قاتلوں سے مذاکرات . mansoor afaq
دیوار پہ دستک

قاتلوں سے مذاکرات

قاتلوں سے مذاکرات

وہ پاکستانی طالبان جنہوں نے شمالی وزیرستان میں اپنی حکومت قائم کر رکھی ہے جووہاں اپنا پرچم لہراتے ہیں ،اپنا قانون چلاتے ہیں ،نہ پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں نہ پاکستانی حکومت کو ۔۔۔اور مسلسل کئی سالوں سے پاکستانی فوج اور پاکستانی عوام کے ساتھ جنگ کرتے آرہے ہیں اوراس وقت تک ہزاروں پاکستانیوں کو قتل کر چکے ہیں ۔بے گناہوں کوقتل کرناجن کامحبوب مشغلہ ہے۔ انسانی زندگی کی جن کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ۔ہمارے بے شمار فوجی بھائی بھی جن کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں ۔اتنے زیادہ سپاہی انڈیا اور پاکستان کی جنگوں میں شہید نہیں ہوئے تھے جتنے ان کے ہاتھوں شہادت حاصل کر چکے ہیں، کتنے ستم اور مجبوری کی بات ہے کہ اس وقت نواز شریف اور عمران خان دونوں اپنے شہیدوں کے لہو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ ان طالبان سے مذاکرات کئے جائیں ۔ چلیں قاتلوں سے مذاکرات کرلئے جائیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذاکرات کئے جائیں؟ مذاکراتی ٹیم ذرا سوچیے انہیں کیا کہے گی یہی نا کہ دیکھو طالبان بھائیو! تم نے آئندہ ہمارے لوگوں کو قتل نہیں کرنا اوروہ کہیں گے ”ٹھیک ہے نہیں کریں گے ہمارے فلاں فلاں قاتلوں کو رہا کردو ۔ ہمیں اتنی دولت دے دو ۔یا ہمارے فلاں قاتل کو جیل سے رہا کرکے اس کے ساتھ مذاکرات کرو جیسے پچھلی مرتبہ مذکرات کیلئے طالبان نے عدنان رشید کا نام پیش کیا تھا۔

یہ وہ مجرم تھا جسے بنون جیل سے طالبان نے جیل توڑ کر نکال لیا تھااور اس کے ساتھ مذاکراتی ٹیم میں سعد عمر اور مسلم خان کا نام شامل کیاتھا جو دونوں قاتل بھی پاکستان کی جیل میں ہیں‘چلو ہم یہ بھی مان لیتے ہیں۔مذاکرات کے نام پر یہ کڑوا گھونٹ بھی بھر لیتے ہیں مگر اس کے بعد اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ وہ اپنے کئے ہوئے وعدہ پرقائم رہیں گے۔کیونکہ قاتلوں کی اس انجمن کی کوئی اخلاقیات تو ہے ہی نہیں جو بچوں اور بچیوں کو قتل کرتے ہوں ان کی کیا اخلاقیات ہوسکتی ہے۔ان کے ساتھ مذاکرات کی بات۔۔۔دل نہیں مانتامگر چلو نواز شریف اور عمران خان بھی اپنا شوق پورا کرلیں۔

ہاں مذاکرات ہوسکتے ہیں ۔مگرطالبان کے ساتھ نہیں ۔شمالی اور جنوبی وزیرستان کے عوام کے ساتھ ۔ ان کے ساتھ یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ان قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کیلئے حکومت پاکستان کا ساتھ دیں اور اس کیلئے وہاں کی عوام جو قیمت بھی کہے وہ اسے ادا کی جاسکتی ہے ۔میرے خیال کے مطابق طالبان امن کے مذاکرات کریں گے مگر وہ نتیجہ خیر کبھی ثابت نہیں ہونگے کیونکہ ان کے متعلق یہ تجزیہ طے شدہ ہے کہ ” طالبان ایسی تنظیم ہے جس کی ماہیت دہشت گردانہ ہے اور اس تنظیم کے طرز عمل اور مطالبات میں کہیں بھی امن پسندی یا پرامن بقائے باہمی کی خواہش کا تاثر نہیں ملتا۔“طالبان کے ساتھ مذاکرات میں اس نکتہ کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں ان مذاکرات کے نتیجے میں طالبان کو سنبھلنے کا وقت تو نہیں مل رہاکہیں ایسا تو نہیں ہورہا کہ وقتی طور پر وہ خاموش ہوجائیں اور کل مزید منظم اور طاقتور بن کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کردیں۔پھر جو ان مذاکرات میں سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ان قاتلوں کے کئی گروپ ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں جو12 یا 13 بتائے جاتے ہیں کیا اب مذاکرات کیلئے سب گروپس کے نمائندے بلائے جائیں گے یا فرداً فرداً ایک ایک گروپ سے مذاکرات کئے جائیں گے ۔پھر وہ غیر ملکی طاقتیں جو ان طالبان کو وسائل فراہم کر رہی ہیں ۔کیا وہ ان مذاکرات کو کامیاب ہونے دیں گی نواز شریف انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں یہ بڑی اچھی بات ہے مگر طالبان کو وسائل فراہم کرنے اور بلوچستان میں گڑبڑ کرانے میں جو واضح طور پر بھارتی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اس سلسلے میں بھی نواز شریف کو بھارتی وزیر اعظم بات کرنا چاہئے ۔

وگرنہ دہشت گردی نہیں رک سکے گی اگر طالبان کے ایک گروپ کے ساتھ مذاکرات کامیاب بھی ہوگئے تو بیرونی طاقتیں دوسرے گروپ کو وسائل فراہم کرنے لگیں گی ۔مجھے تحریک انصاف کے صوبہ پختونخوا کے نامزد وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر بھی بہت حیرت ہوئی ہے کہ انہیں ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ دہشت گردی کون کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جو بھی دہشت گردی کرتے ہیں ’ہم انہیں درخواست کرتے ہیں کہ صوبے میں امن ہونا چاہیے، وہ جو عزت مانگتے ہیں ہم دینے کو تیار ہیں‘ اور ہم ان کو دوبارہ معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔پہلی حیرت تواس بات پر ہے پاکستانی فوج جو کئی سال اپنے شمالی علاقوں میں برسر پیکار ہے ۔کیا اسے معلوم ہی نہیں کہ وہ کس کے ساتھ لڑ رہی ہے اور کیوں لڑ رہی ہے ۔دوسری بات وہ جو ہمارے بچوں کو قتل کر رہے ہیں یا قتل کرچکے ہیں آپ کون ہوتے ہیں کہ قاتلوں کو عزت دینے والے ۔پاکستان کی عوام طالبان کے ساتھ ہونے والے ان مذاکرات کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ کہیں لیڈران کرام اپنی جانیں محفوظ رکھنے کیلئے پاکستانی عوام کے خون کا سوداتو نہیں کر رہے ۔نوازشریف نے ایک بات پوچھی ہے کہ ”میں طالبان کے ساتھ بیٹھ کر بات کیوں نہ کروں “تو ان کی خدمت میں اتنی درخواست ہے کہ آپ طالبان کے ساتھ بیٹھ کر بات کریں یا کھڑے ہوکر آپ کی مرضی ہے آپ اس وقت پاکستانی جنگل کے شیر ہیں آپ کو کون روک سکتا ہے مگر یہ ضرور سوچئیے کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ بیٹھ رہے ہیں ۔وہ کون ہیں۔ انہوں نے کیا کیا ہے ۔وہ کس کس دشمن ملک کے ایجنٹ بنے ہیں اور ان تمام باتوں کے باوجود آپ سمجھیں کہ آپ کو ان کے ساتھ بیٹھنا چاہئے تو ضرور بیٹھیں ۔۔۔۔ اورجہاں جی میں آئے وہاں بیٹھیں۔

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے