فلسطین کیلئے بارگاہِ رسالت میں استغاثہ. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

فلسطین کیلئے بارگاہِ رسالت میں استغاثہ

فلسطین کیلئے بارگاہِ رسالت میں استغاثہ

میرے آقا ﷺ میرے مولاﷺ!یہ کیا …. کیسے ستم کی داستاں میرے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے کہ تیرے نعت گوکومرثیہ لکھنا پڑا ہے۔ نواح ِ کربلا میں ظلم کی کیسی کہانی وقت بُنتا جارہا ہے۔ مجھے لگتا ہے شاید اس قریۂ کرب و بلا کی قسمتِ خوں ریزمیں بس مرثیے لکھے ہوئے ہیں ۔ مجھے اس شہرکی تاریخ کو معلوم کرنا ہے۔ مجھے یہ سوچنا ہے کہ آدمی کے خون کی یہ خاک پیاسی اس قدر کیوں ہے ۔ یہی سے باپ کیوں بچوں کی لاشیں اپنے ہاتھوں پر اٹھاتے ہیں۔ یہیں پر مائوں کی قسمت میں کیوں لکھا گیا ہے کہ جواں بیٹوں کی لاشوں پر مسلسل بین کرنے ہیں۔ وہی کیوں صورتِ احوال پھردشتِ وفا میں ہے۔

میرےآقا میرے مولا! میرے ہارے ہوئے مظلوم دل کو مرثیہ خوانی کی ہمت دے ۔ ہمارے عہد کی برسوں سے جاری کربلا پرتیری امت کی یہ مجبوری بھی کیسی ہے کہ ہم مرتے ہوئوں پر بین کرنے سے گریزاں ہیں۔ مجھے تیری قسم سب صاحبان ِ حرف گم سم ہیں۔ ان کی خامشی میں خوف ہے یا درہم و دینار کا لالچ۔ میرے آقا مجھے کہنے دے یہ نفرت کے قابل ہیں۔

قلم کو جو پکڑتی ہیں وہ تینوں انگلیاں بہتر ہے کٹ جائیں کہ سچائی نہیں لکھتیں۔ مرثیہ خوانوں کی آوازیں سنائی کیوں نہیں دیتیں۔ مسلسل کربلا آباد ہے خاکِ فلسطین پر۔ کوئی جلتے گھروں کے مرثیے لکھے۔ لہولتھڑےسروں کےمرثیے لکھے۔ لکھے کہ شبیر کا جو ماننے والا ہے۔ وہ توپوں بموںسے ڈر نہیں سکتا۔ لکھے کچھ تو لکھے کہ فاختائیں خون میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ لکھے کچھ تو لکھے کس نے یہاں زیتون کی ٹہنی سے بم باندھا ہوا ہے۔ لکھا جائے کہیں کچھ امنِ عالم کی تمنا میں۔ اُفق پر شام کی سرخی کسی سفاک شب کی پھر بشارت دے رہی ہے۔ میرے آقا میرے مولا انہیں آواز دیتا ہوں جو انسانی سروں کی حرمتوں کے گیت لکھتے ہیں۔ جو تہذیبوں کے حامل ہیں۔

جہاں مرتی ہوئی بلی پہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، وہ جن کے دل دھڑکتے ہیں انہیں آواز دیتا ہوں جنہوں نے امن کے نوبل پرائز اپنے سینے پر سجائے ہیں۔ کوئی توبے گناہوں کے لہو آشام موسم پر ذرا بولے ۔ چلو دھیمے سروں میں ہی سہی۔ آواز تو آئے مگر یہ امن کے پیغام براپنے خدائے ظلم کی ناراضگی سے سہم جاتے ہیں۔ خدائے ظلم کے باغی قبیلوں کو سلام۔

انہیں آواز دیتا ہوں۔ محبت کے جو نغمے گنگناتے ہیں۔ مسیحا کے جو وارث ہیں۔ مسیحا جس نے مُردوں کو دوبارہ زندگی بخشی ۔ کسی کو قتل کرنا اس کے مذہب میں روا ہو ہی نہیں سکتا…..مسیحا جوفروغِ عشقِ انساں میں صلیبوں پر سجا تھا۔ جو امن و آشتی کے باب میں اتنازیادہ صبر والا تھا کہ کہتا تھا تمہارے دائیں عارض پراگر تھپڑ کوئی مارے تو تم اس کی طرف چپ چاپ بایاں گال بھی کردومگر خاموش کیوں ہیں ابن ِ مریم کو خدائے لم یزل کا کچھ نہ کچھ یہ ماننے والے کہ انسانوں کو جرم ِ بے گناہی کی سزائیں مل رہی ہیں۔

نہیں شاید…انہیں محسوس ہوتا ہے کہ توپوں سے نکلتی آگ تو تاریکیاں کافورکرتی ہے۔ بموں کی آتشیں برسات تو اس عہد تازہ کا چراغاں ہے۔ انہیں آواز دیتا ہوں۔ جو کہتے ہیں
’محبت کا ہے ایماں بجلیوں پر مسکرادینا ۔ محبت کا ہے مذہب آگ پانی میں لگا دینا۔ محبت ہونکتے شعلوں کو سینے سے لگاتی ہے۔ محبت آتشِ نمرور میں بھی کود جاتی ہے۔‘اُٹھو اِس کربلا کی آگ پر پانی نہیں آنسو ہی برسا دو۔ اُسے آواز دیتاہوں کہ شاید انجمن اقوامِ ِعالم نیند سے جاگے۔ مگر کیسے….اسے توظلمتوں کے تازہ رکھوالے نے اپنے گھر میں لونڈی کی طرح رکھا ہوا ہے۔

میرے آقا ! سوا تیرے !کسے آواز دوں کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ کہوں کس سے کہ ظالم کے پکڑ لے ہاتھ کو جا کر۔ ستم کی آخری حد ہے ۔ کہیں یہ دنیا کانٹوں سے بھری وادی نہ بن جائے۔ مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ ہراک پھول کو کھلنے کا حق ہے۔ یہ آزادی ہے خوشبو کو کہ ہرگلشن کومہکائے ۔ طلوعِ صبح کامنظر ہے ہر اِک آنکھ کی خاطر۔ ہوا ہر شخص کوسانسیں فراہم کرتی رہتی ہے۔ جہاں میں ہر کسی کوپورا حق ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق زندگانی صرف کرنے کا۔ جنم جن کو دیا آزاد مائوں نے انہیں طوق ِ غلامی کوئی پہنا ہی نہیں سکتا….

میرے آقا!مری اتنی دعا ہے بس ۔۔

زمیں پر امن کی تہذیب غالب ہو۔ سیہ توپوں کے تیرہ تر دہانوں میں ملائم فاختائوں کا بسیرا ہو۔ کوئی زیتون کی ٹہنی کہیں بمبار طیاروں میں اُگ آئے۔ اگرچہ ایسا ہوتا تو نہیں لیکن خدا کے کار خانے میں کبھی یہ ہو بھی سکتا ہے ۔ خدا تو پھر خدا ہے نا۔ میر ے آقا میرے مولا!ضرورت ہے تری اُس رحمتہ للعالمینی کی کہ جو سایہ فگن ہے آسمانوں اور زمینوں پر۔ اسے برسا دے امت کے لہو آباد سینوں پر۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے