
نوازشریف اور امن کا نوبل پرائز
نوازشریف اور امن کا نوبل پرائز
یقینایہ بات قابلِ اعزاز ہے کہ نواز شریف کا نام امن کے نوبل پرائز کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔میرے خیال میں تو نواز شریف ابھی اس انعام کے حق دار نہیں ہوئے کیونکہ گوربا چوف کو یہ انعام سوویت یونین ختم کرنے پر دیا گیا تھا۔ہاں نواز شریف کو بھی مل سکتا ہے کہ وہ کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسا قدم اٹھا لیں جوہنودو یہود و نصاری کیلئے پسندیدہ ہو۔میں ذاتی طور پر نواز شریف سے اس کی توقع نہیں رکھتا مگرلوگ گوربا چوف سے بھی سوویت یونین توڑنے کی توقع نہیں رکھتے تھے۔چلئے تھوڑاسا جائزہ نوبل پرائز کا بھی لے لیتے ہیں کہ یہ انعام کیاہے اور کن لوگوں کو دیا جاتا ہے
اس انعام کااجراء 1901میں سویڈن کے ایک باردو بنانے والے سرمایہ دارا لفرڈ بر نہارڈنوبیل کے وصیت نامے سے ہوا تھاجس کے مطابق علمِ طبیات ، علمِ کیمیا، علم الابدان ، ادب اور امن کے حوالہ سے نوبل پرائز کا آغاز ہوا ۔ ادب کے نوبل پرائزکا فیصلہ سویڈن اکیڈمی کرتی ہے اِن فیصلوں پرکوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا اورفیصلے کرنے والے قطعاً متعصب” نہیں“ ہوتے البتہ ان کا جغرافیہ شاید کچھ کمزور ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ یورپ اور امریکا کے علاوہ بھی کوئی دنیا آبادہے ۔
پھر یورپ اور امریکا میں رہنے والوں میں ہر بڑا ادیب اس کا حقدار نہیں ہو سکتا اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ فکری اعتبار سے فیصلہ کرنے والوں کے قریب تر ہو۔آخر فیصلہ کرنے والے بھی تو انسان ہی ہیں یہ انسانی سرشت کا کمال بھی تو ہوسکتا ہے۔میں نے ادب کا نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی فہرست دیکھی تو مجھے دنیا کی متعدد دوسری قومیتوں کی غیر حاضری کے منظر میں ایک بھی چینی ادیب کے خد و خال نہیں نظر آئے اور میرا خیال فوراً ًمشہور چینی ناول نگار پرل ایس بک کی جانب لپکا۔ میں نے سوچا کہ اسے بھی نوبل پرائز ملا تھا فہرست پر دوبارہ غور کیا تو اس کا نام موجود تھا مگر اس کے سامنے امریکا لکھا ہوا تھا۔اسے 1938میں نوبل پرائز ملا تھاتحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ ایک امریکن خاتون تھی جو بہت بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ چین چلی گئی تھی اور تقریباً پیتیس چالیس سال کی عمر میں واپس امریکا لوٹ آئی تھی، اسی لئے اس کی تحریریں پڑھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ چین سے تعلق رکھتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اسے نوبل پرائز ملنے کے سلسلے میں اس کے بہت زیادہ مقبول ہو جانے والے ناول East wind West windکا بہت کردار ہو مگراس کے ناولوں کے پس منظر میں چین میں اس وقت زور پکڑتی ہوئی کمیونسٹ تحریک کے خلاف جو رویہ کہیں کہیں نظر آتا ہے اس کی بھی اس انعام کے حصول میں کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور ہوگی۔ اگرچہ پرل ایس بک ایک انسان دوست ادیبہ کی حیثیت سے مشہور ہے مگر پچھلے ایک سوسال سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکیوں سے زیادہ انسان دوست اور کون ہے۔جاپانی تو خاص طور پر ان کی انسانیت نوازی کے معترف ہیں ۔۔۔۔اٹیم بم وغیرہ تو گرتے ہی رہتے ہیں ۔مگر ایک جاپانی ادیبYasunari Kawabata کو بھی تو نوبل پرائز دیا گیا ہے۔
دنیا کو سب سے زیادہ حیرت 1970میں ہوئی تھی جب سوویت یونین کے ادیب الیگزینڈر سالزے نتسن (Alexander Solzhenitsyn)کویہ انعام دیا گیا تھا۔اس کی تحریروں میں روسی سماج کے خلاف جارحانہ پن مغرب کے فیصلہ سازوں میں مقبولیت سے محروم کیسے رہ سکتا تھا ۔ کہتے ہیں کہ سارتر نے ان ہی مصلحت پوشیوں کی وجہ سے نوبل پرائِز قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ خیر یہ تو مغربی لوگوں کی آپس کی باتیں ہیں ہمیں کیا ہوگی کوئی بات۔برِ صغیر میں جوادب کا ایک نوبل پرائز دیا گیا اس کاپسِ منظر بھی دھندلا ہے۔ ٹیگور کواس کی کتاب ”گیتانجلی “پرانعام ملا تھا اور تنقید نگار اس بات پر متفِق ہیں کہ یہ کتاب ٹیگور کی ایک کمزور کتاب ہے ۔ ا س نے ” سادھنا“بھی تولکھی تھی۔ دراصل گیتانجلی کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا تھا جو اتنے کمال کا تھا کہ وہ انگریزی ادب کا شاہکار لگتا تھا ۔ ٹیگور اپنے فکری رجحان میں بھی فیصلہ سازوں کے بہت قریب تھا ۔ اس وقت برِ صغیر میں اقبال جیسی دیوقامت شخصیت بھی موجود تھی مگر شاید نوبل پرائِزکا قد اس کے برابر نہیں تھا۔ویسے تو ایک مسلمان مصری ادیب نجیب محفوظ کو بھی ادب کے نوبل پرائز سے نوازا گیا ہے مگراِس میں سیاسی اثر و رسوخ کا کتنا ہاتھ ہے اسے جانیں دیں ۔ کیا ہمارے لئے یہی بہت نہیں کہ تہذیب یافتہ حمام میں ہماری دنیا کے ایک ادیب کی نمائندگی بھی ہے۔ 1986 میںWole Soyinka بھی اس اعزاز کی زد میں لائے گئے تھے جِن کا تعلق نائیجیریا سے ہے اور وہ مجھے اِس لئے یاد رہ گئے کہ وہ اِس بزمِ سفید فام میں سیاہ فام دنیا کے شاید واحد شاہکار ہیں۔
یوں تو امریکہ کے بے شمار ادیبوں کو نوبل پرائِز مِل چکا ہے مگر وجودیت پسند امریکی ناو ل نگار سال بیلو کو 1976جب یہ انعام دیا گیا تو کچھ لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہودیت نے سال بیلو کو نوبل پرائِز دلا دیا ۔ اِس ذو معنی جملے کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ سال بیلو ایک ایسا یہودی قلمکار تھاجس کی تحریریں مشرقی یورپ کے عقوبت کدوں میں اس زندگی کی عکاس ہیں جو یہودیت نے مِن حیث القوم گزاری ہے۔ مجھے اس بزرگ نے کہا تھا کہ اس وقت تک چالیس یہودی النسل ادیبوں کو نوبل پرائز مِل چکا ہے مگر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ تعداد تو درست نہیں ۔نوبل پرائز اپنے ایک سو سال مکمل کرنے پر سات سو افراد کو مل چکا اوران میں ایک سو ستائیس افراد یہودی ہیں فزکس میں 37یہودیوں کا یہ ایوارڈ ملا ،کیمسٹری میں21یہودیوں نے اسے حاصل کیا،میڈیسن اور فزیالوجی میں39یہودی النسل افراد اس کے حقدار ٹھہرائے گئے ادب میں 10انعام یہودیوں کو ملے اکنامکس میں ان کی تعداد 13ہے اور امن میں7ہے۔یوں تقریباً نوبل پرائز کے بیس فیصد حصے پر یہودیوں کا قبضہ دکھائی دیتا ہے(یہ بات یاد رکھئے کہ یہودی دنیا کی کل آبادی کے ایک فیصد کا چوبیسواں حصہ ہیں)ادب میں جن یہودی ادیبوں نے انعام حاصل کیا تو ایک اور عجیب انکشاف یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر لکھنے والوں کا بنیادی موضوع وہی” یہودیت پر ظلم “ہے جو سال بیلو کا ہے، پھراس میں اضافہ ہوتا گیا ہے سال بیلو سے ایک سال بعد یعنی 1978میں پھر یہ ایوارڈ ایک امریکی ادیب آئزک بشیوز سنگر کو ملا وہ بھی نہ صرف یہودی النسل تھا۔
بلکہ اس کی بھی اہم ترین کہانیوں کا بنیادی موضوع یہودیت پرمشرقی یورپ میں ہونے والے مظالم تھے۔اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہودی نوبل پرائز کیسے حاصل کرلیتے ہیں۔اس کا جواب پھر کبھی تلاش کریں گے ابھی نوبل پرائز حاصل کرنے کی تگ و دو کرنے والے بزرگ شاعر کیلئے یہ مشورہ حاضر ہیکہ لگے ہاتھوں اگر وہ بھی ایک نظم یہودیت پر ہونے والے مظالم کے خلاف لکھ لیں توممکن ہے کسی نہ کسی شمار قطار میں ان کا نام بھی آجائے ۔ فی الحال جواب تو اس سوال کاا بھی ڈھونڈنا ہے کہ اس انعام کے 80فیصد حصے پر یورپ اور امریکا کیسے قابض ہیں۔ بہرحال نواز شریف کو نوبل پرائز کیلئے نامزد کر دیا گیا ہے ۔ایک اطلاع کے مطابق پرویز مشرف کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

