
عمران خان کا 23مارچ
عمران خان کا 23مارچ
اگرچہ عمران خان کا جلسہ پشاور میں ہوا ہے مگر پریشانی لاہور میں نواز شریف کو ہوئی ہے۔ اس جلسے میں عمران خان نے مطالبہ کیا ہے کہ جن سیاست دانوں نے انتخابات میں ایجنسیوں سے پیسے لئے ان پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگائی جائے مگر یہ بات نواز شریف کے لئے پریشان کن نہیں تھی، ان کی پریشانی کی وجہ اس جلسے میں لوگوں کی تعداد تھی۔ ان کے ماتھے پر بل اس لئے آئے کہ وہ جلسہ ان کی توقع سے کئی گنا بڑا تھا۔یقینا یہ نیند اڑانے والی بات ہے۔ اس بات نے دماغ کے اندر23 مارچ سے شروع ہونے والے سونامی کی آمد کے سگنل کو جلنے بجھنے پر مجبور کر دیا۔وہ لوگ جو سوچ رہے تھے کہ عمران خان کے سونامی کو عوام کا سمندر نگل گیا ہے۔اب انہیں سونے کی مچھلیوں کے شکار سے کوئی نہیں روک سکتا۔ان بیچاروں کیلئے واقعی یہ بہت بری خبر تھی دراصل عمران خان کی حکمت عملی ان کی سمجھ میں ہی نہیں آئی تھی۔ انہوں نے اس بات پر غور ہی نہیں کیا کہ یہ اچانک عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کو سست رفتارکیوں کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ میری اطلاع کے مطابق اس تمام تر سست روی کے پیچھے دو باتیں تھیں۔ایک تو یہ کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے وہ لوگ جو عمران خان کی عوام میں مقبولیت کو کیش کرنے کے لئے تحریکِ انصاف میں شامل ہونا چاہتے ہیں ان کے بوجھ سے تحریک ِ انصاف کو کس طرح محفوظ رکھا جائے۔ مسئلہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ اگر کوئی موجودہ کرپٹ حکومتوں کا ایم این اے اپنے سیکڑوں ساتھیوں سمیت تحریکِ انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیتا تو لوگ سمجھتے کہ عمران خان بھی شریف، زرداری کی طرح اقتدار حاصل کرنے کیلئے تمام تر تگ و دو کر رہاہے، وہ بھی نظام میں تبدیلی نہیں چاہتا اور جب اُس ایم این اے کو انتخابات کے موقع پر تحریک انصاف سے پارٹی کا ٹکٹ نہ ملتا تو وہ اس وقت پارٹی چھوڑ کر یا اس میں رہ کر اسے زیادہ نقصان پہنچاتا۔
دوسری بات یہ تھی کہ اگر اس عوامی مہم کو اسی طرح برقرار رکھا جاتا تو الیکشن تک پہنچتے پہنچتے کارکن تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے اور میدان میں اترتے وقت وہ بھرپور انداز میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہ کر سکتے۔ سو عمران خان نے جان بوجھ کر سونامی کو سلا دیا ۔اس سے عمران خان کو ایک فائدہ اور بھی ہوا کہ اسے انہیں اپنے حریفوں کی طاقت کا مکمل ادراک ہوگیا کہ وہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔ ان کی انتخابی حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے۔ لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے موجودہ صاحبانِ اقتدار وعدوں کے کون کون سے اشتہارات شائع کرتے ہیں۔ کون کون سے دام بچھاتے ہیں۔ اب جب23 مارچ کے دن سونامی اپنی پہلی کروٹ لے گا تو اقتدار سے باہر آنے والی دونوں جماعتوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا کہ وہ اس سونامی کا کوئی توڑ نکال سکیں۔
کیا کہوں پشاور کے جلسے کے متعلق۔ اس جلسے نے شریف خاندان کو اتنا پریشان کیا کہ بادامی باغ میں کرسچین کی جلی ہوئی بستی میں حمزہ شریف رات ایک بجے پانچ پانچ لاکھ کے پچاس چیک لے کر پہنچ گئے خود شہباز شریف نے بھی وہاں متاثرین سے ملاقات کی اور ایک ہفتے کے اندر اندر جوف کالونی میں نئے گھروں کی تعمیر مکمل کرانے کا اعلان کیا۔ ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا۔ ایسی شاندار کارکردگی پر مجھے خانیوال کی بستی شانتی نگر یاد آگئی وہ بھی پنجاب میں ہی تھی اس جرم میں کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی اور جو رقم دی گئی وہ موجودہ رقم سے آدھی بھی نہیں تھی۔گوجرہ میں جن لوگوں نے چار کرسچین کو زندہ جلا دیا تھا وہ لوگ بھی پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں اور نون لیگ کے ہمدرد بھی ہیں۔یہ معترضہ باتیں تو یونہی درمیان میں آگئی ہیں۔ بات سونامی کی ہو رہی تھی۔ عمران خان نے اپنی سست رفتاری کے دورانیے سے ایک اور فائدہ بھی اٹھایا کہ اس عرصہ میں سونامی کی لہروں پر بھرپور کام کیا۔ پارٹی الیکشن کرائے، جس کے عجیب و غریب نتائج سامنے آئے۔ مختلف علاقوں میں بہت ہی غریب اور مزدور پارٹی ورکروں کو بڑے بڑے عہدے مل گئے، پہلی بار یہ بات سامنے آئی کہ تحریک انصاف صرف متوسط اور پڑھے لکھے لوگوں کی پارٹی ہی نہیں اس میں ملک کے مزدور اور غریب عوام بھی شامل ہو چکے ہیں۔
پیپلزپارٹی سے مایوس ہونے والے کہاں جاتے۔ شہباز شریف کے سوشلسٹ مزاج کو جان لینے والوں کے پاس اور کون سا راستہ رہ گیا تھا۔ گزشتہ پانچ سالوں میں جن لوگوں نے پاکستانی عوام سے لوڈشیڈنگ کے نام پر ہمیشہ کیلئے روشنی چرالی، سستی روٹی کے نام پر سوکھے ہوئے نوالے چھین لئے، دانش اسکولوں کے نام پر سیکڑوں پرائمری اسکول ویران کر دیئے۔ لیپ ٹاپس کے نام پر دو لاکھ گھروں میں لوگوں کے خرچے پر اپنے انتخابی اشتہار بھجوائے۔ کیا اب بھی غریب عوام انہی پارٹیوں میں شامل رہتے، لوگ سب کچھ جان چکے ہیں ۔وہ عقلمند جو صرف لاہور میں کھربوں روپے لگا کر یہ سوچ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی نشستیں محفوظ کر لی ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عوام کو علم ہو چکا ہے کہ وہ کون ہیں جنہوں نے ان سے روزگار چھین لیا ہے، وہ کون ہیں جنہوں نے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیئے ہیں، وہ کون ہیں جنہوں نے اپنی دولت کو دگنا اور تگنا کرنے کیلئے اتنی مہنگائی کر دی ہے کہ غریب باپ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ بازار نہیں لے جا سکتے۔ وہ لوگ جنہوں نے ملک بھر کی دولت کا ارتکاز اپنے چند گھرانوں تک محدود کر لیا ہے وہ صرف سرکاری لیپ ٹاپس دے کر سوچتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کے ووٹ نہیں خرید سکتے تو یہ ان کی سادہ لوحی ہے۔ میڈیا کی آزادی نے سماج ہی بدل دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس بات کا اندازہ انہیں23مارچ سے پہلے نہیں ہو سکتا۔
اور وہ اہل قلم، وہ کالم نگار، وہ صحافی، وہ اینکر پرسن، وہ ذرائع ابلاغ کے مالکان جو ظلم کے اس گرتی ہوئی دیوار کے آگے خوابوں کی فصیلیں تعمیر کر رہے ہیں انہیں بھی معلوم ہو جائے گا کہ بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ صرف موڑتی ہوئی موجوں کی کاغذ پر تصویر بنا لینے سے دریا نہیں پلٹ سکتا۔ پاکستان کے عوام فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ ہر حال میں ان چوروں، لٹیروں اور وڈیروں سے نجات حاصل کر کے رہیں گے۔ نواز شریف چاہے تین نشستوں پر الیکشن لڑیں یا تیس نشستوں پر،کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ بلاول بھٹو زرداری چاہے اپنے نام سے زرداری کا لفظ ہٹا کر صرف بلاول بھٹو ہی بن جائے عوام اب فریب میں آنے کو تیار نہیں۔ اسے معلوم ہے کہ بلاول بے نظیر بھٹو کا بیٹا ”تھا“ مگر اب زرداری کا بیٹا ”ہے“۔ یہ ماضی اور حال کا صیغہ اس کے کردار کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔ایک اور بات جس کا شاید مکمل اندازہ ابھی تک اہل قتدار کو نہیں کہ وہ سونامی جس کی عمران خان بات کرتا ہے وہ سونامی صرف عمران خان کی وجہ سے نہیں آر ہا اس سونامی میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی حکومتوں کا بہت زیادہ کردار ہے۔ انہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اسی کے سبب غریب عوام ہر چیزکو تہہ و بالا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو تو اللہ تعالیٰ نے صرف اس سونامی کی قیادت کا فریضہ سونپا ہے۔ سونامی کی زد میں صرف جاتی عمرہ سے نواب شاہ نہیں، کوئٹہ اور پشاور بھی ہیں جس کا اندازہ عمران خان کے پشاور کے جلسے سے لگایا جا سکتا ہے اور میں تصور کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں کہ دو ہزار تیرہ ان دونوں پارٹیوں کیلئے کسی آسیب سے کم ثابت ہونے والا نہیں۔ اسی سال ان دونوں پارٹیوں کو سہارا دینے والی ساری طاقتور ہوائیں ریٹائرڈ ہونے والی ہیں۔

