مذاکرات . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

مذاکرات

مذاکرات

یہی طے شدہ بات ہے کہ دہشت گردوں نے پاکستان کا بند بند مضمحل کردیا ہے۔ ہر آنے والے دن میں دہشت گردی کی خبریں اور زیادہ دل دہلانے والی ہوتی ہیں ۔ہر لمحہ یہی خوف ہوتا ہے کہ ابھی کچھ ہوا۔ابھی کچھ ہونے والا ہے ، یعنی کسی وقت بھی کوئی خوفناک حادثہ۔ کوئی ہولناک واقعہ ۔کوئی کرب کے دوزخ سمیٹتی ہوئی ساعت آنکھوں میں اتر سکتی ہے کوئی سماعت شکن دھماکہ ہوسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی ایک ایسی سرنگ میں داخل ہو چکا ہے جس کا دوسرا دہانہ ہے ہی نہیں۔اگرچہ یہ سلسلہ خاصا پرانا ہے مگر وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف اس حوالے سے خاصے پریشان ہیں کہ ملک کو اس خون آلود گی سے کیسے منزہ کیا جائے ۔جیلوں کی حفاظت کس طرح کی جائے۔ حکومت نے مبینہ طور پر ایک مرتبہ پھردہشت گردوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے اور اعلانیہ جنگ کی دھمکی کو مد نظر رکھتے ہوئے سزائے موت کے عدالتی حکم پر عمل درآمد موخرکردیا ہے۔ قانون دانوں کا خیال ہے کہ ان کا یہ اقدام قانونی طور پر درست نہیں مگر پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کیلئے کوئی بھی غیر قانونی کام قابل ِ ستائش ہے چاہے زمرد خان کی بیوقوفانہ بہادری ہی کیوں نہ ہو۔ہر شخص یہی سوچتا ہے کہ کسی طرح ملک کو دہشت گردوں کی گرفت سے باہر نکالا جائے ۔پاکستانیوں کیلئے یہ سوچ بڑی تکلیف دہ ہے کہ وہ مٹھی بھردہشت گردوں سے ہار گئے ہیں۔

آئیے ذرا سا اس دہشت گردی کا اجمالی جائزہ لیتے ہیں۔ اس دہشت گردی کی ایک بدترین لہر بلوچستان میں ہے۔ جو گروپ جن مبینہ مقاصد کے تحت اپنی کارروائیاں کررہے ہیں اگر انہیں پیش نظر رکھ کر بات کی جائے تو ان ساتھ مذاکرات اپنے ساتھ ایک دھوکے کے سوا کچھ اور نہیں کیونکہ حقائق برعکس سوچ رکھنے والوں سے مذاکرات اکثر بے نتیجہ ہی رہتے ہیں ۔

دہشت گردی کی ایک لہر وہ ہے جس نے کراچی کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے ۔جس کے سبب لیاری سے سیکڑوں خاندان ہجرت پر مجبور ہوئے۔کراچی کی دہشت گردی میں کئی طرح کے فیکٹر شامل ہیں ۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لسانی اورعلاقائی گروپوں میں بھی طالبان شامل ہوچکے ہیں۔ وہاں اب ان کی شناخت ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کے اندر شامل ہوجانے والے طالبان کو علیحدہ کرنا بھی خاصا مشکل کام ہے ۔پھر ان گروپوں کا طالبان کے کسی بڑے گروپوں سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔

ایک وہ دہشت گرد ہیں جنہوں نے شمالی وزیرستان میں اپنی حکومت قائم کر رکھی ہے ۔جووہاں اپنا پرچم لہراتے ہیں۔ اپنا قانون چلاتے ہیں ۔نہ پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں نہ پاکستانی حکومت کو …اور مسلسل کئی سالوں سے جنگ کرتے آرہے ہیں اوراس وقت تک ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کر چکے ہیں۔ انسانی زندگی کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔بڑی تعداد میں ہمارے فوجی بھائی بھی ان کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں۔ یہ بھی کئی گروپوں میں تقسیم ہیں اور اس میں کئی نسلوں کے لوگ شامل ہیں ۔اطلاعات کے مطابق پاکستان میں طالبان کے بارہ اہم گروپ ہیں جن میں تین گروپ بیت اللہ محسود گروپ ،حافظ گل بہادر گروپ اور ملاّ نذیر گروپ آپس میں اتحاد کرچکے ہیں۔ ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے گروپ بھی ہیں۔ یعنی ہمیں مذاکرات کیلئے تقریباً پندرہ سولہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑے گروپوں کے ساتھ گفت و شنید کرنا ہوگی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان گروپوں کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے یا نہیں۔

اگر اس وقت تک جو پاکستانی طالبان کے مطالبات سامنے آئے ہیں ان پر ٹھنڈے دل سے غور کیاجائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ان کے دو بنیادی مطالبات ایسے ہیں جنہیں کوئی پاکستانی حکومت تسلیم نہیں کر سکتی۔پہلا یہ کہ امریکہ کا مکمل طور پر بائیکاٹ کر دیا جائے اور اگر اس صورت میں امریکہ کے ساتھ جنگ کا خطرہ ہے تو ضرور جنگ کی جائے چاہے ملک تباہ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اور دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ آئین منسوخ کردیا جائے کیونکہ وہ جمہوری ہے اور جمہوری نظام کفریہ نظام ہے ملک میں ویسا اسلامی نظام نافذ کیا جائے جیسا وہ چاہتے ہیں۔پھریہ بھی ہے کہ ان مطالبات کے تسلیم ہوجانے کے بعد بھی وہ اسلحہ سے دست بردار نہیں ہونگے کیونکہ یہ ان کی روایات کے خلاف ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت مں کیا کیا جائے ۔کیا پوری ریاستی طاقت کا بھرپور استعمال کیا جائے ۔یقیناً اس عمل میں کئی بے گناہوں کا خون بھی بہے گا۔ پاک فوج کو بھی بہت زیادہ قربانیاں دینا ہوں گی۔ بہر حال جو بھی کیا جائے میرا صرف اتنا مشورہ ہے کہ جلدی کیا جائے ۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے