پیٹ کے ایکسرے کرنے کی کوشش کی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ اس درد کا سبب صرف اتنا ہے کہ وہ برطانیہ سے کیوں آئے ہیں۔ بھئی وہ چلے گئے تھے اس لئے واپس آئے ہیں۔ بے شک انہوں نے برطانوی شہریت حاصل کر لی تھی مگر پاکستانی شہریت چھوڑی نہیں تھی پھر اب واپس آتے ہوئے انہوں نے برطانیہ کو برطانوی شہریت لوٹا بھی دی ہے مگر تکلیف ہے کہ ختم نہیں ہو رہی۔ کیا یہ بری بات ہے کہ وہ برطانوی پارلیمینٹ کے ممبر رہے ہیں اس وقت بھی ان کا بیٹا پارلیمینٹ کا ممبر ہے اور بھی انہیں بے شمار کریڈٹ حاصل ہیں اور اس بات پر تمام صاحبانِ تکلیف متفق بھی ہیں کہ ان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ ان کے اندر ایک پاکستانی کا دھڑکتا ہوا دل بھی ہے اور ان کے پاس معاملات کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی وہ صلاحیت بھی ہے جو برطانوی قوم کاخاصا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں پنجاب کا گورنر نہیں لگانا چاہئے کیونکہ یہ قطعاً کوئی ایسا عہدہ نہیں جس پر متمکن شخصیت پاکستان یا پنجاب کی بہتری کیلئے کوئی اہم کردار ادا کر سکے، اس لئے چوہدری سرور گورنر بننے کے بعد صرف دستخط کیا کریں گے یعنی یہ گورنری انہیں دینا،انہیں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ نون لیگ کو چاہئے کہ ان سے کوئی اہم کام لے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ ہو۔اگر پاکستان اور بھارت کی تاریخ پر غور کیا جائے تو وہ تمام بڑے آدمی جنہوں نے پچھلی صدی میں برصغیر میں کوئی اہم کردار ادا کیا وہ تمام ”لندن پلٹ“ لوگ تھے۔ اس لسٹ میں قائداعظم اور مہاتماگاندھی کے نام بھی آتے ہیں، علامہ اقبال اور نہرو بھی شامل ہیں۔ میرے خیال میں تو اس وقت اگر پاکستان کو کوئی تاریکیوں سے نکال سکتا ہے تو وہ صرف وہی پاکستانی ہیں جو یورپ میں بیٹھے ہیں جن کے دل میں اپنے وطن کا درد بھی ہے جو ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کے راز سے بھی واقف ہوچکے ہیں۔ وہ اپنے ملک سے بے لوث محبت کرتے ہیں انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ ہم ہر سال اربوں ڈالر بھیج کر پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے روکے ہوئے ہیں۔

پھر موجودہ آئین کے تحت گورنر کی صرف آئینی حیثیت ہے وہ صوبہ کی تہذیبی اور ثقافتی سربراہ ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے برطانیہ ملکہ، برطانیہ کی سربراہ ہے ۔سو ایک گورنر کا کام زندگی کی خوبصورتیوں کو آگے بڑھانے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا مگر مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس عہدے کا طویل عرصے سے غلط استعمال ہوتا آرہا ہے۔ اکثر پارٹیوں نے اس عہدے کو سیاسی رشوت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔جس کی وجہ سے کبھی کوئی جاگیردار آکر گورنر ہاؤس میں بیٹھ جاتا ہے،کبھی کسی ریٹائرڈ جنرل کی قسمت جاگ پڑتی ہے۔

میرے نزدیک نون لیگ کے پاس اس عہدے کیلئے سب سے بہتر شخصیت عطاالحق قاسمی کی ہے ۔عطاالحق قاسمی پنجاب کے ویسے گورنر ثابت ہوسکتے ہیں جیسا یہ عہدہ ہے بلکہ ان کے گورنر بننے سے پنجاب کی گورنری کو بھی چار چاند لگ جائیں گے کیونکہ یہ طے شدہ بات ہے کہ ایک ادیب ایک بڑے مزاح نگار ،ایک لاجواب ڈرامہ نگاراور ایک شاعر ہونے کی حیثیت سے وہ پہلے بھی ایک گورنر سے کہیں بڑی شخصیت ہیں، گورنر تو آتے جاتے رہتے ہیں ۔خود سوچئیے تاریخ کے دامن میں کتنے گورنر زندہ ہوں گے مگر تاریخ کے دامن میں کبھی کوئی عطاالحق قاسمی مرا نہیں۔(بلھے اساں مرنا ناہیں قبر پیا کوئی ہور) جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے نواز شریف اور شہباز بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں مگر شاید ادرگرد کے ان پڑھ حواریوں کیلئے عطاالحق قاسمی کی گورنری تعجب خیز بات ہے۔ مجھے یاد ہے نجم سیٹھی کے وزیراعلیٰ بننے پر ایک وڈیرے نے کہا تھا”صحافیوں کو کچھ زیادہ ہی سر چڑھا رہے ہیں زرداری اور نواز شریف“۔ وہ کسی ایسے آدمی کوکس طرح گورنربنتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جواب بھی دوپہر کے کھانے کے وقت نواز شریف کوخان بابا کے ریستوران پر لے جائے ۔مجھے یاد ہے جن دنوں قاسمی صاحب ناروے میں سفیر ہوا کرتے تھے کچھ دنوں کیلئے پاکستان آئے ہوئے تھے میں اسلام آباد لاہور انہیں ملنے کیلئے آیا تو وہ دوپہر کے وقت چھولے کھانے کیلئے مجھے نیلا گنبد میں غلام رسول کی دکان پر لے گئے اور ہم نے عام لوگوں کے ساتھ انہی بینچوں پر بیٹھ کر چھولے کھائے جن پر برسوں سے بیٹھ کر کھاتے آرہے تھے یقینا یہ ساری خبریں اہلِ اقتدار کے پاس بھی ہوں گی۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قاسمی صاحب کو اس وقت تک کوئی ایسا عہدہ نہیں دیا جاسکتا جب تک وہ اپنی کلاس نہیں تبدیل کر لیتے ۔تو ان لوگوں کیلئے ایک اطلاع ہے کہ مکمل طور پر نہ سہی مگر جزوی طور پرہم دوستوں نے کسی حدتک ان کی کلاس تبدیل کرادی ہے اب وہ جب برطانیہ آتے ہیں تو اکانومی کے بجائے بزنس کلاس میں سفر کرتے ہیں اور اس میں ہمارے دوست احسان شاہد کا بڑا کردار ہے۔ہاں تو بات ہورہی تھی عطاالحق قاسمی کی گورنری کی ۔اس گورنری کے عطاالحق قاسمی کو نقصانات بھی بہت ہیں ۔سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اب جو کچھ اس کے دل میں آتا ہے وہ کہہ دیتے ہیں گورنر کے بعد ان سے یہ آزادی کی نعمت ان کا عہدہ چھین لے گا۔مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کسی حد تک سچ لکھنے سے پھر بھی باز نہیں آئیں گے اور شاید وجہ یہ ہے کہ انہیں ابھی تک گورنر نہیں بنایا گیا وگرنہ ان کے گورنر بننے کے متعلق جتنی خبریں شائع ہوچکی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے نواز شریف بہت پہلے ان کی گورنری کااعلان کرچکے ہوتے۔

مجھے یہ معلوم ہے کہ میرے کالم کے شائع ہونے کے بعد ان کے گورنر بننے کے امکانات اور بھی کم ہو جائیں گے کیونکہ میں نے نون لیگ کے حق میں کبھی کلمہٴ خیر نہیں کہا اور اس کا امکان ابھی تک تو دکھائی نہیں رہا۔ ہاں اگر عطاالحق قاسمی جیسی کسی شخصیت کو نون لیگ پنجاب کا گورنر لگا دے تو شاید میں بھی کلمہٴ خیر کہنے پر مجبور ہوجاؤں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے