قیدیوں کا جلوس . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

قیدیوں کا جلوس

قیدیوں کا جلوس

دہشت گردی کے سرخ گلابوں کی زد میں آیا ہواڈیرہ،پھولوں کاسہرا،سچ تو یہی ہے آج بھی بالکل اسی طرح کا شہر ہے جیسے پاکستان کے دوسرے شہر ہیں۔ وہاں سینما گھر ہیں ،آرٹ سینٹر ہیں ۔ میوزک کی اکیڈمیاں ہیں۔ مشاعرے ہوتے ہیں ۔رقص و نغمہ کی محفلیں آباد ہوتی ہیں ۔شادیوں پربھنگڑے بھی ڈالے جاتے ہیں ۔فائرنگ بھی کی جاتی ہے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان شدت پسندوں کا نہیں،دھڑکتے ہوئے دل رکھنے والے انسانوں کا شہر ہے ۔اس شہر کی خوشبو بھری سہ پہرکے رنگ آنکھوں سے اترے ہی نہیں ہیں۔ یہ تو وہ شہر ہے جہاں سے ذوالفقار علی بھٹو الیکشن لڑے تھے ۔ابھی گزشتہ انتخابات میں بھی پیپلزپارٹی اس شہر میں کامیاب ہوئی تھی۔یہ شہرصوبہ پختونخوا کا ایک ماڈرن شہرہے ۔ موسموں کی تبدیلیوں کی خبر یہیں سے نکلتی ہے ۔موسمی حالات بتانے والا دوسرا بڑا اسٹیشن اس شہر میں ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی بھی یہیں ہے۔ جہاں لڑکیاں لڑکے اکٹھے پڑھتے ہیں، یہاں میڈیکل کالج بھی ہے، ریڈیو اسٹیشن ہے،ائیرپورٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس شہر میں ایک بہت بڑی فوجی چھاؤنی ہے ۔ شہر کے مشرق میں جہاں تک دریائے سندھ بہتا ہے،اس کے کنارے پر کنٹونمنٹ بورڈ کا ایریا میلوں تک پھیلا ہوا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دفاعی اور انتظامی اعتبار سے یہ شہر ہر طرح سے محفوظ ہے۔شمال میں کینٹ کا ایریا محکمہ موسمیات کے ہیڈ آفس کو چھوتا ہے اور جنوب میں عدالتیں اور حکومتی دفاتر ہیں۔مگر اس وقت میرا موضوعِ سخن ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل ہے۔ملتان روڈ پر واقع یہ جیل کینٹ جامع مسجد سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ گاڑی پر صرف چار منٹ کی ڈرائیو ہے۔ ملتان روڈ کینٹ ایریا سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ سرکلر روڈ کے ہاف جنوبی سرکل پر ملتان روڈ شروع ہوجاتا ہے۔ سرکلر روڈ آدھے سے زیادہ آرمی کے کنٹرول میں ہے کیونکہ سرکلر روڈ کا تمام مشرقی حصہ کینٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جیل روڈ پر پولیس لائن بھی ہے یعنی پولیس کی بھاری نفری ہروقت اس بیچاری جیل کے قرب و جوارمیں موجود ہوتی ہے۔اتنی تفصیل درج کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ وہ جیل میں کل پانچ سو بیس قیدی تھے اس میں سے248 فرار ہونے میں کیسے کامیاب ہوگئے ۔ بے شک ڈیرہ اسماعیل خان کو بابِ وزیرستان کہا جاتاہے، یعنی وزیرستان کا دروازہ اس شہر سے صرف ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر ٹانک ہے جو وزیرستان کا سرمائی دارالحکومت بھی ہے۔

مگر پھر بھی اتنی آسانی جو کچھ وہاں ہوا ہے وہ نہیں ہو سکتا تھا یہ جملہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل پر تحریک ِ طالبان کے شدت پسندوں نے رات کی تاریکی میں حملہ کیا اور 243 خطرناک قیدیوں کو چھڑوا کر لے گئے مگر وہ لوگ جو ڈیرہ اسماعیل خان کو جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ یہ جیل کہیں وزیرستان کے پہاڑوں میں نہیں ایک شہری فوجی چھاؤنی کے تقریباً ملحقہ جیل ہے اور پھر یہ سب کچھ چند لمحوں میں بھی نہیں ہوا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ حملہ آور بڑے آرام سے تشریف لائے اور بڑے آرام سے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر تشریف لے گئے ۔ وہاں سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہوتا رہا۔ وہ لاوٴڈ اسپیکرز پر اپنے ایک ایک ساتھی کا نام پکارتے رہے ۔ نعرہ ہائے تکبیر کے علاوہ طالبان زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے رہے۔ جب ایک ایک کرکے 243 قیدی باہر آئے تو گویا ایک جلوس کا سماں بن گیا اور پھر اس جلوس کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ صوبہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے ڈی آئی خان سینٹرل جیل پر حملے کو انٹیلی جینس اور دیگر متعلقہ محکموں کی ناکامی قرار دیا ہے جب کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق تین روز پہلے خفیہ ایجنسیاں جیل پر ہونے والے اس حملے کی پیشگی اطلاع دے چکی تھیں۔ بہرحال الحمدللہ سرکاری خبر رسانوں کے مطابق سیکورٹی فورسز نے سینٹرل جیل پر حملہ کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی کارروائی کے بعد جیل کا کنٹرول دوبارہ سنبھال لیا ہے تاہم حکام کے مطابق 248 سے 14کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے۔(مگر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان چودہ قیدیوں کا تحریک طالبان سے تعلق نہیں )چھ اہلکاروں سمیت بارہ افراد ہلاک اور تیرہ زخمی ہوئے ہیں۔وقوعہ رات میں پیش آیا۔ اگلے دن ڈیرہ شہر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ نہ صرف ڈیرہ میں بلکہ ٹانک شہر میں بھی کرفیو نافذ کیا گیا۔رہا ہونے والے قیدیوں میں مشہور طالبان کمانڈرز عبدالحکیم اور حاجی الیاس بھی شامل ہیں۔جیل حکام کی رپورٹوں کے یہ جیل ایسی نہیں ہے جس میں خطرناک قیدیوں کو رکھا جاسکے ۔ماضی میں عموماً خطرناک طالبان قیدیوں کو دوسرے صوبوں کی جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہاہے۔

اس واردات میں اہم ترین سوال حملے کے وقت کا تعین ہے کہ اس وقت طالبان کو اپنے ساتھیوں کی رہائی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔اس سوال کے جواب کیلئے بعض مساجد کا رخ کیاجائے جہاں کچھ دماغوں میں بزورِ تلوار عالمگیر غلبہٴ اسلام کی خواہش مچلتی رہتی ہے تو وہاں ان دنوں بلاتفریق ِ شیعہ و سنی ”حزب اللہ“ کی فتح کی دعائیں مانگی جارہی ہیں۔ دیوبندی اور شیعہ فرقوں کا یہ اتصال یعنی حزب اللہ کے موٴقف پر ایک ہوجانے کو جہاں پاکستان میں شیعہ سنی تفرقہ کے خاتمے کے لئے نہایت مفیدقرار دیا جارہاہے وہاں یہ افواہ بھی گردش میں ہے کہ پاکستان ، افغانستان اور ایران کے مجاہدین جوق در جوق لبنان جارہے ہیں۔

لبنان میں حزب اللہ ایک طاقتور سیاسی تنظیم ہے جو اپنے اتحادیوں کے ہمراہ، لبنان کی گزشتہ کابینہ کا اہم حصہ تھی۔ یہ کابینہ اس سال مارچ میں مستعفی ہوئی۔لبنانی حکومت نے جمعہ کو برسلز پر زور دیا کہ وہ حزب اللہ کے خلاف اقدمات نہ کریں۔ حکومت نے حزب اللہ ملیشیا کو ’لبنانی معاشرے کا لازمی جز‘ قرار دیا۔ گویا لبنانی حکومت حزب اللہ کو دہشت گرد شمار تسلیم نہیں کرتی۔ حزب اللہ کی جانب سے شام میں جاری لڑائی میں شمولیت کے بعد یورپی یونین میں حزب اللہ کے فوجی دھڑے کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ آیا فی الواقعہ پاکستانی اور افغانی مجاہدین اور طالبان کا رخ اب لبنان کی طرف ہوگیا ہے مگر شام میں طالبان کی موجودگی کی تصدیق خود طالبان کر چکے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ شام میں یہ اڈہ افغانستان میں لڑائی میں حصہ لینے والے ان عرب نژاد جنگجووٴں کی مدد سے قائم کیا گیا ہے جو حال ہی میں شام میں جاری لڑائی میں حصہ لینے کے لئے وہاں گئے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ وہاں طالبان کے مختلف گروپ مخالف قوتوں کا ساتھ دیتے ہوئے ایک دوسرے سے جنگ کریں گے۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے