فیصل بٹ سے عمران خان تک. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

فیصل بٹ سے عمران خان تک

فیصل بٹ سے عمران خان تک

آج پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کے میدان میں جنگ لڑی جا رہی ہے ۔اسی پس منظرمیں انڈین وزیر اعظم نے پاکستانی وزیراعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔سرحدوں پر بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کی نیک خواہشات کا دونوں طرف سے اظہار ہوااورلوگوں کو جنرل ضیا یاد آگئے۔انہوں نے ہی پہلی بار کرکٹ کے میدان جنگ سے عسکری جنگوں کی روک تھام کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ کر کٹ کے میدان میں لڑئی جانے والی جنگ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی اندازمیں برپا رہتی ہے۔۔بمبئی میں دہشت گردی ہوئی اور بھارت نے اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کردیاتو سری لنکا نے اپنی ٹیم پاکستان بھیج دی۔یہ بات بھارت کیلئے بڑی تکلیف دہ ثابت ہوئی۔بھارتی حکومت کی دعائیں رنگ لائیں اور سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں دہشت گردی کا حملہ ہوگیا۔دہشت گردی کے اس سانحے نے کرکٹ کھیلنے کیلئے آنے والی ٹیموں پر پاکستانی میدانوں کے دروازے بند کردئیے۔دہشت گردوں نے نہ صرف پاکستان اور پاکستانیوں سے کرکٹ چھیننے کی کوشش کی بلکہ پاکستان کے خوبصورت چہرے کو بھی دنیا بھر میں مسخ کیا۔

میں کالم لکھنے کیلئے اس حملے کی تفصیلات سرچ کر رہا تھا تومیرے سامنے وزارت اطلاعات کا ایک ویڈیو آگیا اور میں پرویز رشید کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔پرویز رشید کے بارے میں میرے دوستوں کی بہت اچھی رائے ہے۔وہ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ میں سوچتا تھا کہ کوئی خوبی تو وزیر اطلاعات میںضرور ہوگی وہ لوگ جنہیں میں اپنے دوستوں میں شمار کرتا ہوںآخروہ پرویز رشید کا ذکر اتنے اچھے انداز میں کیوں کرتے ہیں۔اس ویڈیو کا نام’’ فیصل بٹ‘‘ ہے۔یہ اس شہیدسپاہی کی داستان ِ لازوال ہے جس نے 96 گولیاں اپنے سینے پر کھا کر سری لنکا کی ٹیم کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھا تھا۔ وزارت ِ اطلاعات کے جس ادارے نے یہ ویڈیو بنائی ہے میںآج کے دن اسے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ فیصل بٹ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ کی اہمیت دونوں ممالک میں بہت زیادہ ہے۔دونوں ممالک کے لوگ اتنے پُرجوش ہوتے ہیں کہ ان کیلئے جیت زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔یعنی ہم دونوں کا ورلڈ کپ یہی ہوتا ہے۔ پاک بھارت کرکٹ کے تقریباً ہرمیچ میں کھلاڑیوں کے درمیان تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا بلکہ کئی میچز میں تو خاصی لڑائی ہوئی۔یعنی دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو بھی اس بات کا احساس رہتا ہے کہ ہم کھیل نہیں رہے بلکہ اپنے ملکوں کے عوام کی خواہشات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

کرکٹ کا آغاز برطانیہ سے ہوا تھا۔یہ اس زمانے کی بات ہے جب یورپ تاریک صدیوں میں تھا اور چرچ اقتدار میں بادشاہوں کا مکمل طور پر شریک ہوا کرتا تھا۔ یہاں نائٹ بنانے کا سلسلہ شروع ہوا سات سال کے بچے کو کسی بڑے لارڈ کے حوالے کردیا جاتا تھا۔ جہاں اس کی تعلیم شروع ہوتی تھی اسے مذہبی باتیں سکھائی جاتی تھیں وہ تلوار بازوں اور گھڑ سواروں کی خدمت کرتا تھااسے تہذیب بھی سکھائی جاتی تھی تیرہ سال کی عمر میں وہ نائٹ کا نائب بن جاتا تھا جسے اسکوائر کہتے تھے اب اسے تلوار بازی اور نیزہ بازی کی تربیت دی جاتی تھی گھڑ سواری میں مہارت حاصل کرتا تھا اس کیلئے جنگی مشقوں کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ یہ اسکوائر اپنے ماسٹر کے گھوڑوں کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے ان کی زرہ بکتر اور ہتھیار وغیرہ پالش کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی تھی ان کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی تھی کہ جنگ میں اگر نائٹ گرنے لگے تو اس کی مدد کریں۔ جب یہ ا سکوائر اٹھارہ سے اکیس سال کی عمر میں پہنچتے تھے تو ان کی کارکردگی دیکھ کر انہیں نائٹ بنایا جاتا تھا ۔ انہی لڑکوں کے کھیلنے کیلئے کرکٹ کا کھیل ایجاد کیا گیا تھا۔یعنی بنیادی طور پر یہ نائٹز کا کھیل تھا۔نائٹ عیسائیت میں باقاعدہ مجاہد سمجھے جاتے تھے ۔نائٹ بنانے کی تقریب کے آغازمیں نائٹ کو پہلے باقاعدہ غسل دیا جاتا تھااس کے بعد وہ چرچ میں تمام رات اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا تھا اورعبادت میں مشغول رہتا تھا دوسرے دن وہ سفید لباس میں تلوار لے کر چرچ کے بڑے ہال میں لایا جاتاتھا جہاں چرچ کا بڑا پادری اس کی تلوار پر اور اس کے جسم پر ہاتھ پھیرتا تھا ۔اس کے بعد وہ پادری کے آگے جھکتا تھا پھر لارڈ کے آگے جھکتا تھا ۔لارڈ سے ایک سوال کرتا تھا اسکے جواب سے اگر لارڈ مطمئن ہوجاتا تھا تو اس کے نائٹ بنانے کی تقریب جاری رہتی تھی اسے باقاعدہ خواتین نائٹ کا لباس پہناتی تھیں۔وہ مکمل طور پر تیار ہوکر پھر اپنے لارڈ کے سامنے جھکتا تھا۔لارڈ اسے تلوار دیتا تھا اور تین مرتبہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھتا تھا اور کہتا تھا کہ تمہیں گاڈ اور سینٹ جارج کے نام پر نائٹ بنایا جارہا ہے۔یہی نائٹ جب کوئی کارنامہ سرانجام دیتے تھے تو انہیں نائٹ ہڈ کا اعزاز دیا جاتا تھا۔ جسے نائٹ ہڈ کا اعزاز دیا جاتا تھا اسے ساتھ ’’سر ‘‘ کا لقب بھی مل جاتا تھا۔نائٹ ہڈ کا اعزاز حاصل کرنے والے کرکٹر کی ایک طویل فہرست ہے ۔کچھ دنوں کی بات ہے برطانیہ کے ایک سیاہ فا م بچے نےا سکول میں کہا ہے کہ میرے باپ نے مجھے کرکٹ کھیلنے سے منع کر دیا ہے۔ وہ بچہ کرکٹ کا بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ا سکول والوں نے اجازت کیلئے بچے کے باپ سے رابطہ کیا تو اس نے کہا’’میں اپنے بچے کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا مجھے اس کھیل سے برٹش امپائرکے مظالم کی یاد آتی ہے۔‘‘میں نے اس حوالے سے غور کیا تو معلوم ہوا ہے کہ کرکٹ برطانیہ کی ایجاد ہی نہیںبلکہ آج بھی صرف ان ممالک کا یہ مقبول ترین کھیل ہے جو برطانیہ کے زیر تسلط رہے ۔یعنی کرکٹ برطانیہ کا ایجادکیا ہوا وہ کھیل ہے جو نوآبادیاتی دور میں برطانیہ کے زیرقبضہ تمام علاقوں میں پہنچا۔ بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش ، سری لنکا ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، زمبابوے اور ویسٹ انڈیز وہی ممالک ہیں جہاں کسی زمانے میں برطانیہ کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔کرکٹ کا کھیل جیسے بھی وجود میں آیا مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔میں خود بھی کرکٹ کھیلتا ہوں اور میرے بچے بھی کھیلتے ہیں ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستانیوں کو کرکٹ اتنا پسند ہے کہ جس کرکٹر نے 1992کے ورلڈ کپ میں پاکستان کو فتح دلائی تھی پاکستانی قوم نے اسے اپنالیڈر مان لیاہے مگر میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا ۔میرے خیال میں اٹھارہ سال تک مسلسل یہ قوم اس عظیم کرکٹر کے قول و فعل کو دیکھتی رہی ہے۔ پھر کہیںجا کرکہا ہے’’ عمران خان زندہ باد‘‘۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے