لیاری سے ہجرت . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

لیاری سے ہجرت

لیاری سے ہجرت

سپریم کورٹ نے کہاہے ”لوگ لیاری سے ہجرت پر مجبور گئے ہیں۔وقت نے اس ہجرت کی کالک صرف ہمارے چہروں پر نہیں لگائی اکیسویں صدی کے ماتھے پر بھی تھوپ دی ہے۔میں ابھی بیسویں صدی کے شہر سے اس امید کے ساتھ نکلا تھا تھا کہ اگلادیار روشنیوں اور خوشبوؤں سے بھرا ہوا ہو گامگر اس وقت مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میں انسانی تاریخ کے انتہائی بد قسمت موڑ پر کھڑا ہوں۔گھور اندھیرے آنکھوں میں چبھنے لگے ہیں۔تاریکیاں دل و دماغ تک اترنے لگی ہیں۔امن ،سلامتی اور عافیت کا نگر کونسا ہے۔کون نہیں جانتاکہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسا نیت کا قتل ہے ۔رنگ ، نسل ، وطن ، مذہب، اور زبان کا اختلاف کسی بھی انسان کے قتل کا جواز نہیں بن سکتا۔انسان کا خون مقدس ہے ۔خون کوئٹہ شاہراہوں پر بہے یا کراچی کی گلیوں میں اس کے تقدس میں کوئی فرق نہیں آتا۔کوئی ہے جو روشن لفظوں میں آسمان کی چھاتی پر کندہ کردے کہ لہو کی کوئی داستان اب کہیں نہیں لکھی جائے گی۔اب کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جائے گا۔اب کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہیں لگائی جائے گی۔کوئی ہے جو دیار عیسویں کی اکیسویں گلی میں امن کی پکار عام کرے ۔سلامتی کے علم بلند کرے۔انسان کو روشنی دے بینائیاں دے بصیرتیں دے کہ وہ اندھا ہو کر اپنے گھر کو آگ لگا رہا ہے۔کوئی ہے جو مظلوموں کی ہجرتوں کو روک لے ۔ہر دروازے سے دستک واپس آرہی ہے ۔کوئی یاں ہے کہ نہیں۔”نہیں کوئی نہیں “اس چیختی ہوئی خاموشی پرنواب امیر محمد خان یاد آگئے ہیں وہ جب مغربی پاکستان کے گورنر ہوتے تھے تو فاروق روکھڑی نے کالاباغ شہر کے حوالے سے کہا تھا:

کوئی تاں نشانی دس چناں توں پیار دی
کیوں گھٹ گئی ہے آبادی تیڈے شار دی
کوٹھیاں دا کاٹھ پٹ چلے کمزور وے

(کوئی بات کوئی ایسا حوالہ کہ کبھی تم اہل شہر کے ساتھ پیاراور محبت سے پیش آئے ہو۔بتاؤ کہ کیوں تمہارے شہر آبادی کم ہوگئی ہے ۔ وہ اپنے مکانوں کا کاٹھ کباڑ اٹھا کر کمزور جا رہے ہیں)جہاں ظلم گلیوں میں کروٹیں لیتا ہو ۔جہاں بندوق کی اندھی گولی زندگی کے تعاقب میں رہتی ہو ۔جہاں سر اٹھا کر چلنے والوں کے جنازے اٹھتے ہوں۔جہاں پولیس اور رینجر قاتلوں سے منہ چھپاتی پھرتی ہو ۔جہاں مائیں صرف جوان بیٹیوں کی لاشوں پر بین کرتی ہوں۔جہاں انصاف کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر دی گئی ہوں۔جہاں صرف موت کی انجمن آباد ہو۔جہاں کچھ ہوجانے کا واہمہ اکثر سچ بن جاتا ہو۔جہاں پیشہ ور قاتل صاحبِ عزو جاہ ہوں اُس بستی سے لوگ ہجرت نہ کریں تو اور کیا کریں۔ہزاروں لوگوں کی اِس ہجرت کو”لیاری سے ہجرت“ کا نام دیا گیا ہے حالانکہ حقیقت میں یہ کراچی سے ہجرت ہے ۔اگر مسئلہ صرف لیاری کا ہوتا تو ہجرت کرنے والے بدین اور ٹھٹھہ کا رخ نہ کرتے ،لیاری کو چھوڑ کر کراچی کے کسی اور علاقے میں آباد ہوجاتے ۔یہ بہت کڑوا سچ ہے کہ لوگوں کومسلسل کراچی ہجرت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔مگر شاید ابھی آسمان زمین سے مایوس نہیں ہوا۔ابھی کچھ لوگ موجود ہیں

مجھے قسم ہے کھجور کی ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح افق کی گود میں گرتے ہوئے چاند کی ۔۔مجھے قسم ہے شام کے کشکول میں کھنکھناتے سکے کی طرح گرتے آفتاب کی ۔۔مجھے قسم ہے صحن کی کچی دیوارسے اونچے لگائے گئے اس چالیس واٹ کے بلب کی جس سے لوڈشیڈنگ کے باوجودہمسائے کا بے چراغ گھر بھی کچھ کچھ روشن ہے۔۔کچھ لوگ رات کے سینے میں خنجر پیوست کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ابھی امید کا چراغ بجھا نہیں ابھی ہمارے سینوں میں دل دھڑکتے ہیں مگر میں کیا کروں مجھے یہ سچ بھی معلوم ہے کہ دل تو بھیڑے کے سینے میں دھڑکتا ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ زیادہ تر کج کلاہ بھیڑے ہی ہوتے ہیں۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے موجودہ حکمرانوں کو شرفِ انسانیت کے مقامِ سے گرنے نہ دے۔اور ہم سب جو ایک خوبصورت حال کے خواہش مند ہیں۔ہمیں بھی اپنی یہ تمنا کسی ڈسٹ بن میں پھینک کر ایک روشن مستقبل کیلئے تگ و دو کرنی چاہئے۔شایدیہی تگ و دوزمانہ حال میں بھی کچھ بہتری لے آئے۔وگرنہ اندھیروں میں تو چراغ جلائے سکتے ہیں ۔ تاریک گلیوں میں لائٹس تو لگائی جا سکتی ہیں۔ حکومتی تندوروں پر دو روپے کی روٹی توبیچی جا سکتی ہے۔غربیوں کے میلے میلے بچوں کیلئے اجلے اجلے سکول تو کھولے جا سکتے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ سے کسی بیمار بڑھیا کی دوائی توخریدی جا سکتی ہے ۔مگر نظام نہیں بدلا جا سکتا۔صبح نہیں ہوسکتی۔

میں جب شبِ تاریک رکھوالوں کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ہم عجیب و غریب ظالموں کے درمیان گھرے ہوئے ہے جنہیں کانٹوں کو گلاب بنانے کا فن آتا ہے جو شعلوں کو شبنم میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں ۔جواندھے غاروں کو کہکشائیں صرف قرار نہیں دیتے ثابت بھی کرتے ہیں۔جن سے ہاتھ ملایا جائے تووہ ہاتھ کاٹ لیتے ہیں مگربہتا ہوا لہوبھی اس واردات کی خبر دینے پر آمادہ نہیں ہوتاوہ ایسے آئینہ دکھانے لگتے ہیں کہ آنکھیں نکال لیتے ہیں، گیت سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اورزبان کاٹ لیتے ہیں۔پھراسی لکنت بھری آواز کو تمغوں سے بھی سرفراز کرنے لگتے ہیں۔کیا کہوں ہمیں نادیدہ ستم گروں کے ایک عجیب و غریب لشکر اپنے محاصرے میں ہے ،میں اُن کیلئے حضرت علی کا ایک پیغام درج کر رہا ہوں۔ممکن ہے اسے پڑھ کر کوئی لپکتا ہوا خنجرٹھہر جائے۔کوئی کمان سے نکلا ہوا تیر واپس پلٹ جائے ۔

”تمہارے سروں میں دماغ نہیں غلاظت بھری ہوئی ہے تمہاری آنکھیں خناسوں کے گھونسلے ہیں جہاں سے فتنے جھانکتے ہیں۔ تمہاری زبانوں سے سانپ جھڑتے ہیں۔ ڈرو اپنے ہاتھوں سے کہ وہ تمہارے ہی گلے گھونٹنے کو تم پر لپکنے والے ہیں“۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے