عمران خان کی غلط فہمی. منصور آفاق
دیوار پہ دستک

عمران خان کی غلط فہمی

عمران خان کی غلط فہمی

منصور آفاق

بارہ جنوری2015 کو عمران خان نے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔دو فروری2015 کویعنی تقریبااٹھارہ بیس دن کے بعدہمارے وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’عمران خان کی طرف سے اسپیکر قومی اسمبلی کے استعفے کا مطالبہ غیرقانونی ہے ‘‘مطالبے کے بارے میں لگتا ہے خاصی تحقیق کی گئی ہے ۔کئی قانونی ماہرین سے مشورے کئے گئے ہیں تب ہی تو اتنے دن لگ گئے ۔وگرنہ عمران خان کو جواب تو دوسرے دن ہی دیا جاسکتا تھا۔ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ 2 فروری کوعمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات بھی کی تھی ممکن ہے یہ بات چیف الیکشن کمشنر کے نوٹس میں بھی لے آنی ہوکہ استعفے کا مطالبہ قانونی نہیں۔ایک وجہ اور بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ 2 فروری کوعمران خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے (ن) لیگ پریہ الزام بھی لگایا کہ (ن) لیگ والے اتنے نااہل ہیں کہ ٖ ڈھنگ کے ساتھ دھاندلی بھی نہیں کر سکے۔عمران خان کے بقول کہ ہم نے جو فرانزک ٹیسٹ کرائے ہیں ان سے پتہ چلا ہے کہ بیس پولنگ اسٹیشنوں کےچودہ فارم ایک ہی آدمی کے بھرے ہوئے ہیں اور تمام فارموں پر ایک ہی شخص نے دستخط کئے ہیں۔عمران خان نے یہ حیرت انگیز بات بھی بتائی کہ پچاس پولنگ اسٹیشنوں کے فارم نمبرچودہ اور پندرہ دیتے ہوئے اورپرایزیڈنگ آفیسر نے دستخط کئے ہوئے ہیں اور واپس لیتے ہوئے کسی اورنے دستخط کئے ہیں۔عمران خان کے اس بیان پرتبصرے کرتے ہوئے ہمارے ایک (ن) لیگی دوست نے کہاکہ چلو عمران خان نے یہ تو مان لیا کہ (ن) لیگ نے زندگی میں پہلی بار دھاندلی کی ہے اورمجھے وہ شریف آدمی یاد آگیاجو زندگی میں پہلی بار چوری کرنے ایک گھر میں گیا وہاں کافی تلاش کے بعد ایک تجوری دکھائی دی جس پر عبارت درج تھی کہ تالا کھولنے کیلئے توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔سائیڈپر لگا ہوا بٹن دبا دیں۔ اس نے لکھے پہ اعتبار کیا اوربٹن دبا دیا۔بٹن دباتے ہی وہاںپولیس پہنچ گئی۔پولیس نے اس سے پوچھاکہ تمھیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے تو چور نے بڑے دکھ سے کہا’’آج میراانسانیت سے اعتبار اٹھ گیا ہے‘‘(ہائے بیچارے نون لیگ والے )
عمران خان جب چیف الیکشن کمشنرسے ملنے گئے توکمرے میں داخل ہونے سے باہر نکلنے تک لمحہ لمحہ کی خبرقومی ا سمبلی کے دفاتر میں برقی لہروں پر چکراتی رہی ۔حلقہ ایک سو بائیس میں ہونے والی بوالعجبی کے بارے میں تو عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کوبتانا ہی تھاعمران خان نے لگے ہاتھوںبیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے ووٹ کی یاد دہانی بھی ضروری سمجھی۔حیرت ہے سپریم کورٹ کے اتنے واضح احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔

عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر سے ایک مطالبہ اور بھی کیا کہ آئندہ الیکشن بائیو میٹرک سسٹم کے تحت کرائے جائیں تاکہ کوئی دھاندلی نہ کر سکے۔میرے خیال میں یہ عمران خان کی غلط فہمی ہے کہ بائیو میٹرک سسٹم کے بعد دھاندلی نہیں ہوسکے گی ۔یار لوگ بڑے استادہوتے ہیں۔ کوئی نیا راستہ تلاش کر ہی لیں گے۔اس مرتبہ بھی دھاندلی روکنے کیلئے کروڑوں روپے کی مقناطیسی سیاہی منگوائی گئی تھی۔شنا ختی کارڈ کے ساتھ لسٹ میں نام کے ساتھ ووٹر کی تصویر لگائی گئی تھی۔اتنی محنت اور اتنے اخراجات کے بعد بھی بقول اعتزاز احسن تھیلوں سے ووٹوں کی بجائے ردی برآمد ہوئی ۔ان کا شاید خیال تھا کہ ووٹوں کے تھیلوں سے نوٹ برآمد ہوں گے۔(اگرچہ پاکستان میں یہ کاروبار غیر قانونی ہے مگررب جانتا ہے کہ ایک ووٹ کے بدلے خاصے نوٹ مل جاتے ہیں )

این اے ایک سو بائیس کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ سابق سیشن جج غلام حسین اعوان کی رپورٹ تو میں نے نہیں پڑھی مگر ان کی طرف سے کیا گیا یہ اعلان ضروری سناہے کہ اس حلقے میں دھاندلی کے کوئی شواہد نہیں ملے بس ووٹوں کے پندرہ تھیلے کھلے ہوئے تھے ۔دس تھیلے مناسب طریقے سے سیل نہیں کئے گئے تھے ۔انہی تھیلوں میں فارم نمبر پندرہ موجود نہیں تھے ۔دوسو چار کاونٹر فائلوں کے سیریل نمبرایک دوسرے سے میچ نہیں کرتے تھے ۔متعدد پولنگ اسٹیشنوں کی کاونٹر فائلوں پر دستخط نہیں تھے۔اس کے علاوہ این اے ایک سو چوبیس کے ووٹ بھی این اے ایک سو بائیس کے تھیلوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ بالکل درست کہا ہے ،انہوں نے کہ دھاندلی کے کوئی شواہد نہیں ملے ۔گنتی کے مطابق ایاز صادق کے ووٹ زیادہ ہیں اور عمران خان کے کم ہیں۔اللہ بھلا کرے سابق سیشن جج غلام حسین اعوان کا۔ کیسی مزے دار بات ہے کہ ان کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد صرف تحریک انصاف کے حامیوں نے بھنگڑے نہیں ڈالے (ن) لیگ کے حلقوں میں بھی مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے