میں ایک انسان ہوں اور میرے لئے اس کائنات میں کوئی اجنبی نہیں ۔سب میرے بھائی ہیں۔ میں ہر انسانی ہلاکت پر نوحہ خواں ہوں چاہے وہ حفاطت کرنیوالی پولیس کی رائفلوں سے نکل رہی ہو یاکسی گلوبٹ کے پستول سے ۔ مجھے جسموں کے ساتھ بارود باندھ کر اپنے گرد و نواح کو لوتھڑوں میں بدلنے والوں کا غم ہے ۔مجھے انسان کا غم ہے۔ یعنی اپنا غم ہے میں جس کا وطن کائنات ہے ۔ جس کی قومیت آدمیت ہے۔ جس کا مذہب انسانیت ہے۔ جسکی زبان محبت ہے ۔میں فقط ایک انسان ہوںمگر میں نے جب بھی اپنی بات کی ہے مجھے قتل کر دیا گیا۔ میں نے جب بھی کہا ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ تومیرے جسم کے دیواروں پر چپکے ہوئے لوتھڑوں پر اورزیادہ فائرنگ کی گئی۔دوستو! میں زندہ رہنا چاہتا ہوں ۔اور ہر شخص کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔ ایک خوشبو بھری شام میں ۔ایک چاندنی بھرے گیت کی تال میں ۔ ایک مراقبے میں کھوئی ہوئی روح کے وجد میں ۔ ایک تہجد کیلئے اٹھی ہوئی نماز میں ۔ ایک چرچ کے گنگناتے سروں کی لاہوتی فضا میں۔ایک مندر میں گونجنے والے اشلوک کے راگ میں ۔ ایک سیناگاگ میں ہوتی ہوئی مناجات میں ۔ ایک گوردوارے میں ارداس کی صورت بابا فرید کی کافیوں کے ساتھ اور تیرہ غاروں میں کھڑی ہوتی نمازوں کے بیچ۔پتہ نہیں ہم کیوں بھول گئے ہیں وہ جو آج سے چودہ سو سال پہلے محمدِ عربیؐ نے فرمایا تھاکہ جو تمہاری راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں تم ان کی راہ میں کانٹے نہ بچھاؤ اس طرح تو دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی اور کانٹوں میں جینا مشکل ہے اگر ہو سکے تو ان کی راہ میں پھول بچھاؤ کہ پھولوں کے جمال میں کھو کر وہ اپنی پرانی عادت بھول جائیں ‘‘مگر ہم ہیں کہ ہر لمحہ کانٹے بکھیرتے چلے چارہے ہیں۔ کہیںلاٹھی چارج کا رقص ہے تو کہیں آنسو گیس کے بادل ہیں ۔کہیں گولیوں کے سرخ گلاب ہیں تو کہیںواٹر توپ کے آبشار۔جھوٹ کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں سچائی کی جنگ جاری ہے ۔ہارنے پر نہ دن تیار ہے اورنہ رات۔میاں محمد بخش نے کہا تھا جتن جتن ہر کوئی کھیڈے ہارن کھیڈ فقیرا۔مگر یہ دنیا اب فقیروں کی دنیا نہیں رہی ۔اب فقیر بھی جھگڑا کرتے ہیں ۔کل میں نے بھی ایک فقیر سے پوچھا کہ’ سگانِ شہر سے کیا جھگڑا ہے تمہارا‘۔ تو کہنے لگا
جزاور کیا کسی ہے جھگڑا فقیر کا
کتوں نے روک رکھا ہے رستہ فقیر کا
میں نے عرفی کا یہ شعر سناتے ہوئے فقیرکو حوصلہ دیا کہ
کوئی آگے بڑھتے رہو
عرفی تُو نہ اندیش ز غوغائے رقیباں
آواز سگاںکم نہ کنند رزقِ گدارا
فیض احمد فیض نے اپنی مشہور نظم ’’نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن‘‘۔میںسعدی شیرازی کے مصرع’’سنگ رابستند وسگاں را کشادند‘‘ کے تتبع میںکہا تھا
ہے اہل دل کیلئے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اورسگ آزاد
بہر حال معاملہ جو بھی ہے کسی بے گناہ انسان کا قتل کسی صورت میں گوارہ نہیں کیا جاسکتا۔ماڈل ٹائون سے فیصل آباد خون کی برقی تار بچھائی گئی ہے۔اس کے درمیان کسی ٹائم بم کاکہیں ایک نازک سا فیوز بھی ہے اور دھماکے کی ہولناکی کا احساس صرف ایک دہشت بھرا خیال نہیں۔انسانوں میں پھیلتا ہوا اعصابی تنائواور ہم جیسے سہمے ہوئے لوگوں کی جلد پر خوف کے پسینے کی بوندیںبار بار اپنے ٹیلی وژن سے کسی خوفناک موسم کی پیشن گوئی کر رہی ہیں۔بگڑتے ہوئے حالات سنوارنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ خدانخواستہ اگر کہیں تقدیر بگڑ گئی تو اسے سنوارنا ناممکن ہوجائے گا۔اور اس کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔حضرت عمر فاروقؓ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے حکمرانی کا صحیح شعور ایک بڑھیا سے حاصل ہوا جب میں بیت المقدس کے سفر سے واپس آرہا تھا تو صحرا میں ایک بڑھیا کے خیمے کے پاس رکا ۔ بڑھیا سے ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے پوچھا ’’تمہیں عمر کا بھی کوئی پتہ ہے ؟‘‘ کہنے لگی ’’ مجھے اس کی خبر رکھنے کی کیا ضرورت ہے کیا کبھی اس نے آکر میری خبر دریافت کی ہے ‘‘ میں نے کہا ‘‘ مائی آپ مدینہ سے دور دراز کے ایک صحرا میں بیٹھی ہیں بھلا وہ یہاں کی خبر کیسے رکھ سکتا ہے ‘‘ کہنے لگی ’’ جن دور دراز علاقوں کی وہ خبر نہیںرکھ سکتا ان پر حکومت کیوں کرتا ہے وہ دن اور آج کا دن ہے کہ میں حکومت کے کارندوں کے ذریعے حدود خلافت میں دور و نزدیک کے ہر باشندے کی خبر گیری کی کوشش کر تا ہوں۔حکومت نے غیر مشروط مذاکرات کاتو اعلان کردیا ہے مگر تین ماہ پہلے سے بنایا جانے والا جوڈیشل کمیشن ابھی تک راستے میںہے۔اور کراچی کے بعد لاہور بند ہونے کا دن آچکا ہے۔یعنی ابھی اور لاشیں گرنے کا امکان ختم نہیں ہوا۔