محمود ہاشمی . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

محمود ہاشمی

محمود ہاشمی

یوں توکالم کی آنکھوں میں ہر روز آنسو ہی ہوتے ہیں۔ کبھی کراچی میں بے گناہ شہید ہونے والوں کا ماتم توکبھی کوئٹہ کی کربلا پر نوحہ خوانی، کبھی کالم پاک فوج کے شہیدوں کی عظمتوں کو خراج عقیدت پیش تو کبھی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے معصوم پاکستانیوں کے دکھ پربین… افسردگی ، اداسی اورغم صرف میرے ہی نہیں ہر کالم نگار کے کالموں کا اثاثہ بن کر رہ گئے ہیں حتی کہ عطاالحق قاسمی جو مزاح نگار ہیں ان کے مزاح میں چیخیں کروٹیں لیتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہیں ۔آج پھر میرے کالم کی کیفیت وہی ہے مگر آج کاغم تھوڑا سا مختلف ہے۔ آج پھر میراقلم رو رہا ہے ۔سامنے پڑا ہوا کاغذ نم آلودہے ۔ ساتھ رکھے ہوئے اخبار کی سرخیاں چیخ رہی ہیں۔جملے ٹوٹ رہے ہیں ،تحریر اداس ہے کہ کشمیر اداس ہے لکھنے والا ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ گیا ہے ۔ ادب اور صحافت کی ایک عظیم صدی اختتام پذیر ہوگئی ہے۔میں آج بہت ملول ہوں کہ محمود ہاشمی بھی فوت ہو گئے ہیں۔ ابھی تو میں نے اپنے بزرگ دوست اور استاد سید نصیر شاہ کی موت کا نوحہ بھی نہیں لکھا تھا۔ابھی کتنے نوحے لکھنے باقی تھے۔وہ جو کچھ لکھنا جانتے تھے وقت ان کے کتبے میرے سامنے قطار در قطار سجاتاجا رہا ہے ۔اردو ادب میں اب کون رہ گیا تھا یہی دوچار لوگ تھے جن کے دم سے شہرِ سخن کا بھرم قائم تھا۔ یہی احمد ندیم قاسمی ، احمد فراز، منیر نیازی ، ، شہزاد احمد، بیدل حیدری ،وزیر آغا، محمود ہاشمی اور ان جیسے دوچار لوگ تھے جن میں اب صرف ظفر اقبال ، انتظار حسین ، عبداللہ حسین، ساقی فاروقی اور عطاالحق قاسمی ہی رہ گئے ہیں، نجانے کس وقت کس کے کوچ کا نقارہ بج جائے۔ محمود ہاشمی کی عمر اگرچہ ایک سو سال کہیں زیادہ تھی مگر دل بار بار یہی کہتا ہے کہ انہیں ابھی نہیں مرنا چاہئے تھا مگر یہ لوگ تو مرنے کیلئے پیدا ہی نہیں ہوا کرتے ۔ان کی آواز، ان کے لفظ ، ان کی سوچ کہاں مر سکتی ہے ۔

ان کی مثال تو اس آک کے کویے کی ہے جس کے پھٹنے سے زندگی جاگتی ہے اور ہوا کویے سے نکلنے والے نرم و ملائم ریشے اٹھا کر ہر طرف بکھیر دیتی ہے۔ ہر ریشے کے گچھے کے ساتھ ایک بیج ہوتا ہے جو جہاں گرتا ہے وہیں آک کا ایک اور پودا جنم لینے لگتا ہے ۔محمود ہاشمی زندگی بھر اسی کویے کی طرح برطانیہ کے برف آباد جزیرے میں بِکھرتے رہے ہیں اور ان کے لفظوں کے نرم و ملائم گچھے روشنی اور خوشبو کے بیج لے کراردو ادب اور اردو صحافت کی سرزمینیں زرخیر و شاداب کرتے رہے ہیں ۔محمود ہاشمی کی پہلی کتاب ’’کشمیر اداس ہے ‘‘ 1950میں شائع ہوئی تھی مگر اس سے پہلے بحیثیت تنقیدنگار وہ اپنی پہچان دنیائے ادب میں کراچکے تھے ۔اس زمانے میں ان کے ایک ڈرامے ’’انارکلی کی واپسی ‘‘ کوبھی بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی یہ ڈرامہ مشہور رسالے ’ساقی ‘‘ کے 1947کے ’’سالانہ نمبر میں شائع ہوا تھا اس کے بعد اسے سری نگر میں باقاعدہ اسٹیج بھی کیا گیا تھا۔1943سے1947کے درمیانی عرصہ میں محمود ہاشمی کے جو مضامین اور افسانے مختلف رسالوں میں شائع ہوئے تھے انہوں نے انہیں بھرپور شہرت دی تھی اور پھر کشمیر اداس ہے نے انہیں زندہ و جاوید کردیا۔

برطانیہ کی صحافتی زندگی میں ان کی حیثیت بنیادی ہے ۔انہوں نے یہاں مشرق اخبار نکالاتھا اور برطانیہ کو اردو صحافت سے روشناس کرایا تھا۔ان کی ایک کتاب’’موت کا جہنم ‘‘اور کچھ بچوں کے قاعدے بھی شائع ہوئے مگر ان کتابوں کو زیادہ شہرت حاصل نہ ہوئی ۔ان کی تازہ ترین کتاب’یہ شاعر وافسانہ نویس‘‘2003میں شائع ہوئی ۔جس کا دیباچہ ڈاکٹرانورسدید نے لکھا۔وہ اپنے دیباچہ کا آغاز کچھ یوں کرتے ہیں ’محمود ہاشمی کی تصنیف ’’کشمیر اداس ہے ‘‘ان معدودے چند خوش قسمت کتابوں میں سے ہے جو شائع ہوتے ہی اپنے تخلیق کار کو حیاتِ جاوداں سے سرفراز کردیتی ہیں اور پھر مصنف کے ذاتی تشخص کا مستقل وسیلہ بن جاتی ہیں ‘‘کشمیر اداس ہے ‘ ایک رپورتاژ ہے جس میں کشمیر کا دکھ گنگنا رہا ہے ۔جنتِ ارضی میں درد و کرب کی کیفیت کوکاغذوں پر سمیٹ دیا گیا ہے۔ پاکستانی ادب میں ’’کشمیر اداس ہے ‘‘کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہے اس کتاب پر کئی تھیسس لکھے جاچکے ہیں مگر مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا کہ حکومت ِپاکستان نے اس کتاب کے حوالے سے محمود ہاشمی کو کسی بڑے ایوارڈ سے نہیں نوازا۔حالانکہ یہ سرکاری ادبی اعزاز بے شمار غیر ادیبوں کو بھی مل چکے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا برطانیہ میں مقیم ہونا تھا۔

برطانیہ میں رہنے والے ادیبوں اور شاعروں کی طرف حکومت پاکستان کے اعلیٰ آفسران کی نگاہ پتہ نہیں کیوں جاتی شاید ادب میں بھی کوئی دہری شہریت مسئلہ ہو یا پھر برطانوی اردو کے ادیب خو د بڑے بڑے سرکاری آفسروںکو تلاش کرکے انہیں کتابیں نہیں پہنچا سکتے۔ایک اور بڑا نام ساقی فاروقی کا ہے۔ وہ بھی برطانیہ میں مقیم ہیں اوران دنوں تو ان کی طبعیت بھی ناساز ہے کئی ماہ سے اسپتال میں ہیں ۔ انہیں بھی کسی طرح بڑے سرکاری ایوارڈ سے نہیں نوازا گیا۔میری عطا الحق قاسمی سے در خواست ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں میں انہیں انعام الحق جاوید کے پاکستان بک فاونڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل بننے پر مبارک باد دیتا ہوں اوراس کے ساتھ عرفان صدیقی کے خصوصی معاون بن جانے کی مبارک باد کا حقداربھی انہی کو سمجھتا ہوں اور محمود ہاشمی کی وفات پرعطاالحق قاسمی سے بھی اظہارِ افسوس کرتا ہوں۔ بہرحال ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے۔ کوئی ہے جو اسے روک سکے۔ کوئی ہے جو اسے ٹوک سکے ۔اور میرے قریب پڑی ہوئی محمود ہاشمی کی کتابوں سے آواز آرہی ہے ۔ہاں ! ہمارے اندر موتیوں کی طرح چنے ہوئے لفظ۔ موت کے مد مقابل کھڑے ہیں ان سے موت ٹکرا ٹکرا کر شرمندہ ہوتی رہتی ہے فنا ایک عریاں حقیقت سہی مگر یہ علم و قلم کی روشنی ۔ یہ زندگی پہ سایہ فگن روشنی ۔اس کی قسمت میں فتح و نصرت کا لمحہ ہی تحریر ہے ۔کیونکہ آسمانوں سے آتی ہوئی یہی روشنی ذوالجلال اور بقا ساز ہے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے