دیوار پہ دستک

نوازشریف کی مجبوری

نوازشریف کی مجبوری

پاکستان میں لوگ دن بہ دن غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جارہی ہے۔ تھر میں قحط کے بعد چولستان میں قحط پڑنے والا ہے ۔ایک سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ مسلسل جمہوریت پاکستان میں بہتری کے بجائے تنزلی کی طرف کیوں لے رہی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر آصف زرداری نے کہا تھا کہ جمہوریت سب سے بڑا انتقام ہے۔بے شک جمہوریت ڈکٹیٹروں کے خلاف ایک لپکتی ہوئی تلوار ہے۔ لوگوں کے حقوق چھیننے والوں سے لوگوں کا خوبصورت انتقام ہے لیکن وہ جو جمہوریت پانچ سال آصف زرداری کے زیر قیادت پاکستان پر کسی قیامت کی طرح گزری اور یہ جو نوازشریف کی جنبشِ چشم سے نکلی ہوئی جمہوریت پاکستان کے گلی کوچوں میں ننگے سر پھرتی ہے۔ ذرا غور سے اس کے الجھے ہوئے گیسوئوں کو دیکھئے۔اس کی آنکھوں میں درد کے لہراتے ہوئے سائے کچھ کہہ رہے ہیں ۔الطاف حسین یونہی بار بار فوج کو آواز نہیں دے رہا مگر یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ مارشل لا مسائل کا حل نہیں بلکہ بڑی بربادی کا سبب ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل یقیناً جمہوریت میں ہی ہے مگر یہ جمہوریت وہ نہیں، جسے جمہوریت کہتے ہیں ۔یہ تو وہ جمہوریت ہے جہاں غریب آدمی ووٹ دینے کا حقدار ہے ووٹ لینے کا حقدار نہیں۔ یہ تو وہ جمہوریت ہے جہاں بیس فیصد لوگوں کی رائے کو اسّی فیصد لوگوں کی رائے پر اہمیت حاصل ہے اور اس پر ستم یہ کہ ووٹ پاکستان کی گلیوں میں ڈالے جاتے ہیں مگر نتائج کی فہرستیں کہیں اور تیار ہوتی ہیں۔ مجھے اس سے کوئی زیادہ غرض نہیں۔ میرا مسئلہ تو بھوک کی وجہ سے مرنے والے بچے ہیں ۔سوڈان سے تعلق رکھنے والی ایک سچی کہانی یاد آگئی ہے۔

’’اس نے مجھے کہا’ آدھی رات کے پیٹ میں ہم صحرا کے بیچ میں تھے۔ وہاں کوئی روڈ نہیں تھا۔ہاں کئی سڑکیں تھیں انسانی قدموں کے نشانات کی سڑکیں‘‘اس نے کہا ’’ہم اقوام متحدہ کے انتظارمیں تھے ۔ابھی بھرے ہوئے پیٹ کی دنیاخالی پیٹ دنیا کیلئے خوراک کے تھیلے بھیجے گی ۔بھکاری نسلوں کے لئے من و سلویٰ کے تھیلے،ہم سب کی نظریں آسمان کی طرف تھیں- وہاں پہلا جہاز نمودار ہوا چہروں پر رونق آگئی مگر جہاز نے خوراک کے بجائے آگ کے تھیلے گرائے یعنی بم۔پیٹ بھری دنیانے اس مرتبہ شاید بموں کی خیرات نکالی تھی‘‘۔اس نے کہا ’’ہر طرف لوگ مررہے تھے۔جیسے لوگ مرتے ہیں میں نے بہت مرتے ہوئے لوگ دیکھے ہیں۔ موت کے منظر کا نقشہ نہیں کھینچا جا سکتا اس منظر کو صرف دیکھنے سے محسوس کیا جا سکتا ہے بچ جانے والے سر پٹ بھاگ رہے تھے۔میں بھی بھاگنے والوں میں سے تھا بھاگتے بھاگتے ہم سوڈان سے ایتھوپیا پہنچ گئے۔بھاگنے کے اس سفر میں ایک لق دق صحرا میرا ہمسفر تھاموت کا صحرا۔وہی مرتے ہوئے لوگ، سانپوں کے ڈسے ہوئے لوگ، بھوک اور پیاس سے مرتے ہوئے لوگ‘‘اس نے کہا ’’اب ہم مہاجر تھے ایک لامکان سے دوسرے لامکان کی طرف سفر پرروانہ مہاجر…..مہاجر کی زندگی بھی کیا ہے انسان سے جانور بن جانے کا عمل ہے پھر ہمیں ایتھوپیا سے واپس سوڈان بھیج دیا گیا ہم پھر گائؤں میں اقوام متحدہ کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔ آسمان کی طرف دیکھتے رہے پھر ایک طیارہ آیا لیکن اس نے بھی بم برسائے بہت سی گائیں بھینسیں اور آدمی ہلاک ہوئے آخر کار اقوام متحدہ والے آئے اور ہم میں سے کچھ لوگوں کو کینیالے گئے۔ہم عرصہ تک اقوام متحدہ والوں کے پھر آنے کے انتظار میں زندہ رہے….پھر موت بہت قریب آگئی اور دہشت گرد بننے کا فیصلہ کر لیا۔سوچا کہ مرنا تو ہے ہی کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ پیٹ بھری ہوئی دنیا کے دو چار لوگ بھی ساتھ لے جائو شاید ان کا کھانا میرے جیسے لوگوں کو زندہ رہنے میں مدد دے۔ میں دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اس دنیا میں پہنچ گیا جہاں بھرے ہوئے پیٹ والے رہتے ہیں میں جب پہلی بار اس دنیا میں داخل ہوا تو مجھے لگا جیسے میں کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہوں۔میرے نزدیک غریب اور ممالک کی یہ تفاوت دنیا کو کانٹوں بھری وادی بناتی چلی جارہی ہے‘‘۔

خدا نہ کرے کہ پاکستان میں ایسی کہانیاں جنم لینے لگیں لیکن حالات جس ڈگر پر جارہے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ، جس کے بدلے جو چاہے دے دیا جائے مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔اگر وہ ڈیڑھ ارب پاکستان کے غریب عوام تک پہنچے اور اگر اس ڈیڑھ ارب ڈالر سے بھی کچھ اور ارب پتیوں نے امیر تر ہونا ہے تو میں اس تحفے پر بھی لعنت بھیجتا ہوں۔ پاکستان کا مسئلہ بڑھتی ہوئی غربت ہے جب تک اس کا تدارک نہیں ہوتا نہ دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے اور نہ دوسرے مسائل سے ملک کو نجات مل سکتی ہے اور غربت کا علاج گوادر ہے۔ پاکستان میں موجود معدنیات ہیں۔ تیل، گیس، کوئلہ اور سونے کے ذخائر ہیں۔ خدا جانے وہ کونسی مجبوری ہے کہ نوازشریف اس طرف نہیں دیکھتے ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے