قلم ، سگریٹ اورانگارہ. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

قلم ، سگریٹ اورانگارہ

قلم ، سگریٹ اورانگارہ

کلچر کی کرپشن کچھ اس طرح رگوں میں دوڑتی پھرتی ہے کہ دیانت داری اور بددیانتی کے درمیان جو واضح سی لکیر ہوتی تھی اسے دیکھنے کیلئے آنکھوں کو کھوجنے کی سعادت حاصل کرنا پڑتی ہے۔اسی تنا ظر میں ،میں کچھ لکھنے لگا تو قلم اُس ان جلے سگریٹ میں بدل گیا جو میری انگلیوں کیلئے انگارہ بن گیا تھا۔

یہ 2000 ء کی بات ہے ۔میری کار لندن سے بریڈفورڈ جانے والے موٹروے ایم ون پر دوڑتی جا رہی تھی ،اور میں ایک نئی زندگی کے آغاز میں کہیں کھویا ہوا تھا سوچ رہا تھا کہ بنک میں بزنس اکائونٹ کھلوانا ہے ، الیکٹرورل لسٹ میں اپنے نام کا اندراج کرانا ہے ۔ابھی ایک سو پونڈ روڈ ٹیکس کا ادا کیاتھا اور یہ سو پونڈ دیتے ہوئے مجھے پاکستان بہت یاد آیا تھا۔وہ واقعی ایک آزاد ملک ہے یہاں تو گاڑی سڑک پر لانے سے پہلے سڑک کا کرایہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ اگلے مہینے کار کی ایم او ٹی بھی کرانی ہے،یعنی کیا وہ روڈ پر چلنے کے قابل ہے یا نہیں۔ اور میرے دوستوں کو اس بات کا خدشہ بھی تھا کہ اس کار کی ایم او ٹی نہیں ہو سکے گی اس کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے مگر مجھے اس کار میں کوئی خرابی نہیں دکھائی دیتی تھی وہ کار اگر پاکستان میں ہوتی تو اس کی قیمت کم از کم پانچ چھ لاکھ روپے ضرور ہوتی۔ انہی سوچوں میں گم ۔ میں نے اسپیڈو میٹر کی سوئی کی طرف دیکھا ہی نہیں جو کافی دیر سے نوے میل فی گھنٹہ کی رفتار پر پہنچی ہوئی تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا پاکستان سے مستقلاً برطانیہ آیا تھا۔ ایک پرانی فورڈکار آکشن سے دو سو پونڈ کی خرید لی تھی انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس میں اپنے ساتھ پاکستان سے لایاتھا،ہاں البتہ کار کی انشورنس ایک سال کیلئے دو ہزار پونڈ میں ہوئی تھی۔میں نے کوشش کی تھی کہ انشورنس کے بغیرسلسلہ چل جائے مگر دوستوں نے سمجھایا کہ یہ پاکستان نہیں ہے پکڑے جائو گے سو مجبوراً انشورنس بھی کرالی تھی۔

اچانک ایک تیزرفتار پولیس کار میرے آگے آگئی اور مجھے گاڑی روکنے کا اِشارہ دینے لگی ۔مجبوراً میں نے کار ایک طرف ہارڈ شولڈر پر کھڑی کرلی اور فوراً گاڑی سے باہر نکل آیا۔ پولیس کار میں ایک ہی پولیس مین تھا وہ بھی کار کھڑی کر کے ڈرائیوِنگ سیٹ سے اٹھ کر میری طرف بڑھا تقریبا ًہم دونوں ایک ہی وقت میں اپنی اپنی گاڑیوں سے باہر آئے اورایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ اس نے مجھے سر کہہ کر بہت احترام سے مخاطب کیا میں نے تو خیر اسے ’’سر‘‘ کہنا ہی تھا یہ تو ہم پاکستانیوں کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے۔ یہ تو مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں کسی کو کسی کا سر کہنا بہت بڑی بات ہے۔خیر اس نے مجھے بتایا کہ میں حدِ رفتار سے کتنا زیادہ آگے جا رہا تھا جس پر میں نے اس سے سوری کیا۔اس نے مجھے ایک کاغذتھما دیا اور کہا کہ اپنے قریبی پولیس اسٹیشن پر جا کر اپنے کاغذات چیک کرا دیجئے گا۔پولیس اسٹیشن جانے سے بچنے کیلئے میں نے اسے کہانی ڈالنی شروع کردی۔ وہی گھر سے دس میل دور پردیسی ہو جانے والی کہانی کہ میں ابھی کچھ دن ہوئے ہیں پاکستان سے آیا ہوں۔ یہاں کے قوانین کے متعلق کچھ زیادہ نہیں جانتا پلیزتم ہی میرے کاغذات دیکھ لو تاکہ مجھے پولیس اسٹیشن نہ جانا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا ایک سگریٹ خود لگا لیا اور دوسرا اسے پیش کیا۔ اس نے معذرت کی ۔مگر میں پاکستانی تھا اسے سگریٹ لینے پر مجبور کر دیا اس نے سگریٹ تو لے لیا مگر اسے جلایا نہیں اور کہا ’’لائیے کاغذات چیک کرا دیجئے ‘میں نے اسے کاغذات دکھائے اس نے باقی کاغذ توسارے واپس کر دئیے مگر میرا ڈرائیونگ لائسنس اپنے پاس رکھ لیااور وہیں چالان پر بنے ہوئے ایک خانے کو پین سے ٹک کرادیا اور کہا کہ اب آپ فکر نہ کریں آپ کے پاس خط پہنچ جائے گا ۔ اس کے سگریٹ لے لینے سے میں مطمئن ہو گیا تھا کہ اب میرے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوگی۔

اس واقعہ کو ابھی تین دِن بھی نہیں گزرے تھے کہ مجھے کورٹ سے لیٹر آگیا کہ فلاں تاریخ کو فلاں عدالت میں تم نے پیش ہونا ہے۔ میں نے فوراً دوستوں سے مشورہ کیا۔ وکیل کرنے کے متعلق سوچا مگر پتہ چلا کہ اگر میں وکیل کروں تو کم از کم اسے ایک ہزار پونڈ دینے پڑیں گے اور پھر بھی فیصلہ میرے خلاف ہوگا۔ بہتریہی ہے کہ خود چلاجائوں تو جج چالیس پچاس پونڈ جرمانہ کردے گا۔میں نے دل ہی دل میں اس پولیس آفسر کو بڑی صلواتیں سنائیں، مجھے اپنے سگریٹ کے ضائع ہوجانے کا اتنا دکھ نہیں تھا(اگرچہ برطانیہ میں ایک سگریٹ کی قیمت بھی پاکستانی حساب سے ستر روپے بنتی ہے)جتنادکھ اس بات کا تھا کہ میں نے اُس کی مسلسل آدھا گھنٹہ خوشامد کی تھی ۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے میرے اتنے خوبصورت اور احترام بھرے لچک دارلفظوں کو اٹھا کر گندی نالی میں پھینک دیا ہو۔

میں مقررہ تاریخ کو عدالت میں پہنچ گیا وہاں میرا کیس سننے کیلئے ایک نہیں تین جج بیٹھے ہوئے تھے،جنہیں دیکھ کر میرا دل دہل گیا۔ میں نے فوراً سوچا کہ یہاں ججوں کا پینل بیٹھا ہوا ہے۔ لگتا ہے اس پولیس آفیسر نے میرے خلاف کوئی بہت سخت کیس بنایا ہے ،میرے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ جج نے شاید میری پریشان حالی پر یقین کرلیا تھا کہ میں واقعی مجرم ہوں۔ بعد میں جب مجھے وہاں ان تین ججوں کی موجودگی کی وجہ پتہ چلی تھی تو مجھے خود پر بڑی ہنسی آئی تھی،دراصل یہاں چھوٹے موٹے مقدمات سننے کیلئے برطانوی حکومت نے ایک جسٹس آف پیس کا چکر چلا رکھا ہے یہ جسٹس آف پیس ہر وہ شخص بن سکتا ہے جو دماغی طور پر ٹھیک ہو اور انگریزی زبان پڑھنا جانتا ہو یہ عوام کو انصاف میں شریک کرنے کیلئے ایک حکومتی اقدام ہے جس کے تحت کوئی بھی عام آدمی جسٹس آف پیس بن سکتا ہے اور اس کام کے عوض اُنہیں کوئی خاص معاوضہ بھی نہیں دیاجاتا۔ اکثر عدالتوں میں ایک وقت میں پینل پر جے پی کے ساتھ دو اور ساتھی بھی بِٹھا دیئے جاتے ہیں تاکہ فیصلہ باہمی مشاورت سے کیا جائے اور اِس سلسلے میں انہیں انصاف کرتے ہوئے زیادہ دقت نہ ہو۔

میرا مقدمہ نجانے کس وقت شروع ہوا اور کب ختم ہو گیا مجھے کچھ پتہ نہ چلا بس دو یا تین منٹ کی گفتگو ہوئی اور اس کے بعدجج نے فیصلہ سنا دیا مجھ پر صرف تیس پونڈ جرمانہ کر دیاگیا اور اس کے ساتھ وارننگ بھی دی گئی۔ابھی میں صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ جج نے مجھے پاس بلا کرمیرا لائسنس اور اس کے ساتھ وہی سگریٹ جو میں نے اس پولیس آفسر کو دیا تھا مجھے واپس کیااس وقت مجھے یوں محسوس ہوا جیسے جج کہہ رہا ہے کہ یہ پاکستان نہیں ہے۔ میں نے لائسنس تو جیب میں ڈال لیا مگر وہ ان جلا سگریٹ آج تک میری انگلیوں میں انگارے کی طرح اٹکا ہوا ہے۔جیسے کہ اس وقت میرا قلم۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے