
نئے نظام کی ضرورت
نئے نظام کی ضرورت
یہ ایک خوشگوار دن تھا، بادلوں کے ساتھ ساتھ دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی کہیں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو جاتی تھی اور کہیں بادلوں میں دھوپ کی پیوند کاری رنگ بکھیرنے لگتی تھی ،قوس ِ قزح ہمارے ساتھ بنتی اور بگڑتی جا رہی تھی ڈاکٹر افتخار احمد اور میں مانچسٹر سے واپس برمنگھم آنے کیلئے ایم سکس پر سفر کر رہے تھے۔ہمارا موضوع عجیب و غریب سا تھا ہم دونوں یہ سوچتے تھے کہ انسان کہاں کھڑا ہے، اشتراکیت ناکام ہو چکی تھی، سرمایہ دارانہ عفریت نے انسانیت کا بند بند مضمحل کر دیا ہے اور وہ اسلامی نظام جسے ہم انسانیت کیلئے نجات دہندہ سمجھتے تھے اسے آج تک کسی نے نظام حکومت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ اس بات کا شور تو سنائی دیا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہٴ حیات ہے مگر کیسے۔
یہ آج تک کسی نے نہیں بتایا۔ اسلام کا طرز حکمرانی کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ اسلام کے معاشی نظام پر کئی کتابیں لکھ دی گئیں مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ قابل عمل کیسے ہو گا۔ موجودہ دور میں اسے کس انداز میں رائج کیا جائے گا، اسلامی تعزیرات پر بھی بہت سے کتابیں موجود ہیں مگر لمحہٴ موجود میں انہیں کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے اس پر کسی نے بحث نہیں کی، اسلامی حکومت کے ادارے کیسے ہوتے ہیں یہ کہیں نہیں لکھا گیا اسلام میں فوج کی حیثیت کیا ہے اس پر کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔اسلام میں عدلیہ کیسے ورک کرتی ہے کوئی نہیں جانتا ، یہ سب کہتے ہیں کہ اسلام میں جاگیرداری حرام ہے مگر قانون ملکیت پر کھل کر کبھی کسی نے بات نہیں کی…اسلام میں زراعت کا نظام صحت عامہ کا نظام ،تعلیم کا نظام ، آبپاشی کا نظام کیا ہے، اسلامی معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے اور یہ نظام صرف انہی ممالک میں نافذ ہو سکتا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں یا غیرمسلم بھی اس نظام سے اپنی معاشرت کو خوبصورت بنا سکتے ہیں، یہ تمام سوال کسی کتاب کے متقاضی ہیں مگر ایسی کوئی کتاب موجود نہیں ۔
دوسری طرف جدید دنیا کے کارہائے نمایاں ہیں یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب سرمایہ دارانہ تہذیب نے اپنے چہرے پر نئی پلاسٹک سرجری کرائی تھی اور نئے خدوخال کے ساتھ تاریخ کے اسکرین پر نمودار ہوئی تھی۔ اس کی گفتگو میں بڑی عظیم اور دانشورانہ دعوت ہے۔یقینا وہ اس یقین کے ساتھ زیرو گراؤنڈ پر آئی تھی کہ انسانیت کے تمام زخموں کی بینڈج اس کے پاس ہے وہ ہر درد کی چارہ گری کرے گی۔اس نے ہر کرب کی مسیحائی سیکھ لی ہے۔ وہ انسان کے سینے میں طمانیت بھر دے گی۔ پریشان حال ذہن کو امن وسکون سے ہمکنار کر دے گی۔ دنیاکی خوبصورتی کواپنے خوبصورت تر عمل سے خوبصورت ترین بنادے گی۔ انسان کی اجتماعی سوچ نے گڈمارننگ کہتے ہوئے اس تہذیب سے مصافحہ کیا۔بے شک اس تہذیب کے ماتھے پربے مثال مادی ترقی کی صبحیں درج تھیں اور اس کا اعلان تھا کہ عالمِ انسانی میں اب رات کی سپرمیسی ختم ہوجائے گی، اندھیرا کہیں نہیں رہے گا ہر طرف لائٹس ہوگی، نور ہوگا اور انسان روشنیوں کا سفر شروع کرے گا اور اس کے ہر قدم پر ایک کہکشاں ہو گی مگر ہم نے دیکھ لیا کہ اس تہذیب نے ایک ہی صدی میں انسانیت کو دو عالمی جنگوں کے دوزخ میں جھونک دیا، اس کے بعد بھی اس کی قہرمانی ختم نہ ہوئی اور آج تک کسی نہ کسی زمین پر جہنم کے شعلے انسانی آبادیوں کو راکھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ درد کی یہ مسلسل فلم بڑی خوفناک ہے۔
ہیروشیما اور ناگاساکی سے لے کر ہولوکاسٹ کے ایپی اسوڈ تک اس میں ایسے ایسے سین موجود ہیں جنہیں ایک بار بھی دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس تہذیب نے بلاشبہ اس سائنس کو بھی رواج دیا جس نے شہر جگمگا دیئے، فاصلوں کو کھینچ لیا، دنیا مٹھی میں سمیٹ دی، عمر میں اضافہ کیا، بیماریوں کے علاج دریافت کئے، انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کیں۔ مشینوں نے قوتِ کار میں بے پناہ اضافہ کیا زرعی پیداوار اور صنعتی پیداوار کے اضافے نے زمانہ بدل دیا لیکن دوسری طرف اسی سائنس نے ہلاکت خیزیوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔
انتہائی خطرناک جنگی سامان بنایا گیا، ہائیڈروجن بم اور ایٹم بم جیسی اندھی قوتوں کا رواج ہوا اور آدمی آدمی کے شکار میں بہت زیادہ بیباک ہوتا گیا۔ اکیسویں صدی کا آغاز بڑی روشن امیدوں کے ساتھ ہوا تھا انسان کا خواب تھا کہ اب بہت زیادہ حکمت و دانش آگئی ہے، قومیں تعلیم یافتہ ہوگئی ہیں پہلے کی سی جہالت اور ہوس زرگری کے مظاہرے نہیں ہوں گے مگر اس کی ابتدا ہی بڑے خونی حادثات سے ہوئی دہشت گردی عام ہوئی، ورلڈ ٹریڈ سینٹر ہی پر موقوف نہیں دنیا کے ہر گوشے میں تباہی کا بازار گرم ہوا امریکہ جیسے انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ ملک نے یورپ اور باقی دنیا کی قوموں کو پکارا اور سب غیظ و غضب میں بے سوچے سمجھے افغانستان اور عراق پر ٹوٹ پڑے اور جو حشر سامان ہلاکت خیزیاں ہوئیں یا ہورہی ہیں ان کا کیا ذکر کروں کیونکہ یہ تو روزمرہ کا معمول ہیں۔ کوئی آدمی اپنے گھر بیٹھ کر بھی کسی لمحے اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کرتا۔ ٹیلیویژن کی شریانوں سے لہو بہہ کر ڈرائنگ روم کے کارپٹ کا ستیاناس کردیتا ہے۔ ان ہلاکت خیزیوں کے اسباب کچھ بھی ہوں ایک چیزسے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہیں کوئی بنیادی خرابی رہ گئی ہے۔
اس تہذیب کے قصر کی اساس میں کوئی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی گئی ہے کہ عمارت ثریا تک پہنچ گئی مگر اس کی کجی ہر دیکھنے والی آنکھ کو چبھ رہی ہے اور میرے خیال میں مساواتِ محمدی ہی وہ واحد راستہ ہے جو دنیا کو امن اور آشتی کی جنت میں لے جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ خود چارہ سازبیکساں پیغمبر انسانیت کے ماننے والوں نے صرف نماز اور روزہ کو دین سمجھ رکھا ہے ۔

