
قاتل موسم کے انتظار میں تھے
قاتل موسم کے انتظار میں تھے
میں نے حامد میر کے بارے میں چند ماہ پہلے لکھا تھا
’’حامد میر کو سچ لکھنے کے جرم میں طالبان نے موت کی دھمکی دی ہے اوراس نے دھمکی کے جواب میں کہا ہے ’’تم پرویز مشرف سے زیادہ طاقت ور نہیں ۔تم مجھے قتل کر سکتے ہو ۔ میری آواز نہیں دبا سکتے‘‘اللہ تعالی حامد میر اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔میں اس لئے بہت فکر مند ہوں ،کیونکہ’ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ ‘حامد میر جب پیدا ہوئے تھے ایوب خان نے مارشل لاء لگا رکھا تھاپھر یحییٰ خان نے لگا دیاپھر ذراساجمہوریت کا دور دیکھاتو ایک اور مارشل لاء پاکستان کی تاریخ میں مدو جزر پیدا کرنے لگا۔پھر ایک اور۔۔گویا وہ کہہ سکتے ہیں کہ تیغوں یعنی سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں۔مگر سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے قلم کار کی سائیکی جیسی ہونے چاہئے۔ حامد میر کی سائیکی ویسی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی علامتوں اور استعاروں کی مدد سے روشنی اور خوشبوکی گفتگونہیں کی ۔ کبھی آدھے سچ کا شور نہیں مچایاوہ پورے سچ کے ساتھ چار پانچ لاکھ چمکتے ہوئے بوٹوں اوردس لاکھ کالی نیلی پگڑیوںکے سامنے اپنی کمان میں قلم کا تیر کھینچ کراکیلے کھڑے ہیںاورا آج کے پاکستانی سماج میں یہ کام کسی صحیح الدماغ آدمی کا نہیں سمجھا جاسکتاجہاں بڑے بڑے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
مرا گھر ہے مری بیوی ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
میں حامد میر سے چار سال پہلے پیدا ہوا تھااس وقت بھی پاکستان میں مارشل لاء ہوا تھا ۔میں نے جب ذرا سا ہوش سنبھالا تو اپنے بابا کو پاکستان کے غم میں روتے ہوئے دیکھا مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں ایک’’ کانی چارپائی ہوتی تھی۔اس کا ایک پایہ بٹھانے کی کوشش کرتے تھے تو دوسرا خراب ہو جاتا تھا دوسرا بٹھاتے تھے تو تیسراکونا خراب ہوجاتا تھا۔تیسرے کو ٹھیک کیا جاتا تھا تو چوتھا خراب ہو جاتا تھا۔ میرے بابانے اسکا نام پاکستان رکھا ہوا تھا۔وہ حامد میر کے بابا وارث میر کے مداح تھے اورمیں حامد میر کا مداح ہوں حامد میر کے والد گرامی بھی ایک عظیم مجاہد تھے۔ زندگی بھرپاکستان کی خاطرمارشل لاء وں سے جنگ لڑتے رہے اور قلم کے وہ مجاہد اسی جنگ میں دنیائے فانی سے رخصت ہوئے ۔میرے بابا کا خیال تھا کہ حامد میرکا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ وارث میرکے بیٹے ہیں اور میرے خیال میں وارث میر کیلئے بھی سب سے بڑا اعزاز یہی ہے کہ وہ حامد میر کے بابا تھے سچ پوچھئے تو یہ حیرت انگیز واقعہ بھی صرف اسی گھر میں رونما ہوا ہے کہ برگد کے سائے میں ایک اوربرگد نے جنم لے لیا ہے ۔تاریخ ایسے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی باپ کی طرح بڑا آدمی ہو۔ زیادہ تر علامہ اقبال کے گھر جاوید اقبال ہی پیدا ہوتے ہیں
یہ جو کچھ حامد میر کیلئے لکھا ہے میرے خیال یہ بہت کم ہے اور اس وقت اس لئے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ میں نے لکھا تھا ’’ میں جانتا ہوں کسی رائفل کی اندھی گولی حامد میر کے تعاقب میں ہے۔دوستوں حامد میرمانیں یا نہ مانیں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔قاتل موسم کے انتظار میں ہیں۔خدا نہ کرے وہ موسم کبھی حامد میر کی گلیوں میں آئے ۔میرا وہم وہم ہی رہے میں اتنا جانتا ہوں کہ طالبان حامد کو نہیں مار سکتے ۔ مگر ۔۔۔‘‘
بے شک فوج کے ساتھ حامد میر کے اختلافات خاصے تھے مگر میرے خیال میںحامد میر پر قاتلانہ حملے میں فوج کے ملوث کے امکانات کم ہیں لیکن اس وقت چونکہ فوج پر الزام عائد کردیا گیا ہے ۔ اس لئے آئی ایس آئی کو چاہئے کہ وہ اپنے تمام تروسائل بروکار لاکرمجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرے۔ اور انہیں میڈیا کے سامنے لائے تاکہ فوج پر لگائے گئے الزام کی حقیقت سامنے آسکے ۔اس موسم میں حامد میر پر قاتلانہ حملے کی وجوہات کچھ بھی ہوسکتی ہیں ۔چونکہ حکومت اور فوج کے درمیان ایک کشیدگی کی فضا موجودہے۔ ممکن ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی ملک دشمن قوتعہ کے پس منظر میں ہوں۔ فوج کو دبائومیں لانے کیلئے بھی ایسا کچھ کیا جاسکتا ہے ۔وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جن کے حوالے سے میں نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ حامد میر کی زندگی خطرے میں ہے ۔فوج اگر اس سلسلے میں واقعی بے گناہ ہے تو پھر عدالت کے دروازے پہ دستک دینی چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے کہ وہ لو گ جو فوج کے وقار کو مجروح کررہے ہیں کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں ۔وگرنہ فوج کی خامشی ہمیں فراز کا یہ مصرع دھرانے پر مجبور کردے گی۔ پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں۔اللہ نہ کرے کہ احمد فراز کا یہ مصرعہ سچ ثابت ہو۔
mansoor afaq

